باز می گوئی کہ دامن ترمکن…

تمام دنیا میں ملازمت ہر ہر سطح پر ایک ٹائم ٹیبل اور اوقات کار کے مطابق چلتی ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq February 07, 2019
[email protected]

پچھلے کسی کالم میں اور اپنی کتاب''دیو استبداد یا نیلم پری''میں ہم نے آپ کو ہندی دیومالا کے دو کرداروں ''راجہ وشوا متر'' اور ایک برہمن رشی وسیشٹھ کی کہانی سنائی تھی جس میں دونوں یعنی کشتری راجہ اور برہمن رشی کا ایک ''گائے'' پر پھڈا ہوگیاتھا یہ دراصل دنیا میں عموماً اس عظیم جنگ کا استعارہ ہے جس میں برہمن کامیاب ہوکر حکمران کا ساجھے دار بن گیا اور دونوں بھائی بھائی بن کر اس گائے کو دوہنے لگے جو ''عوام کالانعام'' ہی کا استعارہ تھی۔

ظاہر ہے کہ جب ایک ہی گائے کے دو ساجھے دار ہوجاتے ہیں اور دودھ کا قطرہ قطرہ نچوڑ لیتے ہیں تو اس کا اپنا بچھڑا تو محروم ہی رہے گا چنانچہ عوام نامی گائے کے یہ بچھڑے بغیر ماں کے دودھ یا یا بہت ہی کم ناکافی دودھ پر پل کر جوان تو ہوجاتے ہیں لیکن گھاس بھی ان کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ یہی تو حکمران اشرافیہ کا کمال ہوتاہے کہ وہ ہر ہر چیز حتیٰ کہ اپنی طرف اٹھنے والے مذہب،آزادی اور دیگر ہتھیاروں کو بھی چھین کر سب کر رخ ان کی طرف کردیا ہے، چنانچہ گائے کے یہ دودھ اور گھاس سے محروم بچھڑے جب ''بیل'' بن جاتے ہیں تو ان کو ملازمت کے ''جوئے'' میں جوت لیتے ہیں۔اور ان کو تربیت دی جاتی ہے کہ تم صرف آلے اور ہتھیار ہو اس لیے سوچنے اور دماغ سے کام لینے کا کام تمہارا نہیں، تم صرف''سنو اور ''کرو''۔ سوچنے والے اوپر بیٹھے ہیں وہ جو کچھ کہیں گے وہ بلا سوچے سمجھے کرو۔اس کے بھلے برُے ہونے پر دھیان مت دو۔اس سے ذرا بھی خلاف ورزی کی، توگئے۔

اب اس لٹی ہوئی دہرا دوہی ہوئی''جاں''کے ان بچھڑوں کی شناخت تو ہم نے بتادی تلاش آپ کریں، ہم صرف ان جیتے ہوئے بچھڑوں کے اس پہلو کا ذکر کریں گے جو پولیس کہلاتی ہے جو حکمرانوں اور اشرافیہ کا سب سے بڑا کوڑے دان ہیں۔

اب ذرادنیاکی معاشیات،اقتصادیات اور اخلاقیات کی روشنی میں دیکھیے کہ بچھڑوں کا یہ طبیلہ دوسرے حقوق تو چھوڑیے انسانی حقوق سے بھی محروم ہوتاہے۔

تمام دنیا میں ملازمت ہر ہر سطح پر ایک ٹائم ٹیبل اور اوقات کار کے مطابق چلتی ہے بلکہ اب تو جو ممالک خدا کے قہر سے بچے ہوئے ہیں وہاں کام پورے ہفتے میں چند گھنٹے ہوتاہے روزانہ پانچ گھنٹے اور یا ساڑھے چار دن میں تقریبا پچیس یا چوبیس گھنٹے بنتے ہیں کیونکہ ڈھائی دنوں کی ہفتہ وار چھٹی بھی ہوتی ہے۔

اور اگر کہیں کسی ملازم کو اس سے زیادہ کام کرنا پڑے یا اس سے لیاجائے تو اسے اوورٹائم کہتے ہیں اور معاوضہ دگنا دیاجاتاہے۔

اب آتے ہیں دوہی ہوئی گائے کے ان بچھڑوں کی طرف جن کو پولیس کہاجاتا ہے۔اس اکسیویں صدی میں بھی ان کے لیے نہ چھٹی ہوتی ہے نہ اوقات کار اور نہ اوورٹائم پورے سات چوبیس گھنٹے والے چینل ہوتے ہیں ہاں ایک رعایت البتہ دی گئی ہے کہ ہفتے میں شاید ایک بار چھٹی ملتی ہے اسے شاباشی کہتے ہیں اور اس کا کوئی دن مقرر نہیں ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلا ایک مرتبہ پھر وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا نہ پچھلی سات پشتوں میں پولیس سے کوئی تعلق رہاہے اور نہ ہی آیندہ سات پشتوں تک کوئی امکان۔کوئی دوست عزیز بھی نہیں ہے بلکہ ذاتی طور پر ہمیں جتنا نقصان پولیس سے پہنچاہے اتنا اور کسی سے بھی نہیں پہنچا ہے۔مطلب یہ کہ طرف داری کا دور دور تک شائبہ نہیں ہے لیکن ہمیں یہ سکھایاگیاہے کہ ہمیشہ سچ بولو اور سچ کے سوا کچھ نہ بولو، کسی بھی کتاب پر ہاتھ رکھے بغیر۔

اور اس کا تقاضا ہے کہ اس رسوائے عالم اور بدنامہ زمانہ پولیس کے بارے میں بھی سچ بولیں جو آج کل سب سے زیادہ ناپسندیدہ پیشہ ہے۔

لیکن یہ ناپسندیدہ کام کس نے کیاہے پولیس کو یہ موجودہ حیثیت مقام اور رسوائیاں کس نے دی ہیں یہ بتانا تو ہمارا فرض ہے اسی اشرافیہ نے جو ہمیشہ سے دودھ کی دھلی تھی، ہے اور رہے گی کیونکہ اپنا گند پھینکنے کے لیے اس کے پاس''نیچے والوں''کا اپنا بڑا کوڑے دان جو ہے۔ایک مرتبہ پھر اپنا ایک پشتو شعر سنانا چاہتاہوں

''بادشاہ'' ہم ھغاسے معصوم او بے گناہ پاتے شی

خپل گناہونہ ورپسر کڑی او''وزیر''بدل کڑی

بادشاہ ویسے کا ویسا معصوم اور بے گناہ رہ جاتاہے کیونکہ ''اپنے گناہ'' اس کے سر پر لاد کر''وزیر'' بدل دیتا ہے۔اب اتنی کم تنخواہ مراعات کے فقدان اور کام کے بھاری بوجھ تلے رہنے والوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ کہ وہ عوام کی بلائیں لیں۔اوپر والوں پر تو ان کا اختیار چلتا نہیں لازماً اپنا غصہ اپنی فرسٹرشن عوام پر نکالیں گے۔کیونکہ اوپر سے آنے والی زنجیر کی آخری کڑی پر زور تو پڑے گا۔ آپ بھی کچھ نہ دیں اور دوسروں سے بھی نہ لیں تو کریں گے کیا؟خودکشی؟ جان تو پیاری ہے اس لیے وہی کرتے ہیں جس پر مجبور کیاگیاہے۔

درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش

یعنی عین دریا کے بیچوں تم نے مجھے تختے پر کس کر باندھا ہوا اور پھر کہتے ہو کہ خبردار دامن تر نہ ہونے پائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں