غزل
بَلا کی خامشی ہے، میں نہیں ہوں
اکیلی زندگی ہے، میں نہیں ہوں
جو کھڑکی بند تھی میری وجہ سے
وہی کھڑکی کھلی ہے، میں نہیں ہوں
کسی جگنو نے لکھا ہے لہو سے
وہاں پر روشنی ہے، میں نہیں ہوں
مرے جانے کے مدت بعد اس نے
کمی محسوس کی ہے، میں نہیں ہوں
ہوس تھی، بے خودی تھی اور میں تھا
ہوس ہے، بے خودی ہے، میں نہیں ہوں
مرا ہونا ضروری تو ہے لیکن
یہ خواہش خواب ہی ہے، میں نہیں ہوں
مری میت کو پتھر لگ رہے ہیں
تو وجہِ آگہی ہے، میں نہیں ہوں
مجھے سب سوچ کے کرنا پڑے گا
کہ دنیا عارضی ہے، میں نہیں ہوں
(عاجزکمال،جوہرآباد، خوشاب)
...
غزل
کم ظرف ہجر مجھ پہ یہ احسان کر گیا
ٹھہری رہی حیات زمانہ گزر گیا
سچ ہی کہا تھا اس نے محبت اسے نہیں
پھر کیا ہوا وہ اپنے کہے سے مُکر گیا
سہمے رہے ہیں پیڑ کی شاخوں میں چھپ کے بھی
ہجرت زدہ پرندوں کا مشکل سے ڈر گیا
آنچل میں لے کے آئی تھی جس کو سمیٹ کر
وہ وصل کا سرور بھی پَل میں بکھر گیا
یہ بھی کہا نہ لوٹ کے آؤں گا اب کبھی
امید کا چراغ بھی مژگاں پہ دھر گیا
ماضی میں وہ کشش تھی کہ منزل سے پیشتر
چلتی ٹرین سے وہ مسافر اتر گیا
گمنام راستوں نے پکارا جو پیار سے
فوزی ادھر چلی جہاں لے کر سفر گیا
(فوزیہ شیخ، فیصل آباد)
...
غزل
دکھائی کچھ بھی نہ دیتا تھا ایسا پاگل تھا
میں پہلی پہلی محبت میں کتنا پاگل تھا
خبر ملی ہے کہ چالاک تھا وہ اندر سے
ہمارے سامنے جو شخص بنتا پاگل تھا
سہلیاں جو کبھی پوچھ لیں مرا اس سے
تو ہنس کہ کہتی ہے ویسے وہ اچھا پاگل تھا
اسی کے پاس تھی چابی سبھی خزانوں کی
وہ ایک شخص جو حلیے سے لگتا پاگل تھا
ملا ہے تجھ سے تو یکسر بدل گیا ورنہ
یہ لڑکا رُوڈ تھا، موڈی تھا، تھوڑا پاگل تھا
(محسن ظفر ستی، کہوٹہ)
...
غزل
طالبِ حسن پہ تھو، حسنِ ریا کار پہ تُھو
پیار شطرنج نظر آئے، تو اس پیار پہ تُھو
جس کے پلّو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ
ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تُھو
جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کا ٹتی ہو
ایسی تلوار مع صاحبِ تلوار پہ تُھو
شہر آشوب زدہ، اس پہ قصیدہ گوئی
گنبدِ دہر کے اس پالتو فن کار پہ تُھو
سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسّر ہو خوشی
ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تُھو
زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادلِ شہر ترے عدل کے معیار پہ تُھو
کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تری دانش نے
اے عدو ساز، تری دانشِ بیمار پہ تُھو
کیسے کیسے ہیں سراب ارض و سما کے پیچھے
ایک اِس پار پہ تُھو دوسرے اُس پار پہ تُھو
(راغب تحسین، کوئٹہ)
...
غزل
روشنی سی پھوٹتی تھی صبح و شام اس جھیل سے
آنکھ اس کی میں ملاتا تھا تبھی قندیل سے
عکس کس کا پڑ رہا ہے کمرے کی دیوار پر؟
آئنہ دیکھا ہے کس نے اس قدر تفصیل سے
ہجر اس کا کر رہا ہے چھلنی ایسے ہی مجھے
کرتے ہیں دیوار میں سوراخ جیسے کیل سے
سوکھا چشمہ دیکھ کر، کیا حال ہوگا تیرا، بول
جب کہ پیاسا آ رہا ہو پہلے ہی دو میل سے
پچھلے دو دن سے حذیفہؔ ایک پَل سویا نہیں
میرے خوابوں پر تبھی تو پڑ گئے ہیں نیل سے
(حذیفہ ہارون،کراچی)
...
''بلاٹنگ پیپر''
کون سے قلم، دوات لائیں ہم؟
جو تری جدائی لکھیں
کس طرح کے قرطاس میں اتنی ہمت
کہ تری طرف کی مسافتوں کا حساب رکھے؟
وہ سب دراڑیں
جو تیرے میرے مِلن کی روشنائی میں پڑ گئی ہیں
انہیں سنوارے!
ہجر میں اڑتے ہوئے صفحوں پہ کون آکر تسلیوں کے
ویٹ پیپر اٹھا کے رکھے؟
یہ میز، کرسی اور کارنر لیمپ
تیرے لمعہ اور لمَس کی حدتوں سے نا آشنا ہیں
عبس اندھرتا میں کچھ بھی لکھنا محال تر ہے
میں خالی حرفوں سے آسمانوں کو کھوجتی ہوں
اور اپنی نظموں کی تہی دستی سے پوچھتی ہوں
کیا تیری قربت کے بلاٹنگ پیپرز
میری لفاظی کی شب سیاہی
سکھا سکیں گے؟
(فاطمہ مہرو، لاہور)
...
غزل
رائگانی ہی رائگانی تھی
کیا کہانی، مری کہانی تھی
اک تو راجا غضب کا ضدی تھا
پھر وہ رانی بھی قیصرانی تھی
وہ بھی تیری دلہن کو پہنا دی
جو انگوٹھی تری نشانی تھی
ایک چھوٹا سا گھر نہیں تھا وہ
شاہ زادی کی راج دھانی تھی
دان کر دی زمین زادوں کو
وہ محبت جو آسمانی تھی
چائے پینا تو اک بہانہ تھا
آرزو دل کی ترجمانی تھی
وہ محبت کہاں تھی ایماں جی!
اک مصیبت تھی، ناگہانی تھی
(ایمان قیصرانی، ڈیرہ غازی خان)
...
غزل
بے سبب کیسے بَھلا دھوپ میں سایہ ہوا ہے
میں نے اِک پیڑ سرِ راہ لگایا ہوا ہے
یہ پرندہ جو مرے صحن میں آ بیٹھا ہے
یہ کسی اور کے پنجرے سے اڑایا ہوا ہے
دل تو جلتا ہے کسی دردِ جدائی سے مرا
اور ہونٹوں کو بھی سگریٹ سے جلایا ہوا ہے
ایک مدت ہوئی وہ چاند نہ دیکھا میں نے
ایک مدت سے یونہی خود کو جگایا ہوا ہے
پھر سے سیلاب کا خدشہ ہے میری بستی کو
دل کا دریا بھی بہت موج میں آیا ہوا ہے
منتظر ہوں کہ تری کال یا مسیج آئے
کب سے سیل فون کو ہاتھوں میں اٹھایا ہوا ہے
بانسری بھی علی قیصر نے بجائی ہوئی ہے
یعنی تجھ ہیر کو آوازہ لگایا ہوا ہے
(علی قیصر، گوجرانوالا)
...
غزل
آدمی جو کھرا نہیں ہوتا
رتبے میں بھی بڑا نہیں ہوتا
تم سناتے ہو جس کو اپنا غم
پیڑ پھر وہ ہرا نہیں ہوتا
تیری آغوش میں یہ پلتا ہے
بغض ایسے بڑا نہیں ہوتا
حوصلہ پختہ ہو اگر تو پھر
وقت کوئی کڑا نہیں ہوتا
درد اس کو اٹھا لے جاتے ہیں
آدمی یوں مرا نہیں ہوتا
پیڑ کو اپنی جڑ ہی کھاتی ہے
پیڑ ایسے گرا نہیں ہوتا
اپنی اوقات میں نہیں صابرؔ
ورنہ ایسے گرا نہیں ہوتا
(اسلم صابر، عیسیٰ خیل)
...
غزل
میں سردی میں ہوئی برسات کاٹ دیتا ہوں
تمہارے ہجر میں ہر رات کاٹ دیتا ہوں
وہ کہتا ہے ہمیں شاید بچھڑنا پڑ جائے
اور اتنی دیر میں، مَیں بات کاٹ دیتا ہوں
وہ جلد باز ہے، جلدی جواب دیتا ہے
سو بیچ میں، مَیں سوالات کاٹ دیتا ہوں
کسی طرح سے جو کٹتے نہیں ہیں کاٹے سے
میں زندگی کے وہ لمحات کاٹ دیتا ہوں
وفا کی راہ میں جو کچھ دیے زمانے نے
میں ہنس کے سارے وہ صدمات کاٹ دیتا ہوں
جلا کے دل میں تری یاد کے حسین چراغ
میں آنکھوں آنکھوں میں ہی رات کاٹ دیتا ہوں
(راشد خان عاشر، ڈیرہ غازی خان)
...
غزل
حلقوم سے یہ زہر اتارا نہیں گیا
خود مر گیا ہوں میں مجھے مارا نہیں گیا
کتنی صدائیں دی ہیں مگر عین وقت پر
جس کو پکارنا تھا پکارا نہیں گیا
بس اچھی لگ رہی ہو زیادہ حسیں نہیں
بالوں کو اک زرا بھی سنوارا نہیں گیا
کس سمت تیرے لمس کی خوشبو نہیں ملی
کس سمت میری سوچ کا دھارا نہیں گیا
تصویر دونوں رخ سے دوبارہ نہیں بنی
اک نقش بار بار اتارا نہیں گیا
احمدؔ مرا وجود عناصر میں بٹ گیا
میں اس کے پاس سارے کا سارا نہیں گیا
(فراز احمد، ہری پور ہزارہ)
...
غزل
سخن کے زندان میں ہمیشہ پڑے رہیں گے
جو لوگ اپنے کہے ہوئے پر اَڑے رہیں گے
ہمارے ٹکڑے بکھر چکے ہوں گے وادیوں میں
ہمارے جھنڈے پہاڑیوں پر گڑے رہیں گے
ترے پلٹنے کے منتظر لوگ زندگی بھر
شجر کی صورت جہاں کھڑے ہیں کھڑے رہیں گے
جو وقتِ رخصت عطا ہوئے تھے تمہارے دَم سے
ہماری آنکھوں میں وہ نگینے جَڑے رہیں گے
ہمیں بزرگوں نے یہ بتایاکہ جھکنے والے
بڑائیوں میں بڑے بڑوں سے بڑے رہیں گے
پلٹ کے روحیں یہی کہیں گی فلک پہ جاکر
زمین زادے زمیں کے نیچے پڑے رہیں گے
(علی شیران، شورکوٹ، جھنگ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]