نیب کے مالی بحران کی کہانی
نیب کے مالی بحران کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ کہانی گزشتہ حکومت سے شروع ہوتی ہے
اس وقت پاکستان میں نیب کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سیاست کا محور بھی نیب ہے۔احتساب کا محور بھی نیب ہے۔ احتساب کے گرد گھومتی سیاست میں نیب مرکز نگاہ ٹھہر گیا ہے۔ایک عمومی تاثر ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت احتساب کے نام پر اقتدار میں آئی ہے۔ عوامی تاثر یہ بھی ہے کہ سیاسی مقدمات میں حکومت نیب کا غیر ضروری دفاع بھی کرتی ہے۔ حکومت نیب کی سیاسی وکیل بنی ہوئی ہے۔اپوزیشن یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کرتی ہے کہ نیب اور حکومت کا اپوزیشن کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔ ملک میں احتساب کا یکساں نظام نہیں ہے بلکہ نیب ٹارگٹڈ احتساب کا نظام چلا رہا ہے۔ اپوزیشن کے مقدمات کو پہیے لگے ہوئے ہیںجب کہ حکومتی حمایتیوں کے مقدمات کو بریک لگی ہوئی ہے۔
لیکن اب ایسا نہیں ہے حکومتی وزراء کا بھی احتساب شروع ہو چکا ہے،علیم خان کی گرفتاری اس کی واضح مثال ہے۔نیب نے یکطرفہ احتساب کے تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے۔لیکن اس سارے منظر نامہ سے قطع نظر نیب کی حالت کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ نیب جس پر یہ الزام ہے کہ وہ حکومت کی چہیتی ہے کس کو معلوم ہے کہ وہ اس حکومت میں ہی سسک کر مر رہی ہے۔ کس کو معلوم ہے کہ نیب اس وقت مالی بحران کا شکار ہے۔ نیب کے ملازمین شدید مالی بحران کی وجہ سے پریشان ہیں۔ چالیس سے زائد نیب کے پراسیکیوٹرز نے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے 31جنوری کو استعفیٰ دے دیا ہے۔ بڑی مشکل سے چیئرمین نیب نے ان کو کام جاری رکھنے پر آمادہ کیا ہے۔
نیب کے مالی بحران کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ کہانی گزشتہ حکومت سے شروع ہوتی ہے۔ گزشتہ حکومت باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت نیب کا مالی شٹ ڈاؤن کر رہی تھی۔ اسی حکمت عملی کے تحت پہلےRecovery and Reward اسکیم کے تحت نیب کو آٹھ فیصد ملتے تھے ان کو کم کرکے دو فیصد کر دیا گیا۔ پھر یہ دو فیصد بھی دینے بند کر دیے گئے۔ اس طرح گزشتہ حکومت کے دور میں نیب کو صرف تنخواہوں کے فنڈز ملتے رہے۔ اس کے علاوہ ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ جس کی وجہ سے نیب آج شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
اور دو فیصد کے حساب سے ہی نیب کے ایک ارب ساٹھ کروڑ مرکزی حکومت کی طرف واجب الادا ہیں۔اسی رقم کے حصول کے لیے بیچارے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ جس ملاقات پر پورے ملک میں شور مچ گیا۔ اپوزیشن نے شور مچایا۔ لیکن بیچارے چیئرمین نیب تو اب اپنا دکھ بھی کسی کو بیان نہیں کر سکتے۔ یہ ملاقات بھی گناہ بے لذت کے سوا کچھ نہ رہی بہت امید تھی چیئرمین نیب کو یہ حکومت نیب کے مسائل کو سمجھے گی۔ اس کے معاشی مسائل کو سمجھے گی۔ اس کے معاشی شٹ ڈاؤن کو ختم کرے گی۔ لیکن ملاقات کے کئی ماہ بعد بھی نیب کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ نیب کے لیے یہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ نیب کے معاشی مسائل نے نیب کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔
اس وقت نیب میں صورتحال یہ ہے کہ نیب کے ملازمین کو ان کی شادی کے موقعے پر پچاس ہزار شادی الاؤنس ملتا ہے اور اب شادی الاؤنس دینے کے لیے بھی نیب کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اسی لیے گزشتہ ایک سال میں پانچ ملازمین کی شادی کے موقعے پر انھیں شادی الاؤنس نہیں دیا جا سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ان ملازمین نے بہت فریاد کی تو چیئرمین نیب نے ذاتی جیب سے انھیں پیسے دے دیے۔ کیونکہ سرکاری خزانہ میں کوئی پیسہ تھا ہی نہیں۔ نیب کے دفاتر میں موجود کینٹین انھی مالی مسائل کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں۔ حتیٰ کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے دوران کھانا بھی افسران گھر سے لے کر آتے ہیں۔کسی قسم کا کوئی سرکاری فنڈ نہیں۔اس سردی میں نیب میں دفاتر میں ہیٹر استعمال کرنے پر بھی پابندی رہی ہے کہ اگر بل زیادہ آگیا تو نیب کہاں سے دے گا۔ کیا پاکستان کے باقی اداروں میں ایسی صورتحال ہے۔ کیا پولیس میں ایسی صورتحال ہے۔ کیا ایف آئی اے میں ایسی صورتحال ہے۔
کیا اینٹی کرپشن میں ایسی صورتحال ہے۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ صرف نیب میں ایسی صورتحال ہے۔ صرف نیب کا معاشی شٹ ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ نیب کے پاس کسی بھی مقدمے کی تفتیش کے لیے کوئی اضافی فنڈز نہیں ہیں۔ کسی تفتیشی افسر کے پاس کوئی سہولت نہیں ہے۔ شائد اس لیے کہ نیب کھٹکتا ہے دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔ اسی مالی بحران کی وجہ سے نیب کے پراسیکویٹرز استعفیٰ دے رہے ہیں۔ ہائی پروفائل مقدمات میں نیب اس وقت ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ فنڈز ہی نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک طرف نیب کے خلاف ملزمان کی طرف سے مقدمات میں لاکھوں نہیں کروڑوں روپے فیس لینے والے بڑے بڑے وکیل پیش ہوتے ہیں۔ دوسری طرف نیب کا 75ہزار روپے ماہوار کا ایک پراسیکویٹر کیا مقدمہ لڑے گا۔ نیب اچھے وکیل رکھنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔کوئی اچھا وکیل نیب کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔پیسے ہی نہیں ہیں۔
31جنوری کو جب نیب میں پراسیکیوٹرز نے استعفے دیے تو نیب نے دوبارہ حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ارباب اختیار کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح نیب بند ہو جائے گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ارب ساٹھ کروڑ میں سے نیب کو ابھی صرف پچیس کروڑ ملے ہیں۔ یہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ لیکن یہ پچیس کروڑ ملنے کی کہانی بھی بہت درد ناک ہے۔ پہلے کئی سمریاں مسترد ہوئی ہیں۔ کابینہ کے کئی اجلاسوں میں معاملہ کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کیا گیا ہے۔ کبھی ایک اعتراض کبھی دوسرا اعتراض۔سمری ایسے نہیں ویسے آنی چاہیے۔ ویسے نہیں ایسے آنی چاہیے۔ ایسا لگنے لگ گیا تھا کہ نیب بھیک مانگ رہا ہے۔ تبدیلی سرکار کے سرخ فیتے نے نیب کی ناک کی لکیریں نکلوا دیں۔ بیوروکریسی بھی نیب سے خوب بدلہ لے رہی ہے۔ کوئی موقع جانے نہیں دیا جا رہا۔
ایک سوال ہے کہ ایک طرف تو یہ حکومت نیب کی وکیل بنی ہوئی ہے دوسری طرف نیب کے ساتھ یہ سلوک کیوں رکھا جا رہا ہے۔ آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف نیب کے پیسوں کی سمری حکومت کے دفاتر میں ایک میز سے دوسری میز پر چل رہی تھی دوسری طرف حکومت کے چند سینئر لوگوں نے نیب کے خلاف محاذ بھی کھول لیا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیب کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس میں تفتیش وزیر اعظم کی توہین ہے۔ حکومتی و دیگر عہدیداروں کے خلاف تفتیش اور مقدمات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
ایسے میں یہ لگتا ہے کہ حکومت چاہتی تھی کہ اگر نیب نے حکومت سے یہ پیسے لینے ہیں تو پھر وزیر اعظم اور دیگر حکومتی عہدیداروں کے خلاف زیر التوا مقدمات ختم کیے جائیں۔ پھر پیسے دیے جائیں گے۔ لیکن چیئرمین نیب نے حکومتی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس لیے پیسے بھی نہیں مل رہے۔ انھوں نے وزیر اعظم کے خلاف تفتیش جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ اور حکومتی بیان کا واضح جواب دے دیا۔ شاید اسی وجہ سے پیسے نہیں مل رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں جاری احتساب کے عمل پر تحفظات موجود ہیں۔ نیب کو مالی طور پر بھی آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔نیب کو فنڈز کے لیے حکومت کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ نیب کو بھی مالی خود مختاری دینی ہوگی۔ تب ہی ملک میں یکساں اور بے لاگ احتساب ممکن ہے۔ جب تک نیب کے مالی معاملات حکومت کے کنٹرول میں رہیں گے تب تک نیب بھی حکومت کا محتاج رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے سب مل کر حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ نیب کے فنڈز جاری کیے جائیں۔ اور نیب کو مالی خود مختاری دی جائے۔