سردی میں ٹھٹھرتے مرتے شامی بچے

مہاجرین سے فقط سولہ کلومیٹر کی دوری پر غیرملکی افواج کے بیڑے بھی موجود ہیں


فرحین شیخ February 02, 2019

یہ دل خراش واقعہ ہے تیرہ جنوری کا۔ اردن کی سرحد کے قریب شام کے رکبان مہاجرکیمپ کے ایک خیمے میں آگ بھڑک اٹھی، جس میں اٹھائیس سالہ سندس فتح اللہ اپنے تین بچوں کے ساتھ بری طرح جھلس گئی۔ مہاجرین نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھا کر ماں اور بچوں کی سانسیں تو بچا لیں لیکن وہ سندس میں جینے کی آس نہ بچا پائے۔ ورنہ وہ اپنے بچوں سمیت خود کو آگ میں کیوں جھونکتی۔ مہاجرکیمپ میں لگنے والی یہ آگ کسی حادثے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ سندس میں اب شام نام کے اس دہکتے ہوئے جہنم میں مزید رہنے کی سکت ختم ہو چکی تھی۔ مہاجرکیمپ میں موجود ساٹھ ہزار شامیوں کی طرح اس نے سخت سرد موسم اور فاقوں سے لڑنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دی، لیکن مرنے کی خواہش بھی پوری نہ ہوسکی، سخت جھلسی ہوئی حالت میں سندس اب بھی اپنے بچوں سمیت مردوں سے بد تر حال میں زندہ ہے۔ جس وقت میں آنسوؤں میں بھیگی یہ کہانی پڑھ رہی تھی ، اس وقت میرے بچے گرم بستروں میں سکون کی نیند سو رہے تھے۔ میں نے تصورکی آنکھ سے انھیں سخت سردی میں کھلے آسمان تلے پڑا دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا اور شامی مہاجر بے بس عورت کا بچوں سمیت خود سوزی کا فعل مجھے عین حق لگنے لگا۔

جنگی خطوں سے اٹھنے والے شعلوں نے دنیا میں ہر طرف لاتعداد مہاجرکیمپوں کو جنم دیا ہے۔ ان میں شام کا رکبان مہاجر کیمپ دوسرے تمام کیمپوں کے مقابلے میں بد ترین کیمپ ہے۔ ہر ایک داستان یہاں لہو روتی ہے۔ رواں موسمِ سرما کا منجمد درجۂ حرارت لاتعداد شامی بچوں کو ماؤں کی نرم گرم گودوں سے محروم کرکے برف کی قبروں میں دفنا گیا۔ صرف ایک ماہ میں پندرہ بچے سرد موسم سے مناسب بچاؤ نہ ہونے پر ہائیپو تھرمیا کا شکار ہوکر جان سے چلے گئے ۔ ہزاروں بچے اس وقت بھی امداد کے منتظر ہیں، لیکن بد قسمتی سے اکیسویں صدی میں انسان کے اپنے پیدا کردہ اس عظیم بحران سے نمٹنے کے لیے مہاجرین کوکوئی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ جب انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شامی مہاجرین کی امداد کے لیے وہ بے بس ہیں،کیونکہ مہاجرین تک رسائی کے سارے راستے مسدود کیے جاچکے ہیں تو یقین جانیے، جدید دنیا کے اس فلسفے سے گھِن محسوس ہونے لگتی ہے، جس میں سیاروں اور ستاروں پرکمند ڈالنے کے تو سارے راستے بڑے فخر سے کھولے گئے لیکن انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے کھلنے والے دروازوں پر بھاری قفل چڑھا دیے گئے ہیں۔

شام اور اردن کی سرحد پر واقع صحرائی علاقے میں قائم رکبان مہاجر کیمپ میں موجود شامی مہاجرین کی کل تعداد کا اسی فی صد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ زندگی سے لڑنے والوں نے اس کیمپ کا نام ''موت کا کیمپ'' رکھ دیا ہے۔ خون میں زہر پھیلنے، خوراک کی قلت اور ٹھنڈ سے ہونے والی اموات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ نہ توکیمپوں کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام ہے اور نہ کوئی طبی مرکز، اپنے پیاروں کو زندگی دینے کے لیے اردن کی سرحد پر داخلے کی اجازت کے لیے شامی مہاجرین کی قطاریں لگی ہیں، لیکن اردن نے اپنا بارڈر ان مہاجرین کے لیے بند کر رکھا ہے۔ زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے بند کیے جانے والی سرحدیں اسمگلروں کے لیے کھول دی گئی ہیں جو سرحد پار سے سامان لا کر مہنگے داموں ان کیمپوں میں فروخت کرتے ہیں، پچانوے فی صد شامی مہاجرین یہ سامان خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ رکبان میں زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ چاروں طرف صرف نچڑے ہوئے چہروں اور در بدری کا راج ہے۔ مہاجرین کے کرب کو لفظوں میں ڈھالنا نا ممکن ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹرکا کہنا ہے کہ ''یہ کیمپ بچوں کے لیے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہے، اب بھی مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو بچوں کی اموات کا سلسلہ بڑھتا جائے گا۔''

اقوام ِ عالم کی اجتماعی بے حسی کے سبب رکبان کیمپ میں موجود ساٹھ ہزار شامی آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 2016ء میں اردن نے شامی مہاجرین کی نہ صرف امداد بندکردی بلکہ داعش کے خوف سے اپنی سرحدیں بھی بند کردیں۔ مبادا دہشتگرد مہاجرین کے بھیس میں اردن کی سرحد پار نہ کرلیں۔ دمشق نے وہاں پچھلے سال صرف دو امدادی بیڑے روانہ کرنے پر اکتفا کیا۔ عمان نے مہاجرین کے لیے کسی بھی قسم کی امداد پہنچانے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ذمے داری شام کی اپنی ہے، لہٰذا وہ خود اٹھائے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے آخری امداد یہاں گزشتہ سال نومبر میں فراہم کی گئی تھی وہ بھی اس قدر مختصرکہ مہاجرین کو پندرہ دن کے لیے بھی کافی نہ ہوسکی۔ رہ گئی بشار حکومت تو وہ ان مہاجرین کو اسمگلرز کے رحم وکرم پر چھوڑ کر تماشا دیکھنے میں محو ہے۔ خوراک ہو یا ادویات سب یہاں اسمگل ہوکر آرہی ہیں جن کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے سے مہاجرین قاصر ہیں۔

مہاجرین سے فقط سولہ کلومیٹر کی دوری پر غیرملکی افواج کے بیڑے بھی موجود ہیں، جن کو متعلقہ ممالک کشیدہ سے کشیدہ صورت حال میں بھی تمام سامان اور گولا بارود تواتر کے ساتھ فراہم کررہے ہیں، لیکن چند کلومیٹرکی دوری پر موجود بھوک سے بلکتے اور سرد ہواؤں میں ٹھٹھرتے شامیوں کے لیے کسی کے پاس کچھ نہیں۔ اس سفاک دعوے کے بعد بھی اگر اب کوئی کہتا ہے کہ امریکا شام کی جنگ سے الگ ہوگیا تو شامیوں کا کیا بنے گا؟ تو ایسا کہنے والے کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ خوفزدہ شامیوں کی اکثریت بھی امریکا کے انخلا کے حق میں نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں شامی حکومت رکبان مہاجرکیمپ پر دھاوا بول دے گی، کیونکہ حکومت کی طرف سے مستقل یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کیمپ میں داعش کے دہشتگرد چھپے ہوئے ہیں۔ شامیوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے جاتے ہی شامی حکومت یہاں کا کنٹرول سنبھال لے گی اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے نام پر ان مہاجرین کی زندگی ایک نئے عذاب میں گرفتار ہوجائے گی۔ یوں بد حالی کے گڑھے میں دھنسے ہوئے شامیوں کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ شام کے مسئلے کا کوئی بھی پائیدار حل نکلنے تک امریکا خطے میں ہی رہے۔

شاطر سیاسی کھلاڑی شام کے مستقبل کا کیا فیصلہ کریں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ وقت ظلم اور جبر کی جو کہانیاں کھول کر سامنے لا رہا ہے ان کی طرف سے آنکھیں بند کرنے پر تاریخ کسی کو معاف نہیں کرے گی۔ یہ جو ایک خلقت اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے اور انھیں موسم کے اثرات سے بچانے کی تگ و دو میںکسی بدمست ہاتھی کی طرح دوڑے جا رہی ہے، تاریخ ان میں سے ایک ایک سے شامیوں پر ہونے والے ظلم کا حساب لے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں