اے ارض دلگیر اے میرے کشمیر
فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب لوہے کی تلوار کی جگہ معاشی نظام اور ذہنی غلامی نے لے لی ہے
دیکھا جائے تو رنگ، نسل، مذہب اور قوم وغیرہ کی تقسیم سے بالاتر انسانوں کی صرف دو ہی قسمیں ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں شکلیں بدل بدل کر ہمارے سامنے آتی ہیں اور وہ ہیں ظالم اور مظلوم۔ آج کل ان کو Have's اور Have Nots بھی کہا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ظالم، مظلوم کی ہر چیز پر قبضہ کر لیتے تھے اور وہ اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے بے گھر اور ایک غلام کی شکل میں زندگی گزارتا تھا اور اس کی حیثیت بھیڑ بکریوں جیسی ہوتی تھی۔ خالق کائنات کی طرف سے جتنے بھی پیام بر اس زمین پر آئے سب نے ہی اپنے اپنے وقت اور انداز میں انسانی مساوات کا درس دیا جس کا کسی حد تک اثر بھی ہوا مگر ہر بار شیطان نے نت نئے طریقے سے ظالموں کو ظلم کے نو بہ نو حیلے سکھائےاور یوں یہ روایت آج کے دور تک پہنیچی۔
فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب لوہے کی تلوار کی جگہ معاشی نظام اور ذہنی غلامی نے لے لی ہے کہ اب ظالم کسی جگہ پر اپنی جسمانی اور عملی موجودگی کے بغیر بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جس کے لیے اگلے وقتوں میں اس کی فوجیں دنیا کے ہر حصے میں خلق خدا کو روندتی پھرتی تھیں۔
اس وقت بھی یہ ڈرامہ جاری ہے اور کچھ طاقتور انسانی گروہوں نے باقی ساری دنیا کو غلامی کے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ مگر کشمیر اور فلسطین دو ایسے علاقے ہیں جہاں یہ ظلم اب بھی براہ راست اور بندوق کی گولی کے ذریعے روا رکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ اس ظلم کے منظر اور مظہر کسی کی نظر سے پوشیدہ ہوں مگر امر واقع یہی ہے کہ آج بھی تمام ظالم ہر طرح کی علمی اور تہذیبی ترقی کے باوجود اندر سے ایک ہیں اور مظلوموں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے ضمن میں سب کے سب اسی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جس کا مظاہرہ ان کے بڑے زمانۂ جاہلیت میں کیا کرتے تھے بلکہ اس زمانے کے لوگ شاید قدرے بہتر تھے کہ وہ اپنے ظلم کے حق میں کسی منافقت سے کام لینے کے بجائے اس کا کھل کر اعلان کرتے تھے اور اسے اپنا DevineRight کہتے تھے۔
کشمیر کی وادی میں ہونے والے ظلم کی یہ داستان یوں تو صدیوں پرانی ہے مگر تقسیم ہند کے بعد اس کی جو صورت سامنے آئی ہے اور بالخصوص نریندر مودی کے دور میں جس طرح بھارتی قابض افواج اس خطے میں دہشت گردوں، قتل و خون اور انسانی حقوق کی پامالی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال شاید کہیں بھی نہ مل سکے کہ فلسطین کے عوام پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم بھی اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
یوں تو کہنے کو ہم بھی 5 فروری کو ان مظلوموں کے ساتھ مل کر یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور خود بھارت سمیت دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے صاحب دل، انصاف پسند اور حق پرست لوگ اس کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں لیکن ان مذمت کاریوں سے نہ صرف مودی سرکار کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی حفاظت کے دعویدار تمام اداروں کے طاقتور ممبر جانتے بوجھتے ہوئے اس معاملے کو لٹکاتے چلے جاتے ہیں کہ سب کے نزدیک ان کے بھارت سے منسلک مفادات ہر انسانی قدر سے زیادہ اہم اور قیمتی ہیں۔
جس ہمت، پا مردی اور استقلال سے اس وقت مقبوضہ کشمیر بالخصوص وادی کے لوگ اس ظلم کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھا اور بچوں کی آنکھوں کو پلیٹ گنز کے فائروں سے خون کے لوتھڑوں میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس پر صرف یقین کرنے کے لیے بھی لوہے کا جگر چاہیے۔اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر دنیا کی کسی بھی زبان کی لغت میں وہ الفاظ نہیں ہیں جو صحیح معنوں میں اس جذبے کا احاطہ اور اس کی تحقیق کر سکیں۔
البتہ یہ نوع انسانی کے اس اجتماعی ضمیر کے ا ظہار کا ایسا ذریعہ ضرور بن سکتے ہیں جس کی معرفت کشمیریوں سمیت ہر مظلوم کو ایک جگہ پر جمع کیا جا سکتا ہے کہ مظلوموں کے اتحاد کا یہ ہتھیار ہی ظلم کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن سکتا ہے سو اس حوالے سے چند اشعار کے ساتھ فلسطین کے ایک مظلوم اور حق پرست شاعر نے جذبۂ حریت اور اپنی جدوجہد کی کامیابی پر مستحکم ایمان اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ آنے والا وقت مظلوموں کے لیے اچھے دن اور اچھی خبر لے کر ضرور آئے گا۔
قتل کرنا مجھے آج آساں سہی
پر مری خاک سے
کل جو شعلہ اٹھے گا اسے کس طرح
روک پاؤ گے تم
اس کے بھیتر میں جلتی ہوئی آگ سے
اپنے دامن کو کیسے بچاؤ گے تم
آتش شوق وہ ہے ہوائیں جسے
جس قدر بھی بجھاتی ہے جلتی ہے یہ
یہ شہادت کی خواہش عجب فعل ہے
جتنا کاٹو اسے اور بڑھتی ہے یہ
ایک سر کی جگہ
سیکڑوں سر ابھرتے چلے آئیں گے
بڑھتی جائیں گی جتنی بھی تاریکیاں
روشنی کے علم اور لہرائیں گے
تم گراتے رہو ظلم کی بجلیاں
جن گلوں کو ہے کھلنا وہ کھل جائیں گے
قتل کرنا مجھے آج آساں سہی
اور اب سمیع القاسم کی وہ نظم جو ان کی پہلی برسی کے ریفرنس میں پڑھی گئی کہ یہ صرف ان کو ہی پسند نہیں تھی بلکہ ساری دنیا کے مظلوموں کے عزم کی ترجمان اور ان کا منشور بھی ہے کہ
ایک دن ان لہو میں نہاتے ہوئے
بازوؤں میں نئے بال و پر آئیں گے
وقت کے ساتھ سب گھاؤ بھر جائیں گے
ان فضاوں میں پھر اس پرندے کے نغمے بکھر جائیں گے
جو گرفت خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے سرخ پھولوں کے کانوں میں یہ کہہ گیا
ایک لمحہ ہو یا اک صدی دوستو
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروںکی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹاؤں گا
فاصلوں کی فصیلیں گراتا ہوا
میں ضرور آؤں گا، میں ضرور آؤں گا