حقیقی نظام عدل کب قائم ہوگا

ہم پاکستان میں نظام عدل پر بات کرنے سے قبل ملک میں ہونے والی قانون سازی پر بات کریں۔


ایم اسلم کھوکھر February 08, 2019

دوسری عالمگیر جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی، ہٹلرکی فوجیں پوری دنیا کو فتح کرنے کا عزم لے کر ملکوں، ملکوں یلغار کر رہی تھیں ۔ جنگ کی لپیٹ میں انگلستان بھی تھا بلکہ اس جنگ میں انگلستان کا اہم کردار تھا۔ جرمن فوجیں تابڑ توڑ حملے پوری دنیا کی طرح انگلستان پر بھی کر رہی تھیں۔

امکان تو یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ انگلستان جنگ میں شکست کھا جائے گا چنانچہ انھی جنگی حالات میں ایک خصوصی اجلاس وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی زیر صدارت ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا جاتا ہے کہ محترم وزیر اعظم جنگی کیفیت جو ہمارے سامنے ہے، اس کیفیت میں ممکن ہے کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں۔ وزیر اعظم ونسٹن چرچل پوری توجہ سے اپنے وزرا کی بات سنتے ہیں اور پھر اپنی کابینہ کے وزرا سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری عدالتیں انصاف کررہی ہیں؟ جواب ملتا ہے محترم وزیر اعظم ہماری عدالتیں پوری طرح سے انصاف کر رہی ہیں اور ہمارے عوام کو انصاف مل رہا ہے۔

یہ جواب پاکر وزیر اعظم انگلستان ونسٹن چرچل جو گفتگو کرتے ہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہمارے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے تو پھر ہم جنگ میں شکست نہیں کھائیں گے، آنے والے وقت میں ونسٹن چرچل کے الفاظ نے یوں صداقت کا روپ دھارا کہ ہٹلر کو شکست فاش ہوئی اور انگلستان و اتحادی یہ جنگ جیت گئے ۔ گوکہ اس جنگ میں ہٹلر کو شکست فاش سے ہمکنار کرنے میں اہم ترین کردار سوویت یونین کی سرخ پوش فوج جوکہ محنت کشوں پر مشتمل تھی نے ادا کیا تھا۔ بہرکیف وزیر اعظم انگلستان ونسٹن چرچل کی گفتگو سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ نظام انصاف قائم کرنے والی و اپنی عوام کو انصاف فراہم کرنے والی ریاستیں عالم گیر جنگ میں بھی شکست سے دوچار نہیں ہوتیں۔

ہم پاکستان میں نظام عدل پر بات کرنے سے قبل ملک میں ہونے والی قانون سازی پر بات کریں۔ قیام پاکستان کے بعد جو آئین دیا گیا وہ 1948 کا دستور پاکستان کے نام سے دیا گیا۔ دوسرا آئین 1956 میں دیا گیا ۔ تیسرا آئین 1962 میں ایوبی آمریت کے دور میں دیا گیا۔ لیگل فریم ورک آرڈر کا نام اس آئین کو دیا گیا۔ البتہ ایک متفقہ آئین جو سامنے آیا وہ ہے 1973 کا آئین جوکہ اس وقت بھی نافذ العمل ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس آئین کی موجودہ شکل یہ ہے کہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق اس آئین میں 31 ترامیم کی گئی ہیں۔

سات ترامیم اس آئین کے بانی زیڈ اے بھٹو کے دور میں ہی کی گئیں، البتہ یہ صداقت ہمارے سامنے ہے کہ آئین 1948 کا ہو یا1956 کا، 1962 کا ہو یا 1973 کا یا کوئی بھی آئین عوام کو مکمل انصاف فراہم نہیں کرسکا باوجود اس کے 22 وزرائے اعظم اس ملک کو نصیب ہوچکے ہیں جن میں16 وزرائے اعظم کا تعلق اس ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ سے،5 وزرائے اعظم کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے جبکہ موجودہ وزیر اعظم کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔

ان وزرائے اعظم کے علاوہ 13 صدور بھی اس ملک کے حکمران بنے جن میں چار طاقتور ترین آمر صدور بھی شامل تھے۔ مثلاً ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق و پرویز مشرف۔ مگر پھر بھی اس ملک میں نظام عدل ایسا قائم نہ ہو سکا کہ اس ملک کے عوام کو انصاف حاصل ہو پاتا جبکہ بقول نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ جنھوں نے 18 جنوری 2019 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے گوکہ ان کا عرصہ ملازمت فقط 11 ماہ رہ گیا ہے نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس وقت 19 لاکھ مقدمات ملک کی عدالتوں میں زیر سماعت یا زیر التوا ہیں جبکہ انصاف کی فراہمی کے ذمے داران ججز کی تعداد ہے فقط 3 ہزار جوکہ ناکافی ہے۔

