اسٹیفن ٹھیک کہہ رہاتھا
ذرادل تھام کربیٹھیے۔نجی شعبے میں ایمبولینسوں کانیٹ ورک پاکستان کی شان ہے
اسٹیفن نے اطمینان سے کافی کاکپ میزپر رکھا۔ شدیدسردی میں منہ سے دھواں اڑاتی سانس باہر نکالی۔ ہوا میں ایک منجمدساگولہ اوپراُٹھناشروع ہوگیا۔بوسفورس کے سمندرمیں لہریں خاموش تھیں۔سوچ کرکہنے لگا، ڈاکٹر تم پاکستانی دنیاکی واحدقوم ہو،جوہروقت اپنے ملک کی برائی کرتے رہتے ہو۔امریکا اوراب ترکی میں پڑھاتے مجھے چالیس برس گزرچکے ہیں۔خرابیاں دنیاکے ہرملک میں ہیں۔مگرآج تک کسی امریکی یاترک کواپنے ملک کوگالی نکالتے نہیں سنا۔یہ بھی نہیں دیکھاکہ اپنے ملک کے جواز کے خلاف بحث میں حصہ لے رہاہو۔اپنے وطن کی بے عزتی میں خود شریکِ کارہو۔ ہر ملک میں اپنی اپنی مخصوص خرابیاں موجود ہوتی ہیں۔مگران کے شہری یہ کبھی نہیں کہتے کہ یہ دیکھو،ہماراملک توبربادہوگیا۔اس نے کیاخاک ترقی کرنی ہے۔یہاں توہرچیزبگڑی ہوئی ہے۔پتہ نہیں۔یہ کیسے وجودمیں آگیاتھا۔
مکمل خاموشی سے اسٹیفن کی باتیں سن رہا تھا۔ پانی کا گھونٹ پیتے ہوئے اسٹیفن سے پوچھا، تم کہناکیاچاہتے ہو۔ اگرایک ملک میں خرابیاں ہیں توبیان کرنے میں کیاحرج ہے۔آخرخرابیوں کوسب کے سامنے لانابھی تو ضروری ہے۔ہم کیفے کے باہربیٹھے ہوئے تھے۔ باہر شدید سردی تھی۔ اسٹیفن کالے رنگ کالمباکوٹ پہن کربیٹھا تھا۔ اسٹیفن میرا زیادہ پرانادوست نہیں ہے۔حادثاتی طور پر واقفیت ہوئی، پھرکتابوںنے ہمیں قریب کردیا۔اسٹیفن اُستاد ہے۔ انگریزی، فرنچ اورہسپانوی زبان کاماہر۔طویل عرصے سے سوشیالوجی پڑھارہاہے۔ذہین اوروسیع المطالعہ انسان ہے۔اس کی باتیں سنناچاہتاتھا۔ میز پر پڑی کافی کے کپ سے بھاپ نکل رہی تھی ۔ڈاکٹر،تم لوگوں نے دراصل تکلیف دیکھی نہیں ہے۔
برصغیرکی تقسیم کے وقت بارہ لاکھ بندے مارے گئے۔بہت ظلم ہوا۔نہیں ہوناچاہیے تھا۔مگر ہم نے لاکھوں نہیں، کروڑوں لوگ مرتے دیکھے ۔ تم نے قحط نہیں دیکھا۔تم نے روٹی نہ ملنے پرفسادات بھی نہیں دیکھے۔تم نے ذہن کوآزادکرنے کی قیمت بھی ادا نہیں کی بلکہ جہل کاساتھ دیا۔یورپ میں دوسری جنگِ عظیم میں سات کروڑمرد،خواتین اوربچے مارے گئے۔تین کروڑافرادجنگ میں نہیں بلکہ جنگ کی بدولت پیداہونے والے قحط اوربیماریوں کا شکار ہوگئے۔ یہ صرف ایک جنگ کی بات کررہاہوں۔اورہاں تمہاری تاریخ بھی مکمل طورپرغلط بیان کی گئی ہے۔
تمہیں آزادی،ہٹلرنے دلوائی تھی۔اگربرطانیہ،دوسری جنگِ عظیم میں دیوالیہ نہ ہوتا اوراس کی طاقت کم نہ ہوجاتی توتم لوگ آج بھی برطانیہ کی کالونی ہوتے۔دعادو،ان مغربی طاقتوں کو،جن میں طاقت کے عدم توازن نے تمہیں آزادی دلوادی ہے۔ہمیں تباہی کے بعدمعلوم ہواکہ اپنا آزاد ملک کتنی بڑی نعمت ہے۔ہم نے بربادہوکر حقیقت کو پہچانا۔اسٹیفن کہنے لگا کہ تم لوگوں کے اندرایک بہت بڑی خامی ہے کہ اپنے ملک کی خوبیوں پرتوجہ نہیں دیتے۔حالانکہ تمہارے ملک میں اَن گنت خوبیاں ہیں۔میں سوچ رہا تھا، یہ اسٹیفن کیاسچ بول رہا ہے۔ پھر اسٹیفن ہنسنے لگا۔ڈاکٹر،کیاسوچ رہے ہو۔اپنے ملک کے متعلق حقائق پڑھو۔پھرکبھی موقعہ ملاتوبات کرینگے۔
