یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
ایسا کیوں ہے کہ ٹی وی کے اتنے چینلوں کی نمود کے بعد بھی ہمارے یہاں...
غالب نے ہلال عید سے یہ سوال کیا تھا۔ ایک طور پر اس کی غیر حاضری پر اس سے جواب طلب کیا جا رہا تھا کہ ؎
بارے دو دن کہاں رہا غائب
یہ شکایت پچھلے دو دنوں میں ہمیں اپنے اخبار سے ہوئی۔ یہی کہ ہم تو صبح آنکھ کھولتے ہی اخبار مانگتے تھے۔ اور دوسرے لمحے اخبار ہمارے ہاتھوں میں ہوتا تھا۔ بس اخبار پر نظر دوڑانے کے عمل میں ہماری آنکھیں پوری طرح کھلتی تھیں مگر اچانک اخبار نظروں سے اوجھل کہاں ہو گیا۔ صبح سویرے ہماری آنکھیں اخبار تلاش کر رہی ہیں اور اخبار غائب ہے۔
مگر ان دو دنوں میں تو اور بہت کچھ بھی غائب نظر آیا۔ یا اﷲ سڑکوں پر جو ہجوم امنڈا رہتا تھا اور ٹریفک کے نام گاڑی پر گاڑی چڑھی نظر آتی تھی وہ ساری گنور دل کہاں گم ہو گئی۔ پتہ چلا کہ یہ عید کی تعطیلات کا کرشمہ ہے۔ کاروبار عید کی خوشی میں معطل ہے۔ نہ دکاندار نہ خریدار۔ دونوں کو عید کی لہر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ کاروبار ہی کے چکر میں شہر سے باہر کی خلقت جو شہر میں امنڈی نظر آتی تھی اس طرح کہ آدمی پہ آدمی گرتا تھا۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ وہ خلقت سے عید منانے اپنے اپنے نگر کی طرف دوڑ گئی تو اب شاہراہوں پر بازاروں میں' دوراہوں چوراہوں پر کتنا سکون نظر آ رہا تھا۔ یہاں سے وہاں تک سڑکیں صاف شفاف' ٹریفک واجبی واجبی۔ سواریاں ٹخ ٹخ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ نہ ان کے رستے میں کوئی رکاوٹ ہے۔ نہ وہ خود کسی کے رستے میں رکاوٹ ہیں۔
''یہ ہے اصلی لاہور'' ایک لاہورئیے نے کہا ''کتنا خوبصورت کتنا پرسکون شہر ہے۔ کتنا اچھا ہے کہ لاہور میں صرف لاہور کے باسی گھومتے پھرتے نظر آئیں''۔ مگر
ایں خیال است و محال دست و جنوں
یہ کشادگی کا احساس' یہ پُر سکون فضا دم کے دم میں غائب ہو جائے گی۔ پھر وہی ہجوم۔ پھر وہی ٹھسا ٹھس ٹریفک۔ یہ نئی زندگی ہے۔ ہجوم اور شور اس کے لوازمات میں شامل ہیں۔
اور ابھی ہم ذکر کر رہے تھے کہ دو دن اخبار کی صورت نظر نہ آئی تو عجب سا احساس ہوا کہ جیسے ہمارا دنیا جہاں سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ کسی نے ہمیں یاد دلایا کہ وہ وقت اب نہیں ہے جب اخبار کے ذریعے ہم قریب و دور کی دنیا سے اپنے آپ کو جڑا محسوس کرتے تھے۔ اب الیکٹرونک میڈیا کا زمانہ ہے۔ ٹی وی سیٹ کی حیثیت جام جہاں نما کی ہے وہ بٹن دبا کر ٹی وی کو چالو کرو اور دنیا جہاں سے اپنا رشتہ استوار کر لو۔
اس کی بھی سن لو۔ جب پاکستان میں ٹی وی کی نمود ہوئی تو یاروں نے پیشگوئی کی کہ اب اخبار کے دن گنے گئے۔ تازہ خبر کیا ہے' اس کے لیے ہم آنے والی صبح کے اخبار کا انتظار کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ وہ تو فوراً کے فوراً ہمیں ٹی وی کے ذریعہ موصول ہو جائے گی۔ اخبار کا اداریہ بعد میں آتا رہے گا۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار ٹی وی پر نمودار ہو کر دن کے دن خبر کا تجزیہ کر کے ہمارے سیاسی شعور کو مالا مال کر دیں گے۔
مگر ایسا کیوں ہے کہ ٹی وی کے اتنے چینلوں کی نمود کے بعد بھی ہمارے یہاں اخبار کی حیثیت اور افادیت برقرار ہے۔ بلکہ ایسے بھی ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو خبر کی صحت کے لیے اور سنجیدہ سیاسی تجزیے کے لیے ٹی وی چینلوں سے زیادہ اخبار پر اعتبار کرتے ہیں۔ مشکل ہی سے کسی چینل کو اتنا اعتبار حاصل ہے کہ سنجیدہ طبقہ یہ انتظار کرے کہ دیکھیں اس سیاسی واقعے کے بارے میں یا اس نئی صورت حال کے بارے میں فلاں چینل کا مبصر کیا کہتا ہے۔ مگر سب تونہیں البتہ معتبر اخبارات کے ادارئیے کا اس باب میں انتظار کیا جاتا ہے اور اسے سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے۔
عجب بات ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر آجکل زیادہ زور سیاست پر ہے مگر اس اصرار کے باوجود کوئی چینل مستند حیثیت اختیار کر نہیں سکا۔ ان پر ہونے والے سیاسی مباحثے اس زمانے کی یاد دلاتے ہیں جب ہماری تفریحات میں مرغوں، بکروں اور تیتر، بٹیر لڑانے کا زیادہ چلن تھا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے طرفداروں کا مجادلہ کچھ اس انداز سے ہوتا ہے کہ یہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے طرفدار آج کے تیتر، بٹیر اور مرغے، بکرے نظر آتے ہیں۔ کچھ اسی انداز سے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی بنا پر تو یہ پروگرام مقبول پروگراموں میں شمار ہوتے ہیں۔
سنجیدہ سیاسی فکر ٹی وی چینلوں پر جتنی بھی ہے وہ اس ہڑبونگ میں دبی دبی رہتی ہے۔ پھر بھی یوں ہے کہ میڈیا کے فروغ کے ساتھ یاران پاکستان سمجھتے ہیں کہ نوخیز گلوبل ولیج میں ان کی پتی بھی پڑی ہوئی ہے۔
گو مُشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
آخر ہم پر وہ زمانہ بھی تو گزرا ہے جب شہروں سے دور کتنے قصبوں کتنی بستیوں میں اخبار دوسرے دن پہنچتا تھا۔ لندن لگتا تھا کہ سات سمندر پار کوئی طلسمی شہر آباد ہے۔ اب کتنا قریب نظر آتا ہے اور جب دو دن تک اخبار غائب رہا اور ٹی وی چینلوں پر اچھے برے عیدی پروگراموں کی بھر مار میں بین الاقوامی خبر دھندلا گئی تو سچ مچ یہ لگا کہ ارد گرد پھیلی ہوئی نئی دنیا سے ہمارا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس رابطہ کی بحالی بالآخر اخبار ہی کے واسطے سے ہونی ہے جب کل صبح وہ عذر میں دو دن نہ آنے کے نئی آب و تاب کے نمودار ہو گا۔
مگر اسی کے ساتھ ہجوم بھی تو واپس آئے گا اور ٹریفک کا پھر وہی شور ہو گا کہ سواریاں ٹھسا ٹھس ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ پھنسی کھڑی ہیں۔ چلتی ہیں تو اس طرح کہ برق رفتار موٹریں چیونٹی کی چال چل رہی ہیں۔ جب شہر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلتے چلے جائیں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ سڑکوں شاہراہوں کا' بازار ہاٹ کا نقشہ اس طرح ابتر ہوتا چلا جاتا ہے کہ پھرعید بقر عید پر تعطیلات کے دنوں ہی میں اس کے اصل چہرے کی دید ہوتی ہے۔