طبلہ والد سے سیکھا گائیکی میں مقبول صابری سے گنڈا بندھوایا افضل صابری

قوالی کے تقاضے نبھانا آسان نہیں، سہل پسند قوال اِس فن کو تباہ کر رہے ہیں، افضل صابری


معروف قوال، افضل صابری سے ایک ملاقات ۔ فوٹو : فائل

یہ ایک ایسے کلاکار کی کتھا ہے، جس نے اوائل عمری ہی میں خود کو کلا کے سپرد کردیا تھا۔

خوشی قسمتی سے اساتذہ بھی اچھے ملے۔ افضل صابری مایۂ نواز قوال، مقبول صابری کے شاگرد اور معروف طبلہ نواز، محمد انور کے صاحب زادے ہیں۔ پرتاب گڑھ سے ہجرت کر کے کراچی کو مسکن بنانے والے اُن کے والد نے استاد عظیم خان (جاورے والے) سے تربیت حاصل کی۔ صابری برادرز کے ساتھ، جو اُن کے رشتے دار بھی تھے، محمد انور نے برسوں پرفارم کیا۔ افضل کے بہ قول،''بڑے بڑے قوال یہ کہا کرتے تھے کہ صابری برادرز کی مقبولیت میں میرے والد کا کلیدی کردار رہا۔ قوالی میں طبلہ اور ڈھولک کو ساتھ استعمال کرنے کا سلسلہ اُنھوں نے ہی شروع کیا، جسے بعد میں اوروں نے اپنایا۔''

افضل کے اب تک چھے البم ریلیز ہوچکے ہیں۔ آغاز ''قیامت آنے والی ہے'' سے ہوا، آخری البم ''الٰہی کوئی ایسا انتظام ہوجائے'' کے نام سے آیا۔ قوالی ''الٰہی کوئی ایسا انتظام ہوجائے'' تو اُن کی پہچان بن چکی ہے۔ دیگر مقبول قوالیوں میں ''جنوں میں کاش ہو اتنا اثر غریب نواز''، ''سراپا مدعا ہے، میں نہیں ہوں''، ''سوہنا لال قلندر پیر میرا'' اور ''لوح مدینے کی'' سرفہرست ہیں۔ شمار اُن فن کاروں میں ہوتا ہے، جو ماضی کے مشہور آئٹمز کے ساتھ اپنی قوالیاں بھی پیش کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں،''میں واحد قوال ہوں، جو اِس وقت اپنی دھنیں پیش کر رہا ہے۔ ورنہ ہندوستان سے ایک سی ڈی آتی ہے۔ اُسی دھن کو جوں کا توں ریکارڈ کر کے ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ اِس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ کلام، وہ موسیقی ہمارے معاشرے کے لیے مناسب ہے بھی یا نہیں!''

مستقبل میں ایک انوکھا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ''ہماری بیش تر قوالیاں ہندی اور فارسی کلام پر مشتمل ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ ان کلاموں کو اردو ترجمے کے ساتھ، اصل دھن میں پیش کروں۔'' ان کی قوال پارٹی گیارہ افراد پر مشتمل ہے، جن میں اُن کی پانچ بھائی بھی شامل ہیں۔

افضل صابری 1974 میں لیاقت آباد، کراچی میں پیدا ہوئے۔ چھے بھائی، چھے بہنوں میں وہ بڑے ہیں۔ بچپن میں خاصے کم گو ہوا کرتے تھے۔ گھر کی تربیت نے بڑوں کا احترام کرنا سِکھایا۔ کرکٹ کا کھیل دل چسپی کا محور رہا۔ والد صاحب سے کم ہی ملاقات ہوا کرتی کہ وہ اکثر بیرون ملک ہوتے، تاہم اُن کی غیرموجودگی میں بھی اُن کی موجودگی کا احساس رہتا۔ فن کے اظہار کی خواہش بچپن سے ساتھ ہے۔ تعلیمی سلسلہ اِسی کی نذر ہوا۔ پہلے ساز کی جانب متوجہ ہوئے۔ طبلے کی تھاپ سے ہم آہنگ ہونے میں وقت نہیں لگا۔ والد سے گنڈا بندھوایا۔ تربیت کا ڈھنگ یوں تھا کہ جب والد بیدار ہوتے، افضل بھی بستر چھوڑ دیتے۔ اُنھیں ریاض کرتے ہوئے دیکھا کرتے، براہ راست ہدایات نہیں ملا کرتی تھیں۔ طبلے کے ساتھ گائیکی کی مشق بھی شروع کر دی۔ شاعری سے گہرا شغف تھا، جس نے دھنیں ترتیب دینے کی جوت جگائی۔

پہلی بار بارہ برس کی عمر میں پرفارم کیا۔ وہ ایک گھریلو تقریب تھی، جس کے اختتام پر مقبول صابری نے مائیک سنبھالا۔ کوئی سازندہ تھا نہیں، تو اُنھیں ہی بٹھا دیا گیا۔ افضل کے بہ قول،''یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ جس عظیم قوال کی میں نے جوانی میں شاگردی اختیار کی، بچپن میں اُسی کے ساتھ پرفارم کرنے کا موقع ملا۔'' اب نجی محفلوں میں فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ چار پانچ برس اپنے ماموں اور مشہور قوال، عباس نوری کے ساتھ پرفارم کیا۔

وقت کے ساتھ شوق گائیکی طبلہ نوازی پر غالب آگیا۔ غزل کے میدان میں طبع آزمائی کی۔ دھنیں ایک ریکارڈنگ کمپنی کو پسند آئیں۔ اُنھیں البم ریکارڈ کرنے کی پیش کش کردی گئی۔ البم تو ریکارڈ کروایا، مگر وہ کبھی ریلیز نہیں ہوسکا۔

پھر زندگی میں ایک موڑ آیا: یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب اُن کے دوست اور غلام فرید صابری کے صاحب زادے، امجد صابری اپنی پارٹی بنانے کی کوششوں میں جُٹے تھے۔ کہتے ہیں،''میں نے اُن کے لیے سازندوں کا انتظام کیا۔ جس کمپنی میں میرا البم ریکارڈ ہورہا تھا، وہاں اُن کی قوالی ریکارڈ کروائی۔ چوں کہ میرے پاس اپنے والد کا فن تھا، سو اُنھوں نے مجھے بہ طور طبلہ نواز ساتھ کام کرنے کی پیش کش کردی۔ میں اس وقت گائیکی کی جانب آچکا تھا، مگر دوستی کی خاطر گائیکی چھوڑ کر اُن کے گروپ میں شامل ہوگیا۔ اُن کے پہلے البم 'تاج دار حرم' کا کمپوزر میں ہی تھا۔'' تین برس امجد صابری کے ساتھ کام کیا۔ پھر یہ خیال ذہن میں جڑ پکڑنے لگا کہ اگر وہ طبلے تک محدود رہے، تو ضایع ہوجائیں گے۔ 98ء میں جب ہندوستان کا دورہ کیا، تو حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ پر دعا کی۔ لوٹنے کے بعد مقبول صابری سے گنڈا بندھوایا، اور تربیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ان دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''مقبول صابری صاحب کہا کرتے تھے؛ قوالی میں شاگرد کو مصرع سمجھایا جاتا ہے، بول کا شعور پیدا کیا جاتا ہے۔ وہ کہانیوں کی صورت اپنے تجربات بانٹتے تھے۔ ہم ساری رات باتیں کیا کرتے۔ اُنھیں کیرم کھیلنے کا شوق تھا۔ وہ رات بھر کیرم کھیلتے، اور ہم اُنھیں بیٹھ کر دیکھا کرتا۔'' مقبول صابری کے انتقال تک اکتساب فیض کا سلسلہ جاری رہا۔ ''مجھے اُن کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔ جو مقام اُنھوں نے کسی اور کو نہیں دیا، وہ میرے حصے میں آیا۔ داتا دربار پر اُنھوں نے مجھے اپنے ساتھ گوایا۔'' اِس واقعے کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ ''اُس وقت تک میری پارٹی بن چکی تھی۔ مقبول صابری صاحب لاہور گئے ہوئے تھے۔ وہاں ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ انھوں نے مجھے لاہور بلوالیا، اور وہاں اپنے ساتھ پرفارم کرنے کا موقع دیا۔ ایک معنوں میں اُنھوں نے میری تاج پوشی کی۔''

99ء میں اپنی پارٹی بنانے کے بعد اُنھوں نے بابا فریدؒ کے مزار پر پہلی پرفارمینس دی۔ بس، پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ جہاں سینئرز کا کلام پیش کیا، وہیں اپنی دھنیں بھی پیش کیں۔ پھر پرائیویٹ چینلز کا رخ کیا۔ وہاں بھی کام یابی نے قدم چومے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں۔ پہلاغیرملکی دورہ بنگلادیش کا تھا۔ ہندوستان دوبار جانا ہوا۔

افضل کے مطابق وہ قوالی کو قوالی کی طرح پیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خالصتاً عقیدت کا معاملہ ہے، قوالی میں اولیا اﷲ کی شان اور اُن کے اقوال بیان کیے جاتے ہیں، جس کے تقاضوں کو نبھانا آسان نہیں۔ ''اب تجارتی نقطۂ نگاہ سے قوالی کو پرکھا جاتا ہے۔ جو کلام، جو دھن فوراً قبول کر لی جائے، وہی پیش کی جارہی ہے۔ ''سہل پسند قوال اِس فن کو تباہ کررہے ہیں۔ فلمی طرزیں، رومانوی زبان استعمال ہوتی ہے۔'' ہندوستان میں ہونے والی قوالی کی بابت کہتے ہیں،''وہاں فقط قوالی کی دھنیں استعمال ہورہی ہیں۔ بس!'' افضل کے مطابق اگر اُنھیں ہندوستانی فلموں میں پرفارم کرنے کا موقع ملا، تو فلمی گیت نہیں گائیں گے، فقط قوالی ہی پیش کریں گے۔

بلاصلاحیت فن کاروں کو سراہنے میں وہ کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ ہم عصروں میں فریدالدین ایاز کی تعریف کرتے ہوئے اُنھیں قوال برادری کا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ سینئرز میں صابری برادرز کے علاوہ منظور نیازی قوال کو سراہتے ہیں۔ چند قوال نصرت فتح علی خان کی طرز گائیکی سے اختلاف رکھتے ہیں، مگر افضل کی رائے مختلف ہے۔ کہنا ہے،''ہر قوال اپنی شناخت بنانے کے لیے اظہار کے پیرائے میں چند تبدیلیاں لاتا ہے، انھوں نے بھی یہی کیا، جسے سامعین نے قبول کیا۔'' آج راحت فتح علی خان کا طوطی بول رہا ہے۔ افضل کھلے دل سے اُن کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں، اور اُنھیں پاکستان کا بہترین گلوکار قرار دیتے ہیں۔ عزیز میاں نے قوالی کے میدان میں جو تجربہ کیا، افضل کے نزدیک وہ کام یاب اور منفرد تھا کہ قوالی، ان کے نزدیک، ایسے مصرعے کی تکرار ہے، جس سے سامعین جُڑ جائیں، اور وہ یہ کام بہ خوبی کیا کرتے تھے۔

افضل کا تعلق صابری سلسلے سے ہے۔ شاکر علی صابری کے ہاتھ پر اُنھوں نے بیعت کی۔ محفل سماع میں پیش کی جانے والی قوالی کو وہ حقیقی قوالی قرار دیتے ہیں۔ ''مرشد کے سامنے قوالی پیش کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ وہ ہی اصل قوالی ہے۔'' یوں تو کئی محفلوں میں یادگار پرفارمینس دی، مگر چند ماہ قبل آرٹس کونسل کراچی میں، مقبول صابری کی یاد میں ہونے والی تقریب سے خوش گوار یادیں جُڑی ہیں۔

مدینے کی زیارت زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ مقبول صابری کے انتقال کو کرب ناک ترین دن قرار دیتے ہیں۔ کرتا شلوار من پسند پہناوا ہے۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ شاعری میں شکیل بدایونی کے مداح ہیں۔ اخبارات کم ہی پڑھتے ہیں۔ فلموں میں ''مقدر کا سکندر'' اچھی لگی۔ امیتابھ بچن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ شادی کو آٹھ برس ہوگئے۔ خدا نے انھیں ایک بیٹے، تین بیٹیوں سے نوازا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