روبرو
گزشتہ تقریبا ایک ہزار برس میں دنیا میں ہونے والی ترقی اور علوم کے فروغ میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
یوٹیوب فیس بک اور اس طرح کی ٹیکنالوجی کے مزید کئی مظاہر نے جہاں بہت ساری برائیوں کو راستہ دیا ہے وہاں یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ان کی معرفت آپ کی رسائی ایسی چیزوں تک بھی آسانی سے ہو جاتی ہے جن کے لیے اگلے وقتوں میں پوری پوری عمریں صرف ہو جاتی تھیں۔
تاریخ عالم میں ہم مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل پیچیدہ اور حیران کن ہے کہ فتح مکہ سے ایک صدی کے اندر مسلمان اس وقت کی معلوم اور بعد دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر چکے تھے صرف 712 عیسوی کو ہی لیجیے اس ایک سال میں چار بڑی مہمات روس، ترکستان، افریقہ، سپین اور بھارت کی طرف بھیجی گئیں جو چاروں کی چاروں کامیاب رہیں اور ان علاقوں میں مسلمان آئندہ کئی صدیوں تک برسراقتدار رہے۔
لیکن اس بات پر بہت کم غور کیا گیا ہے کہ ان چاروں مہمات کے کامیاب سپہ سالاروں کے ساتھ بعد میں کیا ہوا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان چاروں فاتحین کو اپنی بقیہ زندگی بہت تکلیف اور اذیت میں گزارنا پڑی اور وہ بہت کسمپرسی کی حالت میں مرے۔ تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کے حوالے سے یہ معاملہ میرے لیے ہمیشہ بہت پریشان کن رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور پھر یہ بات اور زیادہ پیچیدہ اور بحث طلب ہو جاتی ہے کہ تقریبا چار صدیوں تک زندگی کے تمام شعبوں میں تحقیق اور ترقی کرنے والی قوم یک دم تاش کے پتوں کی طرح بکھر کیسے گئی؟
برادر عرفان صوفی شکاگو امریکا میں مقیم ہے وہ پیشے کے اعتبار سے تو ماہر نفسیات ہے مگر فنون لطیفہ بالخصوص ادب اور موسیقی پر اسکی دسترس غیر معمولی ہے۔ کل ہی مجھے اس نے واٹس ایپ پر کسی شخص کی آواز میں برادرم جاوید چوہدری کا لکھا ہوا کالم فارورڈ کیا جو اتفاق سے اسی موضوع پر لکھا گیا ہے اور جسکا ماحصل یہی ہے کہ گزشتہ تقریبا ایک ہزار برس میں دنیا میں ہونے والی ترقی اور علوم کے فروغ میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم ہڈ حرام مجاوروں کی طرح اپنی تاریخ کے پہلے پانچ سو برس کی قبروں کی کمائی کھانے اور دھمالیں ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
اس کالم کو سننے کے دوران مجھے یاد آیا کہ ستر اور اسی کی دہائیوں میں میں نے بھی اس موضوع پر بہت سی نظمیں لکھی تھیں اور کم و بیش اسی نتیجے پر پہنچا تھا جس نے جاوید چوہدری کو تلخ نوائی پر مجبورکر دیا، فرق صرف اتنا ہے کہ میرے یہاں دکھ زیادہ اور غصہ نسبتا کم ہے
اپنے خوابوں کی دہلیز پر مضمحل
کب سے بیٹھے ہیں عشاق
ژولیدہ مو اور پژمردہ دل
رسمِ بخیہ گری
شہرِ کم رزق میں ا س طرح سے بڑھی
بھوک کے زخم بھی سلکِ ایمان سے لوگ سینے لگے
سلکِ ایمان کھنچ کھنچ کے تنتا گیا
اس قدر تن گیا
ہر گھڑی دل میں رہتا ہے یہ وسوسہ
یہ اگر ٹوٹ کے
وقت کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹ کے
بھوک کے اس جہنم کے پاتال میں گر گیا
تو یہ تنور جس میں
شب و روز نانِ جویں کے لیے
خود بھی نانِ جویں کی طرح
سرخ شعلوں میں بنتے بگڑتے ہیں انساں
سلکِ ایمان کو اور اس کے کناروں سے پسی ہوئی خلق کو
ہیزم خشک کی مثل کھا جائے گا
تار پر چلنے والے نٹوں کی طرح
ہم بھی تنور کے منہ پر تانے ہوئے
سلکِ ایمان پر محوِ رفتار ہیں
(زندہ تاریخ بھی ایک سورج ہے پر
اس کا نورِ جہاں تاب ان کے لیے ہے
جو سورج مکھی کی طرح ہر گھڑی رو بہ خورشید ہیں)
ہم کہ خود اپنی تاریخ پر بوجھ ہیں
اپنے کمزور کاندھوں پہ تاریخ کا بوجھ لادے ہوئے
جس میں آبا کے بھولے ہوئے نقش ہیں
اک حقیقت نما خواب کے عکس ہیں
اور یہ کچھ بھی نہیں
معجزوں کے لیے اپنی آنکھوں کی جھولی پسارے ہوئے
خواب اوڑھے ہوئے
آنے والے دنوں کی طرف پیٹھ موڑے ہوئے
ہیں رواں بے جہت، بے نوا اور خجل
اپنے ہونے کے آشوب سے منفعل
رسمِ بخیہ گری
شہرِ کم رزق میں ا س طرح سے پڑی
خواہشیں بے عمل، آرزو پا بہ گِل
اپنے خوابوں کی دہلیز پر مضمحل
کب سے بیٹھے ہیں عشاق
ژولیدہ مو اور پژ مردہ دل
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نظم کے لکھے جانے کے بعد کے چالیس برسوں میں یہ رسمِ بخیہ گری اب ایک مستقل نوحہ گری میں ڈھلتی جا رہی ہے اور ہم صبح و شام اپنے بکھرنے کا تماشا دیکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تُلے بیٹھے ہیں اور اب تک اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں کہ جتنا آپ دنیا کو دیں گے اسی حساب سے آپ کو واپس بھی ملے گا اور یہ کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