یہ کیسی تبدیلی ہے کچھ نہیں بدلا
ہر سانحے، ہر حادثے کے بعد جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں
کیا خواب تھے آنکھوں میں کیا دل میں تمنا تھی، چھوٹا ہوکہ بڑا، خوشحال کہ بد حال، ہر ایک کی زباں پر بس ایک ہی نعرہ تھا:
بٹ کے رہے گا ہندوستان
بن کے رہے گا پاکستان
اور واقعی پاکستان بن گیا۔ کس کس نے قیام پاکستان کے لیے کیا کیا کوشش کی، کس نے کتنا حصہ ڈالا۔ بے شک پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ (کلمہ طیبہ) ہے۔ خود اگرچہ دیکھا نہیں مگر سنا تو ہے، پڑھا تو ہے کہ قیام پاکستان وہ نعمت عظمیٰ تھی کہ ہر نعمت دنیاوی (معاشرتی) سے محروم ہونے والے آزاد وطن کی نعمت میسر آنے پر ہر حال میں مست و مطمئن تھے، کتنے ایسے تھے کہ سر پہ چھت نہیں پیٹ میں روٹی نہیں، تن پر سالم لباس نہیں۔ نہ حویلی، بنگلے، کوٹھی کی تمنا نہ لذیذ کھانوں کی فکر نہ الماریاں اور صندوق بھرے کپڑے کا خیال، مگر اطمینان و سکون کی دولت سے مالا مال۔ پاکستان کئی برس کا ہوگیا۔
لوگ ایک دوسرے کے غم وخوشی میں شریک ۔ جو جس محکمے میں کام کر رہا ہے اپنی ترقی وخوشحالی کے لیے نہیں، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے، ہندوستان کو پیچھے چھوڑکر پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے۔ ''اجڑے تھے کئی شہر تو یہ شہر بسا تھا'' کے مصداق ہر شہر سے آنے والے اپنے علاقائی رسم و رواج، طرز زندگی کے ساتھ اپنے اپنے مسلک، عقیدے پر عمل پیرا (مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی) نہ کوئی کسی سے پوچھتا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ نہ کسی کو کسی کے عمل پر اعتراض ہوتا سب آپس میں دوست پڑوسی اور ان رشتوں کو اچھی طرح نبھایا جاتا۔ مگر اس اتحاد و یگانگت سے جن کی سرداری، چوہدراہٹ کو (جو ان کے آقا قائم کرا گئے تھے) قائد اعظم و قائد ملت کے افکار و طرز فکر سے خطرہ لاحق ہوا انھوں نے ان دونوں کے بعد بلکہ قائد ملت کو راستے سے ہٹا کر رفتہ رفتہ پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے مذہب کو استعمال کیا، جس کلمے کی بنیاد پر آزاد وطن کا قیام عمل میں آیا تھا اس کو ایسے ایسے رنگ اور پہلوؤں سے پیش کیا جانے لگا کہ وہ مطمئن و مسرور دوست اور پڑوسی ایک دوسرے سے نہ صرف دست و گریباں ہوگئے بلکہ ایک دوسرے سے ملنا اور ایک دوسرے کے گھر کا کھانا کھانا بھی ترک کرنے لگے بلکہ ایک دوسرے کے دشمن اور خطرہ بنتے گئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کارکردگی کے بجائے بے کاری، اہلیت کی جگہ نااہلی اور نتیجتاً ملک کا پہیہ جام۔
پاکستان جب سے اسلام کا قلعہ، عالم اسلام کا مرکز نگاہ ، دین کا گہوارا قرار دیا گیا، جس دین نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا وہاں دن دہاڑے سرعام روز کئی قتل ہونا معمول بن گیا۔ جو اسلام حضور حتمی المرتبت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے اللہ نے اپنے بندوں تک پہنچایا تھا اس کا بنیادی تصور ہی ایک کے بجائے جانے کتنے تصورات میں بٹ گیا۔ جس کو اور کچھ نہ سوجھا اس نے ایک مذہبی جماعت بنالی پھر اپنے مذہبی نظریے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مدرسوں میں بچوں کو تربیت دی گئی جب کافی مبلغ تیار ہوگئے تو سیاست میں بھی قدم رنجا فرما دیا یوں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے بجائے مسلکی نظریے کو سیاسی طور پر فروغ دیا جانے لگا، مدارس کی تعداد بڑھتی گئی سرکاری اسکول جہاں سے آج کی کئی جامعات کے وائس چانسلر، پروفیسر، دانشور، صحافی اور سائنسدان برآمد ہوئے تھے وہ ویران، برباد (ہر لحاظ سے) ہوتے گئے۔
غیر ملکی نظام تعلیم غیر زبان میں اور بدیسی نصاب پڑھ کر طلبا اپنے ملک اپنے مذہب کے بارے میں لاعلم ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں محب وطن، اپنی اقداروروایات کے شیدا اپنے کام سے مخلص کیسے سامنے آتے؟ بالآخر ریاست مدینہ کا نعرہ فضا میں گونجا اور لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب نہ ایوان صدر سے اور نہ وزیر اعظم ہاؤس سے عوام کا استحصال ہوگا۔ اب ایک چھپر کے نیچے سرد وگرم موسم میں کاروبار مملکت چلایا جائے گا ہر شخص حکام سے بلا روک ٹوک جب چاہے گا مل سکے گا نہ کوئی گارڈ نہ کوئی دربان، کوئی کروفر نہ ٹھاٹ باٹ، عوام بھی اپنے دروازے کھلے چھوڑ کر بے فکر اور پرسکون نیند کے مزے لیں گے، کیونکہ حاکم وقت رات بھر گشت لگا کر اپنے عوام کی بذات خود حفاظت کریں گے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عوام مطمئن نظر آئے، مگر ریاست مدینہ کے قیام کے پانچ ماہ میں ہی کبھی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں دو بھائی مع اپنے دوست کے کبھی میاں بیوی (حاملہ) اور کبھی سیاسی کارکن رکن قومی اسمبلی (سابق) اپنے گھر کے دروازے پر تو کبھی پورا خاندان بلا جواز بے گناہ محافظین کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل کردیے جائیں عوام کی حفاظت پر مامور ہی قاتل ہوں تو غرض جو گزشتہ ادوار میں ہوتا رہا ہے وہی ریاست مدینہ میں بھی ہورہا ہے۔
ہر سانحے، ہر حادثے کے بعد جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور ذمے داروں کو بچانے کے لیے طرح طرح کی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں کہیں کسی کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو کہیں ڈاکوؤں کی فائرنگ جب کہ گولیوں کے خول پولیس کے زیر استعمال اسلحے کے ثابت ہوتے ہیں۔ صرف ایک دو ہفتے کے اخبارات اٹھائیں پہلے صفحے سے آخری تک، سٹی، ڈسٹرکٹ تمام صفحات پر کئی کئی خبریں اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کی مل جائیں گی۔ مگر اس طرح قتل ہونے والوں کو خطرناک مجرم، مفرور یا دہشت گرد قرار دے کر معاملہ رفع دفع کرنے اور ذمے داروں کو بچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے نہ جانے کتنے جوانوں کا قاتل راؤ انوار کسی گرفت میں نہیں آیا شاید بچا ہی لیا گیا۔
مجرم ہیں تو عدالت میں پیش کریں جرم ثابت ہوجائے تو قرار واقعی سزا دی جائے۔ مگر مجرم کو بھی اپنی صفائی کا حق تو ملنا چاہیے عدل سے پہلے سزائے موت کس قانون، کس آئین کے تحت؟ جہاں تک سانحہ ساہیوال کا تعلق ہے۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے ہر پہلو سامنے آچکا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں۔ حسب روایات حکام، وزرا ہر ذی حیثیت، سیاسی لیڈر مذہبی رہنما ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے اپنے دکھ درد اور متاثرہ خاندان سے اظہار تعزیت کرلیا لیجیے حق ادا ہوگیا، زندہ بچ جانے والے بچوں کی پرورش، تعلیم، صحت سب کا انتظام ہوگیا، مگر کیا یہ سب والدین کا نعم البدل ہے؟ کیا کوئی بھی والدین کی جگہ لے سکتا ہے اگر تربیت میں کہیں بھی کمی رہ گئی تو کیا یہ بچے اس سانحے کے اثرات کے باعث منفی انداز فکر تو اختیار نہ کرلیں گے؟ مارنے والوں نے کیا یہ سب سوچا تھا۔
جہاں تک ذمے داروں کے خلاف تحقیقات ، جے آئی ٹی بنانے اور انھیں معطل کرنے جیسے اقدام کا سوال ہے اور یہ دعویٰ کہ ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا (آج تک ایسا ہوا تو نہیں) تو کیا معصوم بچے کے اس بیان کے بعد کہ ''پاپا نے کہا پیسے لے لو گولیاں نہ مارو۔'' مزید کسی تحقیق کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دہشت گرد قرار دینے کی کہانی تو خود ہی دم توڑ دیتی ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ آج ہمارا دین ہمارا خدا سب کچھ دولت ہے چاہے وہ ہمارے کام آنے سے پہلے ہم خود ''کام آجائیں'' کچھ نے کہا کہ اس سانحے کے ہم سب ذمے دار ہیں، کسی حد تک درست سہی مگر اصل ذمے دار وہی ہیں جو اپنے مفاد اپنی چوہدراہٹ ختم ہوتے ہوئے نہیں برداشت کرسکتے۔ بظاہر قتل کرنے والے تو ان کے پالتو، کرائے کے قاتل ہیں۔