پھول پتی لین میں تعفن

خاکروبوں نے کئی کئی ماہ تک تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتالیں کیں


Dr Tauseef Ahmed Khan February 02, 2019
[email protected]

لیاری کی پھول پتی لین( معروف دبئی چوک) دو ماہ سے تعفن اور بد بو سے مہکنے لگی ۔ سیوریج نظام کی خرابی سے گلیاں زیر آب ہیں ۔ گندگی اور غلاظت سے علاقے میں وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ علاقے میں موجودہ نکاسی کے نظام کے معطل ہونے کی بناء پرگھرکا ایک یا دوسرا فرد ملیریا اور ٹائیفائیڈ یا کسی دوسری طرح کے مرض کا شکار ہے۔

پھول پتی لین کے مکینوں نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو گزشتہ انتخابات میں مسترد کیا تھا، یوں پیپلز پارٹی کی حکومت اس صورتحال پر خاموش ہے ۔ لاڑکانہ کے محلہ کوثر مل کی گلیوں میں گٹر پھر ابل گئے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو کی توجہ کوثر مل کے محلہ کی طرف گئی مگر یہ صورتحال صوبے کے دارالحکومت کراچی سمیت پورے صوبے میں ہے۔ اس صورتحال کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ سندھ میں بد انتظامی اور غیر شفافیت کا معاملہ امریکا تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر ایسٹ اینڈ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ نیویارک کے صدرکیمرون منٹر نے کراچی میں کونسل آف فارن ریلیشنز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جاری منصوبوں پر بات کرتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ آپ پیسے لگانے آئے ہیں؟ کیمرون نے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ میں تعلیم کے شعبے میں خاصا پیسہ لگایا مگر یہ پیسہ صحیح استعمال نہیں ہوا ۔

سندھ میں گزشتہ بارہ برسوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ جب پیپلز پارٹی 2008ء میں برسراقتدارآئی تو ایم کیو ایم اس کی اتحادی تھی ۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں بنیادی طور پر سندھ کی ترقی کے لیے اتفاق رائے ہوا تھا، مگر اس اتحاد کے چار برس میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، دونوں جماعتوں کے جھگڑوں اور ٹارگٹ کلنگ میں گزرے ۔ دونوں جماعتوں میں بلدیاتی نظام کے مجوزہ ڈھانچے پر بھی اتفاق نہیں ہوا اور یوں منتخب بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوگئی۔ بیوروکریٹس کو بلدیاتی اداروں کی نگرانی کا کام سونپ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی حکومت سندھ نے صحت اور تعلیم کے شعبے مکمل طور پر اپنے قبضہ میں لے لیے۔

اگرچہ اس وقت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے تھے لیکن سرکاری افسروں اور دیگر متعلقہ افراد کے لیے یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ حقیقی وزیر اعلیٰ کون ہیں؟ اس زمانے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ملازمتوں اور تقرریوں کا فیصلہ سرمائے کی سپلائی سے منسلک ہے۔ سندھ کی تمام وزارتوں میں اس اصول پر سختی سے عمل ہوا۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر بلدیات، تعلیم، صحت اور داخلہ کی وزارتیں ہوئیں ۔ بلدیاتی اداروں کا فنڈ کہیں اور منتقل ہونے لگا۔ عملے کے پاس صفائی کے آلات کی خریداری کے لیے رقم نہیں رہی، یوں کراچی سمیت پورے سندھ میں کوڑے کے ڈھیر لگنے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں بلدیات کا محکمہ شدید مالیاتی بحران کا شکار ہوا۔

خاکروبوں نے کئی کئی ماہ تک تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتالیں کیں۔ کئی کئی دفعہ کراچی اور حیدرآباد پریس کلبوں کے سامنے صفائی کا عملہ اپنے ٹرکوں سمیت دھرنے کے لیے جمع ہوا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر وغیرہ میں سڑکوں کے سامنے کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ اس کے ساتھ دیکھ بھال نہ ہونے کی بناء پر سیوریج لائن بند ہونے لگیں۔ امیروں اور غریبوں سب کے علاقوں میں گندے پانی کے جوہڑ بن گئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر بلدیاتی نمایندوں کو صفائی ستھرائی اور پانی کی فراہمی کے کام سے علیحدہ کردیاگیا۔ صفائی کے مسئلے کے لیے ایک علیحدہ ادارہ قائم کیا گیا اور ایک چینی کمپنی کوکراچی کی صفائی کا ٹھیکہ دیا گیا۔

اگرچہ اس کمپنی نے شہر بھر میں کوڑے جمع کرنے کے ڈرم فراہم کیے مگر بلدیاتی نگرانی کا نظام نہ ہونے کی بناء پر کوئی قابل قدر تبدیلی نہیں آئی۔ صحت کے شعبے کا بھی ایسا ہی حال ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام سے پہلے کراچی کے سول اسپتال سے منسلک ٹراما سینٹر کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔ پیپلز پارٹی نے اس ٹراما سینٹر کو بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کیا۔ یوں طویل عرصے بعد 16 منزلہ عمارت مکمل ہوئی مگر آج تک ٹراما سینٹر مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر قمر اور ڈاکٹر بھٹی کی بناء پرکچھ اسپتالوں کی کارکردگی بہتر ہوئی مگر ڈاکٹروں کی تقرریوں، تبادلوں اور ادویات کی خریداری وغیرہ کے معاملات خرابی کا شکار رہے۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر پیر مظہر الحق کا دور تعلیم کے شعبہ کا بدترین دور تھا۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس دور میں اساتذہ کی آسامیاں فروخت ہوئیں۔ اساتذہ اور افسروں کی تقرریوں اور تبادلوں کا نظام متعلقہ امیدواروں کی جانب سے سرمایہ کی فراہمی سے منسلک ہوا۔ کئی ہزار ایسے افراد کو استاد بھرتی کیا گیا جو استاد کی اہلیت کا ٹیسٹ پاس نہیں کرسکتے تھے۔

صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ ورلڈ بینک اور امریکا کے ادارے یو ایس ایڈ نے تعلیم کے لیے گرانٹ بند کرنے کا الٹی میٹم دیدیا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو اعتراض تھا کہ بین الاقوامی ادارے اساتذہ کے تقرر کے لیے این ٹی ایس ٹیسٹ پر کیوں زور دیتے ہیں۔ عالمی اداروں کی دھمکی کے بعد سندھ میں تعلیم کا وزیر تبدیل ہوا۔ آصف زرداری نے اپنے ایک قریبی عزیزکو سیکریٹری تعلیم مقررکیا جنہوں نے یہ تقرریاں منسوخ کیں مگر جن افراد کو برطرف کیا گیا وہ کئی برسوں تک احتجاج کرتے رہے۔ ان کی عرض داشتیں اعلیٰ عدالتوں تک گئیں۔ یہ افراد احتجاج کے دوران یہ شکوہ کرتے نظر آتے تھے کہ ان کی ادا کردہ رقم واپس دلائی جائے۔ اس دور میں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا مگر اعلیٰ تعلیم سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو اس کمیشن سے منسلک کیا گیا، یوں اس کمیشن کے حقیقی مقاصد حاصل نہ ہوسکے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیا اور سپریم کورٹ نے اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس واجد درانی سے جواب طلب کیا تو واجد درانی نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کی تقرریوں کا اختیار نہیں ہے۔ پولیس کو کور کرنے والے صحافی کہتے ہیں کہ پولیس کے محکمہ میں بھی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے وہ طریقہ کار رائج تھا جو دیگر محکموں کے لیے تھا۔ سندھ میں اس دوران ملازمتوں کی میرٹ پر تقرری کا بنیادی ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن مکمل طور پر غیر فعال رہا۔ سپریم کورٹ نے اس کے چیئرمین اور اراکین کو نااہل قرار دیا۔ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ بنے تو ان کے عزائم بلند تھے۔

انھوں نے علی الصبح اپنے دفتر آنا شروع کیا۔ وہ سندھ سیکریٹریٹ پہنچ جاتے تھے۔ کبھی بازاروں میں چہل قدمی کرتے نظر آتے۔ مراد علی شاہ خود انجنیئر ہیں، اس بناء پر انھوں نے بہت سے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وزیر اعلی کے متحرک ہونے کے بعد خوشگوار نتائج برآمد ہوئے۔ سیکریٹریٹ میں صبح سے رونق لگنے لگی۔ دیگر دفاتر میں بھی عملے نے جلد آنا شروع کردیا۔ مگر شاید مراد علی شاہ کو بتادیا گیا ہوگا کہ زیادہ متحرک ہونے کے نقصانات زیادہ ہیں۔ سندھ کے دفاتر میں پھر پہلے جیسا حال ہے۔ لوگ 11:00 بجے تک آتے ہیں مگر زیادہ رونق 4:00بجے کے بعد ہوتی ہے اور معاملات طے ہوتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ نے واٹرکمیشن قائم کیا تو وزراء کو اس کمیشن کی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔

کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد کے پانی کے منصوبوں میں بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے ہدایات جاری کیں۔ کئی محکموں کے افسروں کی کارکردگی پر سخت ریمارکس دیے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت سندھ واٹر کمیشن کی کارکردگی کی قائل ہوگئی ہے۔ حکومت سندھ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ کمیشن کو قائم رہنے دیا جائے۔ سندھ ترقی میں پنجاب اور پختون خوا سے پیچھے ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ بدانتظامی اور غیر شفافیت کا مضبوط نظام ہے۔ سوشل میڈیا پر سندھ کے مختلف شہروں کے مناظر روزانہ نظر آتے ہیں جہاں گندے پانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

لیاری کے ایک صحافی شکوہ کررہے تھے کہ پیپلز پارٹی پھول پتی چوک کے مکینوں سے انتقام لے رہی ہے۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے کہا کہ پیپلز پارٹی انتقام پر یقین نہیں رکھتی سندھ بھر سے یکساں سلوک کررہی ہے۔ ہر شہر میں صفائی اور پانی کی نکاسی کی ایک جیسی ہی صورتحال ہے۔ بلاول بھٹو لاڑکانہ کے ایک محلہ کے گٹر ابلنے کا نوٹس لے کر پورے سندھ کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ انھوں نے اپنی نوجوانی تک کا خاصا عرصہ برطانیہ میں گزارا ہے۔ انھیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے قیام سے ہی بلدیاتی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ اچھی طرز حکومت کے لیے میرٹ اور شفافیت کا نظام قائم کر کے سندھ ترقی میں سب سے آگے نکل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں