جھوٹ زندہ باد
آپ ذراان لوگوں کا تصور کریں جو ٹرمپ مودی اور اس طرح کے لوگوں کے اردگرد موجود ہیں
بد سے بدنام برُا۔ توآپ نے سنا ہوگا لیکن دیکھا نہیں ہوگا لیکن ہم نے دیکھاہے اور بہت دیکھاہے اور مسلسل دیکھ رہے ہیں، ایک بھیڑچال ہے جو برا مشہور ہوگیا،ہر کوئی لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑنا شروع ہوگیا۔ ارے خدا کے نیک اور نیک بندو!ذرا دیکھ تو لو کہ اس بچارے میں کوئی برائی ہے بھی کہ نہیں۔ویسے تو اس کی بہت ساری مثالیں ہیں۔
ہمارے لیڈروں میں کتنے معصوم اور پاک پاکیزہ لوگ ہیںجو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضوکریں لیکن لوگ ان کے بارے میں شور مچائے ہوئے ہیں، دوڑو پکڑو جانے نہ پائے۔لیکن آج ہم ایک بہت ہی معصوم ملزم کا کیس ہاتھ میں لے رہے ہیں، اس سے پہلے بھی اسی طرح ایک بدنام''عفیفہ کرپشن'' کا کیس لڑچکے ہیں اور ثابت کرچکے ہیں کہ اس معصومہ مخدومہ عفیفہ پر سارے الزامات غلط ہیں، اس نے آج تک کسی کا بھی کچھ نہیں بگاڑا ہے اور سنوارا ہی سنوارا ہے، اتنا سنوارا ہے کہ اب سنورتے ہی چلے جارہے ہیں۔اور اب یہ ایک دوسرے بے گناہ بے خطا معصوم بلکہ ''محسن ہرکس ناکس'' کا کیس ہمارے پاس پہنچا ہے۔اس شریف نیک اور خدمت گزار ملزم کا نام نامی اور اسم گرامی جھوٹ ہے۔
انگریزی میں اسے لائی کہتے ہیں اور اس کے طرف داروں کو''لائر'' کہا جاتا ہے جو بہت زیادہ مشہور ہیں بلکہ بہت بھی ہیں اور سفید اور کالے کاروباری ہیں یعنی سفید کو کالا اور کالے کو سفید کرنے کا پیشہ کرتے ہیں۔جھوٹ کے بارے میں ہم نے جب اپنی تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کیا تو اس نے بھی انکار کیا کیونکہ وہ بھی اوپر سے کالا اور نیچے سے سفید ہے لیکن ہم نے جب دھمکی دی کہ پڑوس کی جس ٹٹوئین کے ساتھ وہ جو ہراسگی ہراسانی اور ہراسمنٹ کا ارادہ کیے ہوئے ہے ہم اس کے مالک کو اس کی خبر دے دیں گے۔
تب اس نے آمادگی ظاہر کی۔سب سے پہلے تو ہم نے ان جرائم کا جائزہ لیا جوہمارے موکل یعنی جھوٹ پرتھوپے گئے ہیں، تھوپے جاتے ہیں اور قدیم زمانوں سے تھوپے گئے ہیں، حجم کے لحاظ سے تو الزامات کا یہ ڈھیر بہت بڑا ہے لیکن تحقیق اور غیرجانبدار نگاہوں سے دیکھاجائے تو صرف ہوا کا غبارہ ہی ہے حقیقت کچھ بھی نہیں۔جرم کی تعریف ہماری انسانی کتابوں میں یہ کی گئی ہے کہ کسی کو جانی مالی یاکسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا جائے اور تمام کاغذات کھنگالنے کے بعد ہمیں ایک بھی ایسا کیس نہیں ملا جس میں جھوٹ نے کسی کو ذرہ بھر بھی دکھ پہنچایاہو بلکہ جہاں جہاں اس کی موجودگی پائی گئی ہے وہاں اس نے لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرکے امن قائم کیاہے۔حالانکہ اس کا ایک جدی پشتی دشمن اور تربور(شریک) ہمیشہ آگ لگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن چونکہ وہ بدنام نہیں ہے، اس لیے بُرا بھی نہیں حالانکہ اس سے ہمیشہ بُرائی ہی بُرائی اور فسادی فساد صادر ہوتاہے۔
اور یہ ہمارا موکل ہے کہ جس موقع پر پہنچ جاتا ہے وہاں امن ہی امن شانتی ہی شانتی اور محبت ہی محبت پیدا ہوتی ہے۔صرف ایک مثال ہماری بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اگر آج سارے لوگ ہمارے موکل سے تعلق توڑ لیں اور اس کے اس فسادی تربور سے ناطہ جوڑ لیں تو کیاکیا قیامتیں نہیں ٹوٹیں گی۔گھر گھر گلی گلی قریہ قریہ شہر شہر اور ملک ملک میں ایک ہنگامہ داروگیر مچ جائے گا، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے اور خون پانی کی طرح بہنے لگے۔یہ سب کچھ کس نے روک رکھاہے، ہمارے موکل نے۔ اگرآج دنیا سے ہمارے موکل جھوٹ کو نکال دیا جائے تو دنیا جہنم بن جائے گی، رشتے دشمنی میں بدل جائیں گے، محبت نفرت میں بدل جائے گی بلکہ کسی انسان کا کوئی نہیں رہے گا نہ ماں نہ باپ نہ بہن نہ بھائی نہ دوست نہ یار، سوچیے انسان کتنا اکیلا ہوجائے گا، صرف اکیلا تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن ایک دوسرے کے درپے ہوجائے گا۔
سب سے پہلے تو یہ کسی گھر میں میاں بیوی کے درمیان سے نکل جائے تو اس کا دشمن اس گھر کو دومنٹ میں میدان جنگ بنادے۔ذرا سوچیے اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے جھوٹ بولنا بالکل چھوڑ دیں تو کیسا شوہر ،کہاں کی بیوی۔بھلا دشمن بھی کبھی میاں بیوی ہوئے ہیں۔
آپ ذراان لوگوں کا تصور کریں جو ٹرمپ مودی اور اس طرح کے لوگوں کے اردگرد موجود ہیں اور ان کو سر سر کہتے ہیں اگرخدانخواستہ ہمارے موکل نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ٹرمپ کو اور ان سارے ''سروں'' کا کیابن جائے گا اور پھر ان سے سچ کہنے والوں کا کیابنے گا۔
ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارا موکل ہی اس کائنات کی روح ہے۔ دنیا کی زینت ہے، انسانوں کی جان ہے، معاشرے کی گاڑی کا انجن ہے، تمام انجنوں اور مشینوں میں بجلی کی رو ہے، فصلوں کا پانی ہے سانسوں کی ہوا ہے ،عمارت کی سمینٹ اور گارا ہے بلکہ سریا اور معمار انجینئر سب کچھ۔چلیے ایک ٹرائی کرتے ہیں، آپ گھر سے نکلتے ہیں اور یہ لاٹھی یہ سہارا یعنی موکل ہمارا آپ کے ساتھ نہیں ہے۔سامنے ایک شخص دوڑتا ہوا آپ کے پاس آتاہے۔جو آپ کا رشتے دار یا دوست(جھوٹ چھوڑنے سے پہلے) وہ آپ سے شدید تکلیف بیان کرکے ایک ہزار روپے کا ادھار مانگتاہے۔ آپ کی جیب میں اس سے کہیں زیادہ رقم موجود ہے لیکن دینا نہیں چاہتے۔اس لیے کہتے ہیں کہ رقم تو میرے پاس ہے لیکن تجھے دینا نہیں چاہتا۔تو نتیجہ کیاہوگا وہ دوستی یا رشتے داری کی چادر کو زمین پر پٹخ کراپنے پیروں تلے روند ڈالے گا اور آپ کو جو الفاظ ہدیہ کرے گا وہ آپ خود جانتے ہیں لیکن اگر ہمارا موکل آپ کے پاس ہوتا تو وہ سب کچھ سنبھا لیتا۔اور آپ کے منہُ سے نکلتا۔بھائی بڑا دکھ ہوا لیکن یقین کرو میں تمھارے پاس آنے والا تھا، دوچار ہزار قرضہ مانگنے کے لیے۔ خیر اب جاکر کسی اور سے مانگ لوں گا۔ تم بھی کسی اور سے مانگو۔
کتنے امن وآشتی سے معاملہ نپٹ گیا، وہ بھی راضی تم بھی راضی، دوستی بھی نہیں ٹوٹی اور کچھ رقم دے کر ڈبونے سے بھی بچ گئے۔یہ کس کی وجہ سے۔ ہمارے اس کارساز،دستگیر اور مفت کے خدمتگار جھوٹ کی وجہ سے۔اس طرح دن بھر پیش آنے والے تمام معاملات کو اس کے استعمال کے بغیر دیکھ لیجیے، دفتر میں، بازار میں، افسر کے سامنے ماتختوں کے ساتھ۔ اول تو یقیناً آپ صحیح سلامت سیدھے اپنے گھر نہیں پہنچیں گے یا اسپتال یا تھانہ ٹوٹ پھوٹ کر جائیں گے ورنہ گھر میں داخل ہونے کے بعد بھی اگر ہمارا موکل ساتھ نہ ہو تو۔۔؟