صدارتی الیکشن کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے رابطے
وفاقی دارالحکومت میں بظاہر تو صدارتی انتخابات، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس،تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے۔۔۔
وفاقی دارالحکومت میں بظاہر تو صدارتی انتخابات، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس،تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس، قومی توانائی پالیسی اور قومی سکیورٹی پالیسی کی تیاری کے معاملات کی گہما گہمی عروج پر ہے۔
مگر 14 سال بعد وزیر اعظم ہائوس واپس لوٹنے والے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ایک ایسی مشکل سے دوچار ہیں جسے گزشتہ پچاس دنوں کے دوران مسلسل برداشت کرنے کے بعداب میاں نواز شریف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو نے کو ہے اور توقع ہے کہ وہ بہت جلد پھٹ پڑیں گے اور یہ مشکل ہماری بیوروکریسی کی اہلیت اور استعداد کار میں خطر ناک حد تک بڑھتی ہوئی گراوٹ ہے ۔ وزیر اعظم جس بھی وزارت میں جاتے ہیں یا وزارت کے حکام انہیں کسی بھی معاملے پر بریفنگ دینے آتے ہیں میاں محمد نواز شریف یہ دیکھ کر حیران ہوئے جارہے ہیں کہ مستند اور سکہ بند رپورٹس تیار کرنے کا شاید اب رواج ہی نہیں رہا۔ ذمہ داروں کا پوچھا جائے تو سب افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
گزشتہ چودہ سالوں کے دوران برسر اقتدار رہنے والے حکمرانوں میں بعض تو بلائے ہی بیرون ملک سے گئے اور انہیں معلوم تھا کہ ہم عارضی ہیں ان کی دلچسپی اور پاکستان سے کمٹمنٹ کا لیول بھی وہ نہ تھاجبکہ دیگر حکمرانوں کا معاملہ اس سے بھی خطرناک صورتحال کا عکاس رہا کہ وہ تھے تو مقامی مگر ان کا نظریہ ''لٹو اور پھٹو''سے مختلف ہرگز نہ تھا اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت کیسوں کے دوران سامنے آنے والی تفصیلات روزانہ کی بنیاد پر منظر عام پر آرہی ہیں۔ عام آدمی کا تاثر اور سپریم کورٹ کے محترم ججز صاحبان کا کہنا بھی یہ ہے کہ کرپشن کی انتہا ہوگئی مگر معلوم ایسے ہوتا ہے جیسے کسی کو پرواہ ہی نہیں۔سیاسی بنیاد پر انتقامی کاروائیوں سے اجتناب کی پالیسی بہت اچھی مگر امور مملکت و حکومت کے ذمہ داران کو ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اپنا قومی فرض بھی نہ بھولنا چاہئے۔
صدر پاکستان کا انتخاب کب ہونا چاہئے اس معاملے میں مسلم لیگ(ن) اور الیکشن کمیشن کے ذمہ داران کی کم علمی یا عدم معاملہ فہمی کے باعث چھ اگست کی تاریخ پہ بحث طول پکڑتے پکڑتے اب سپریم کورٹ جا پہنچے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے چیئرمیں راجا ظفر الحق اب یہ الیکشن تیس جولائی کو کرانے کی استدعا لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں حالانکہ حکومتی زعما اور الیکشن کمیشن کے ذمہ داران پہلے ہی رمضان المبارک کی مصرروفیات اور آئینی مجبوریوں کی بروقت جمع تفریق کرلیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ اگر انتخابات چھ اگست یعنی ستائیس رمضان المبارک کو ہی ہوئے اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک متفقہ امیدوار لانے میں کامیاب ہوگئیں تو رمضان،اعتکاف اور عمرہ و زیارات کے باعث حکومتی امیدوار کیلئے 706 الیکٹورل کالج میں سے اکیا ون فیصد ووٹ لینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔ یا پھر حکومتی امیدوار اس مارجن سے صدارتی انتخاب جیت نہ سکے گا جس کی وہ توقع رکھے ہوئے ہیں۔
ادھر حکومتی صدارتی امیدوار کے حوالے سے ٹیلی ویژن چینلوں کی خبر سازی کی دوڑکے باعث قیاس آرائیاں بدستور جاری ہیں، عمومی فضا یہی بن رہی ہے کہ سابق گورنر سندھ ممنوں حسین ہی حکومتی صدارتی امیدوار ہوں گے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی بھاری مینڈیٹ یافتہ حکومت کو موجودہ حالات میں جس طرح کے صدر پاکستان کی ضرورت ہے اس معیار پہ ممنوں حسین ہی پورا اترتے ہیں۔ وقت ثابت کرے گا کہ صدر کے چناو کے حوالے سے میاں نواز شریف کا فیصلہ درست ہے یا نہیں ۔ دوسرے صدارتی امیدوار وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز اب وزارت خارجہ میں دھیرے دھیرے قدم جمارہے ہیں اور وہ وہاں ہی اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہیں گے۔ان کے حالیہ دورہ کابل سے قبل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت خارجہ کے دورہ کے موقع پر واضح کردیا تھا کہ ہم افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائیں گے، البتہ قیام امن کیلئے کی جانے والی مفاہمتی کوششوں کی کامیابی کیلئے پاکستان کی خدمات ایک اچھے ہمسائے کی صورت میں دستیاب ہوں گی ۔
ادھر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے خود اسلام آباد پہنچ کر نیب اور ایف آئی اے حکام کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے آپ کی مشکل آسان کردی جسے شوق ہے آئے مجھے گرفتار کرے۔ اب ان کے استثنیٰ سے متعلق قانونی موشگافیوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداورں کی اپنے کام سے کمٹمنٹ کا بھی امتحان ہو گا اور حکومتی ارادوں کا بھی تعین ہوگا کہ وہ آئندہ کیا چاہتے ہیں۔ نیب کے زیر تفتیش توقیر صادق نے اپنی تعیناتی کیلئے ہونیوالے انٹرویو کی تفصیلات بتاتے ہوئے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب انگلیاں اٹھائے جانے کے مزید حالات پیدا کردیئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی میں امن وامان کی صورتحال کا جائزہ لینے ایک روز کے لئے کراچی گئے ہیں، انھوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ،گورنر اور بعض سیاسی رہنمائوں و دیگر حکام سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ کراچی میں معاملات ڈھیلے ڈھالے انداز میں نہیں چل سکتے۔ وزیر داخلہ نے فرمایا کہ سندھ میں ہماری یعنی مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہوتی تو کل کا انتطار نہ کرتا۔اس بیان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے وہ کچھ نہیں کررہی جو اسے کرنا چاہیے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اگر برا نہ منائیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے جناب والا!سندھ میں نا سہی راولپنڈی اسلام آباد میں تو آپ کی اپنی حکومت ہے ان دو شہروں کے سنگم پر واقع مقامی صحافیوں کی واحد رہائشی کالونی میڈیا ٹاون میں چوریاں تو عام تھیں اب ڈکیتیاں بھی روز کا معمول بن چکی ہیں، یہ صحافی حضرات اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی دائیگی کے سلسلے میں روزانہ آپ سے ملتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ چوروں اور ڈکیتوں سے نمٹنے کیلئے وہ ساری ساری رات آنکھوں میں کاٹتے ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھنے پہ مجبور ہے کہ حکومت کی ناک کے بال یہ صحافی بھی اگر وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں کی ترجیح نہیں تو پھر کوئی دوسرا کیوں خیر کی توقع رکھے۔