اسٹیفن اُٹھا اور اپنے ہوٹل واپس چلاگیا۔مگرمیں،اسی کیفے کے باہربیٹھارہا۔ذہن میں اس کی باتیں گونجنے لگیں۔ تم لوگ اپنے ملک کی خوبیوں پرغورنہیں کرتے۔اسٹیفن کی بات لگتاتھاکہ سامنے سمندر کی لہروں پربھی لکھی ہوئی محسوس ہوئی ۔یقین فرمائیے کہ سمندرکی ہرلہرسے اسی طرح کی آواز گونجنے لگی۔خاموشی سے اُٹھا۔بل اداکیا اورکمرے میں آکرلیٹ گیا۔ رات کی گفتگوکوخواب میں بھی دیکھتا رہا۔ اگلے دن واپسی کی فلائٹ تھی۔واپس آکرپاکستان کومثبت اندازسے پڑھنے کی کوشش کی۔حیرت انگیز خوشگوار پہلو سامنے آنے لگے۔ایک جہان حیرت کھلااورششدررہ گیا۔
یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن انسٹیٹیوٹ نے ایک سروے کروایاہے۔اس میں ایک سوپچیس ملکوں کے شہریوں کے متعلق تمام جزئیات اکٹھی کی گئی ہیں۔مختلف ممالک کے لوگ،عقل ودانش میں کیسے ہیں۔درست مواقعے ملنے پران میں نئی بات کہنے اورسمجھنے کی استطاعت کتنی ہے۔دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ لوگ کند ذہن ہیں یا بہتر ہیں۔ کیاآپ یقین فرمائینگے کہ پاکستانی، ذہانت میں دنیامیں چوتھے نمبر پر ہیں۔غیرمتعصبانہ تحقیق نے ثابت کیاہے کہ ہم لوگ دنیاکے چوتھے ذہین ترین لوگ ہیں۔اسی تحقیق میں درج ہے کہ پاکستانی بچے،اے اوراولیول کے امتحانات میں تمام دنیاکے بچوں سے بہترنمبرحاصل کرتے ہیں۔ان کے بنائے ہوئے ریکارڈکودنیامیں کسی بھی ملک کے بچے آج تک نہیں توڑ سکے۔یعنی اگراس زاویے سے دیکھاجائے توہمارے بچے اور بچیاں،دنیامیں ذہین ترین سطح پرہیں۔عام لوگ اس قدر ذہین ہیں اوردنیامیں چوتھے نمبرپرہیں توہمارے طلباء اور طالبات تواول نمبرپرہیں۔
اگلی بات پرچونک کررہ گیا۔دنیامیں خیرپاکستانی ڈاکٹر،اول نمبرپرموجودتوہیں۔مگرپاکستان دنیاکاوہ ساتواں ملک ہے،جسکے سائنسدان اورانجینئردنیامیںحددرجہ کامیابی سے کام کررہے ہیں۔یعنی ہماراسائنسی دانشوروں کامجموعہ دنیاکے تمام ممالک سے کافی آگے ہے۔ہمارے سائنسدان اورانجینئرز پوری دنیامیں اپنی قابلیت اوراہلیت کے جھنڈے گاڑرہے ہیں۔اس دوڑمیں دنیاکے صرف چھ ملک ہم سے زیادہ ہیں۔یہ درست ہے کہ اسے ''برین ڈرین''بھی کہا جاسکتا ہے۔مگرہمارے ماہرین جہاں بھی ہیں۔ان کاملک سے محبت کاجذبہ لاجواب ہے۔مجھے اس بات پرمکمل یقین ہے کہ اگر ہمارے اپنے ملک میں بہترین مواقعے ہوں تویہ لوگ جلدی سے واپس آکراپنے ملک کوبھی ترقی کی اوجِ ثریا پرپہنچاسکتے ہیں۔ویسے ستربرس کے بعد،ہمارے ملک میں ترقی کے آثارپیداہورہے ہیں۔انشاء اللہ،ترقی توہوکررہے گی۔
ہاں ایک انتہائی خوبصورت اوردلچسپ بات۔ پاکستان کے قومی ترانے کی دھن پوری دنیاکے قومی دھنوں میں اول نمبرپرہے۔یعنی پوری دنیاکے ممالک کی قومی ترانوں کی دھنوں میں ہم صفِ اول پرہیں۔مجھے اس بات کابالکل پتہ نہیں تھا۔آج تک کسی نے ذکرتک نہیں کیاتھا۔جب یہ بات پڑھی توانٹرنیٹ پرجاکرباربار تصدیق کی۔حیران کن حقیقت یہ ہے کہ واقعی قومی ترانوں کی دھنوں میں''پاک سرزمین شادباد''کی دھن اول نمبرپرہے۔تعجب ایک اور بات پربھی ہے کہ اسکاتذکرہ ہم ہرجگہ کیوں نہیں کرتے۔ اپنی نوجوان نسل کوبتاتے کیوں نہیں کہ دیکھو،یہ اعزازبھی ہمارے پاس موجودہے۔صاحبان!یہ ہرگزہرگزکوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس پرہمیں فخرہوناچاہیے۔
روزانہ سیاسی جوکروں کی نوک جھوک والی باتیں سن کر ایسالگتاہے کہ ہماری معیشت بس اب ڈوبی کہ اب۔چلیے بات کسی حدتک درست بھی ہے کہ ہمارے چندقائدین نے ہمارے ملک کے مالی وسائل کواپنی فلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔حددرجہ کرپشن کی گئی ہے۔ان منصب داروں اور سیاستدانوں کوسزاضرورملنی چاہیے بلکہ ملے گی۔مگرکیاآپ جانناچاہیں گے کہ تمام ترمسائل کے باوجود،پاکستان کی قومی معیشت،دنیاکی چھبیسویں بڑی معیشت ہے۔ایک اور عرض،ہماری اسٹاک مارکیٹ،دنیامیں دوسرے نمبرپر ہے۔ یہ قابلِ عزت بات ہے۔
ذرادل تھام کربیٹھیے۔نجی شعبے میں ایمبولینسوں کانیٹ ورک پاکستان کی شان ہے۔اس میں ہم پہلے نمبر پر ہیں۔ ایدھی ایمبولینس سروس،پوری دنیامیں سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔اٹھارہ سو سے زائدایمبولینسیں ہر وقت لوگوں کی خدمت کے لیے مصروفِ کارہیں۔ عبدالستار ایدھی نے وہ عظیم کام سرانجام دیاہے،جسکی مثال کم ازکم اس دنیامیں نہیں ملتی۔ ایدھی سروس کے علاوہ تمام شہروں میں نجی شعبے میں مریضوں کی بروقت سہولت کے لیے سیکڑوںایمبولینسیں موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت انتہائی کم معاوضہ پرکام کررہی ہیں۔ اسکاایک اورمطلب بھی ہے۔ہم لوگ، دوسروں کی مدد کرنے کے مثبت جذبے سے مالامال ہیں۔یہ بھی ٹھیک بات ہے کہ ملک میں دھوکا دہی،فراڈاورزیادتی بھی بہت ہے۔ مگر دوسروں کی مددکرنے کارجحان،ان منفی معاملات سے بہت اوپر ہے۔
کیاآپ یقین کریں گے، تعلیم کے شعبے میں پاکستان نے محیرالعقول ترقی کی ہے۔پاکستانی میں شرح خواندگی کے بڑھنے کی شرح دوسوپچاس فیصدہے۔تیسری دنیامیں کوئی ایساملک نہیں ہے جس میں خواندگی،اس تیزی سے پھل پھول رہی ہو۔یہ بھی درست ہے کہ آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں یہ اضافہ صرف اورصرف دوسے ڈھائی فیصد تک نموپاسکاہے۔مگردوسوپچاس فیصدبڑھنے کی شرح بے حدحوصلہ افزاہے۔اوربھی کئی پہلومیں جن میں پاکستان نے بے مثال ترقی کی ہے۔ جیسے انٹرنیٹ کے پھیلاؤمیں ہم دنیامیں چوتھے نمبرپرہیں۔مائیکروسافٹ ماہرین میں دنیا میں سب سے کم عمربچے بھی پاکستانی ہیں۔تمام جزئیات ایک کالم میںپروناناممکن ہے۔مگراسٹیفن بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ہم اپنے ملک کی خوبیوں پرکبھی توجہ نہیں دیتے۔ ہمیشہ شکوہ شکایت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسٹیفن کی بات میرے دل کولگی ہے!