نہ محبت نہ عقیدت صرف لالچ اور ڈر
دنیا میں کوئی عقیدت کوئی محبت اور کوئی کار ثواب نہیں ہے
بہادرشاہ ظفر وہ بدنصیب بادشاہ تھاجواپنے بزرگوں کے تمام گناہوں کا خمیازہ اس جان ناتواں کو بھگتنا پڑا کہ بیچارے کو دو گز زمین بھی اس دیار میں نہیں ملی جہاں لوگ اسے شہنشاہ ہفت کشور کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ اس کا ایک دردناک شعر ہے
لیے فاتحہ کوئی آئے کیوں؟ کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جلائے کیوں؟ میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
ہمیں اکثر یہ شعر ایسے بہت سارے مزاروں کو دیکھ کر یاد آجاتاہے۔کابل میں بابر کا مزار،غزنی میں محمود کا مزار،فتح پور سیکری میں اکبر کا مزار اور ایسے بہت سارے لوگوں کے مزار۔
ایک تقریب میں ایک دانا دانشور اور مقالہ باز نے ایک دن خوشحال خان خٹک کے مزار کو لے کر اپنا ایک طویل ترین مقالہ جو یقیناً سوملی گرام خواب آور تھا پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ لوگ بڑے بے حس ہیں۔
اس کے بعد اس کا ایک حریف مقالہ نگار جس کے نام کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ دم چھلے لگے ہوئے تھے اس سے دوچار گز یا ملی گرام لمبا مقالہ سناتے ہوئے کہا کہ درصل مزارات عقیدت کی وجہ سے مجمع خلائق ہوتے ہیں اور اللہ والوں کے مزارات پر لوگ محبت اور عقیدت کے جذبے سے جاتے ہیں۔ اس کے بعد تقریب کے سب سے بڑے گناہگار اور مقتل قیدی یعنی آخری قیدی کی باری تھی جو اس کم بخت عمر اور سفید بالوں کی وجہ سے آج کل ہمارا نصیبہ ہوتا ہے۔
تقریبات کا صدر بھی تقریباً پارلیمانی نظام کے صدر جیسا ہوتاہے۔جسے قید بامشقت کی سزا بھگتنا پڑتی ہے سب کی سننے سے زیادہ مشکل اور مشقت طلب بلکہ برداشت طلب کام اور ہو بھی نہیں سکتا جو...''اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا''کی بنیاد پر وہی سزا ہوتی ہے۔ آخر میں اکثر سننے والے بور ہوکر یا تو جا چکے ہوتے یا کھانے یا چائے کے انتظار میں سو چکے ہوتے ہیں اور جو اکا دکا جاگ رہے ہوتے ہیں کہ جلدی سے منحوس ہٹے تو اعلان کے مطابق چائے یا کھانے پر ٹوٹ پڑیں چنانچہ ہم بھی اکثر اسلام علیکم...کے بعد ایک دو فقرے جلدی جلدی سے پھینک کر شکریے پر پہنچ جاتے ہیں۔
لیکن اس دن دو جغادری اور ٹاپ کے مقالہ نگاروں نے ہماری وہ رگ چھیڑ دی جسے ہم ہمیشہ بچابچا کررکھتے ہیں اور دکھتی رگ یہ ہے۔دنیا میں کوئی محبت یا عقیدت جیسی چیز موجود نہیں ہے سب کچھ ڈھونگ ہے عیاری ہے اداکاری ہے اور مطلب براری کے پردے میں ہے۔
خوشحال،اکبر،بابر،بہادر شاہ اور محمود غزنوی کے پاس جو کچھ تھا وہ تو دے چکے ہیں اب ان کے پاس دینے کو بچا کیاہے، باباجی کا ہتھوڑا۔؟
اور یہ جو مزارات پرانوار پر خلائق کا اژدہام ہوتاہے وہ اس لیے نہیں کہ کسی کو ان سے عقیدت و محبت ہوتی ہے بلکہ کچھ پانے کی امید لے کر آئے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ویسے ہی یا ان کی اولادوں کی ذہانت سے وہ کسی نہ کسی ''حاجت روائی'' کے لیے مشہور کیے جاتے ہیں۔کوئی شادی کرانے کا ماہر ہوتاہے، کوئی اولاد کا، کوئی اولاد نرینہ کا، تو کوئی دولت دینے کا۔ کچھ ان میں سے میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف امراض کے لیے مشہور مانے جاتے ہیں ایسا کچھ نہ ہوتا تو یہ بھی صرف قبریں ہوتے ہیں۔
دنیا میں کوئی عقیدت کوئی محبت اور کوئی کار ثواب نہیں ہے،بلکہ یہ دنیا اور اس کا سارا کاروبار صرف دو نکات پر مبنی ہے۔لالچ اور ڈر۔
کچھ لوگوں کو اس لیے سلام کیاجاتا ہے مدح خوانی کی جاتی ہے اور آگے پیچھے پھراجاتا ہے کہ ان سے کچھ پانے کچھ ملنے اور کچھ حاصل کرنے کی امید ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو اس لیے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ کر دے کہیں وہ نہ کر دے۔اس کے علاوہ باقی سب کچھ ڈھونگ ہے جھوٹ ہے دکھاوا ہے۔
محرم نہیں ہے توہی نواہائے راز
یا ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اس کی ایک بڑی خوبصورت اور عبرت کی مثال ہندودھرم میں موجود ہے، موجودہ ہندو دھرم میں یوں تو لگ بھگ تین کروڑ دیوی دیوتا ہمارے مزارات کی طرح ہر کام ضرورت اور حاجت روائی کے لیے موجود ہیں۔لیکن تین بڑے دیوتاؤں کا ایک تری موتی سب سے بالاتر ہے ایک کانام برہما ہے جو سب سے بڑا اور سینئر دیوتاہے یہ خالق کائنات ہے اس ساری کائنات''برہمانڈ''(برہما کا انڈا) کو اس نے پیدا کیاہے۔دوسرا وشنو یا نارائن ہے جو پالن ہے اس دنیا کوپالتاہے اور زندگی کو رواں دواں رکھتاہے اس کی بیوی لکشمی ہے جو دولت کی دیوی ہے۔ تیسرا شیو ہے جو قہار ہے تباہ کار ہے فنا کردینے والا ہے۔
چونکہ ''برہما'' اپنا انڈا دے چکا ہے باقی اس کے پاس کچھ نہیں ہے اس لیے اس کی پوجا کہیں بھی نہیں کی جاتی سارے ہند میں شاید دور دراز کے علاقوں میں اس کے صرف دو مندر ہیں وہ بھی غیرآباد۔
لیکن باقی دونوں وشنو اور شیو نہ صرف سارے ملک پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ زبانوں پر بھی چڑھے ہیں بات بات پر ان کا نام لیاجاتاہے چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی ان کی مورتیاں براجمان ہیں کیونکہ ایک کے پاس لالچ ہے اور دوسرے کے پاس ڈر ہے اور انسان ان ہی دونوں چیزوں کا پجاری ہے اور تو اور کہ ان کے بیٹوں گنیش، ہنومان، لکشمی اور کالی شیراں والی بھی بڑے وسیع پیمانے پر پوجے جاتے ہیں۔
باقی دنیا میں مذاہب مختلف ہوں گے نام الگ الگ ہوں گے پرستش کے طریقے الگ ہوں گے لیکن تمام عقیدتوں محبتوں کے پیچھے یہی دو چیزیں ہوتی ہیں لالچ اور ڈر۔ آج کے مسلمان بھی سب کچھ جنت کی لالچ اور دوزخ کے ڈرکی وجہ سے کرتے ہیں، خالص بے لوث محبت یا عقیدت کہیں بھی نہیں۔ ماں بھی بچے سے اس لیے محبت کرتی ہے کہ مستقبل میں اس سے امید ہوتی ہے اور اگر وہ امید پوری نہ ہو تو پھر؟