انھوں نے ملٹری کورٹس کی مخالفت بھی ان الفاظ میں کی کہ دنیا بھر میں اس عمل کو کہ ملٹری سویلین کا ٹرائل کرے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، چنانچہ لازم ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ دوسری جانب فوج کے ترجمان آصف غفور کا یہ موقف اس سلسلے میں سامنے آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ملٹری کورٹس کی اشد ضرورت ہے مگر فوج کی یہ کبھی خواہش نہیں رہی کہ ملٹری کورٹس قائم کی جائیں جبکہ جرائم پیشہ لوگوں کی کیفیت یہ ہے کہ مختلف جرائم میں ملوث فقط پنجاب کی جیلوں میں مقید افراد کی تعداد 55ہزار ہے۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں مقید افراد کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ لازمی ہوگی البتہ ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جوکہ آزادانہ گھوم رہی ہے اور شب و روز جرائم پیشہ کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔ ان جرائم میں قتل و غارت گری، اسٹریٹ کرائم، ڈاکہ زنی، لوٹ مار و دہشت گردی جیسے جرائم بھی شامل ہیں۔

اب ان حالات میں ذکر اگر منتخب نمائندوں کا کریں تو کیفیت یہ بنتی ہے کہ حزب اختلاف کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان کے قائدین کے ذاتی مسائل پر بات کی جائے وہ قائدین جن کو جیل میں بھی وہ تمام سہولیات دستیاب ہیں جوکہ عام آدمی کو آزاد فضاؤں میں بھی دستیاب نہیں ہیں چنانچہ قومی خزانے سے حاصل شدہ رقوم سے ہونے والے اسمبلی اجلاسوں میں قومی مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ قومی مسائل کے بارے میں تجاہل عارفانہ ہی سے کام لیا جاتا ہے اب اگر برسر اقتدار لوگوں کا طرز عمل دیکھا جائے تو فقط نعرے بازی کے علاوہ ان کے پاس عوامی مسائل کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل گویا نظر نہیں آتا، ہر روز قومی مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے بالخصوص سماجی جرائم میں۔ ان جرائم کا ایک باعث غربت بھی ہے۔

عظیم فلسفی ارسطو کا قول ہے کہ جس سماج میں غربت حد سے بڑھ جائے اس سماج میں جرائم بھی بڑھ جاتے ہیں اور اس سماج میں انقلاب آجاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان تحریک انصاف جس نے عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کا وعدہ کیا تھا اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے دیگر مسائل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ نظام عدل قائم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرے۔ سماجی حالات یہ ہیں کہ تمام تر مسائل کے باوجود عوام موجودہ حکمران جماعت کے لوگوں سے آج بھی امید لگائے ہوئے ہیں کہ شاید موجودہ حکمران، وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ان کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔

اگر ایسا نہ ہوا تو عوام جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے محافظوں کے ہاتھوں بھی جبر کا شکار ہوتے رہیں گے یہ محافظ عام محنت کشوں سے ان کی دن بھر کی محنت کے عوض ملنے والا معاوضہ لوٹتے رہیں گے ۔ 13 سالہ اریبہ کو اس کے والدین کے ساتھ شادی کی تقریب میں جاتے ہوئے اس کے معصوم بہن بھائیوں کے سامنے گولیوں کا نشانہ بناتے رہیں گے اور اس عمل کو پولیس مقابلے کا نام دیتے رہیں گے۔

بعدازاں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اریبہ اور اس کے والدین کو دہشت گرد قرار دیتے رہیں گے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ انگریز کا 1861 کا قائم کردہ نظام کچرے کی نذر کیا جائے اور اصلاحی نہیں انقلابی پیمانے پر پولیس کا نظام تعارف کروایا جائے۔ بصورت دیگر جب عوام کی قوت برداشت جواب دے جائے تو پھر جابر حکمرانوں کے لیے جائے پناہ تلاش کرنا ناممکن ہوجاتا ہے اور فقط چند نوجوان کیوبا میں بتستہ کا اور پاکستان میں آمر ایوب خان کا اقتدار ختم کرنے کو کافی ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں