روحی بانو تو بہت پہلے مر گئی تھی
روحی بانو میں صلاحیتوں کا ایک خزانہ تھا فلم انڈسٹری کو اس جیسی ذہین اداکارہ کی ضرورت تھی۔
QUETTA:
اداکارہ روحی بانو کو ہمارے بے حس معاشرے نے بہت پہلے مار دیا تھا، اس کی موت کی خبر تو بڑی دیرکے بعد منظر عام پر آئی ہے۔ وہ تو اسی وقت مرگئی تھی جب اس کا اکلوتا جوان بیٹا بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی زندگی کا سب سے قیمتی سہارا چھن گیا تھا۔ روحی بانو تو اس وقت مرچکی تھی جب وہ اپنی زندگی کی لاش کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے درد کے اندھیروں میں دیوانہ وار اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔
روحی بانو جب بھی مری ہوئی تھی جب اسے لاہور کے فاؤنٹین ہاؤس میں داخل کرا دیا گیا تھا۔ جہاں وہ دکھ کے لباس میں لپٹی آنسوؤں کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ وہ دیار غیر پہنچا دی گئی اور پھر اس کی موت کی خبر دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔
میری اس سے پہلی ایک مختصر سی ملاقات ایک غزل کی نجی محفل میں ہوئی تھی۔ اس محفل میں میرے دیرینہ دوست استاد امیر احمد خان میرے ساتھ تھے۔ انھوں نے مجھے یہ بات بتائی تھی کہ روحی بانو موسیقی کے مشہور گھرانے کے استاد طبلہ نواز اللہ رکھا کی صاحبزادی ہے ۔
روحی بانو کو موسیقی بھی پسند تھی مگر وہ ٹیلی وژن کے مشہور مصنف اور ڈائریکٹر انور سجاد سے لاہور میں ایک ملاقات کے بعد ٹیلی وژن ڈرامے میں کاسٹ کرلی گئی تھی۔ ایک ڈرامے کے بعد دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھے ڈرامے نے ہی روحی بانو کو ٹیلی وژن کی معروف اداکاراؤں میں شامل کردیا تھا۔ اس کا ہر نیا ڈرامہ اس کے پچھلے ڈرامے سے زیادہ پاورفل ہوتا چلا گیا اور اس کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ ساتھ چار چاند لگتے چلے گئے۔
اب روحی بانو کے لاکھوں فین تھے اس کے ساتھی فنکاروں میں فردوس جمال، قوی ، طلعت حسین اور شکیل جیسے ذہین آرٹسٹ شامل تھے۔ روحی بانو کے اندر فن کا ایک سمندر موجزن تھا جو بڑی تیزی سے آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا وہ موسیقی کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی مگر وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اس نے سائیکالوجی میں ایم اے کیا تھا۔ وہ بہت ہی شگفتہ بیان تھی مگر کبھی کبھی اپنے آس پاس کے ماحول سے گھبرا کر الجھ بھی جاتی، پھر خبر آئی کہ روحی بانو نے شادی کر لی ہے۔
کچھ عرصے تک اس کی زندگی میں سکون آ گیا تھا مگر پھر ایک طوفان اٹھا اور پتہ چلا کہ اس کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی ہے، اب یہ ایک بیٹے کی ماں تھی اور وہ بیٹا اس کے پاس تھا ۔ وہ اپنے بیٹے کی محبت میں گم ہوگئی پھر اس کی زندگی میں ایک اور شوہر داخل ہوا مگر آہستہ آہستہ وہ شوہر بھی اس کے لیے عذاب بنتا چلا گیا تھا، اس کی شادی شدہ زندگی ایک بار پھر بجائے شہد آمیز ہونے کے زہر آلود ہوتی چلی گئی تھی۔
جب دوسری شادی بھی اس کے لیے بوجھ بن گئی تو اس نے ایک جھٹکے سے وہ بوجھ بھی اتار دیا مگر اس جھٹکے نے اس کی زندگی کو قدم قدم پر جھٹکے دینے شروع کردیے تھے۔ بے شمار ٹی وی ڈراموں کے بعد اسے فلمی دنیا سے بھی آفرز آنی شروع ہوگئی تھیں۔ اس نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے پھر فلمی دنیا میں قدم رکھا۔
میری روحی بانو سے دوسری ملاقات لاہور میں فلم ''ضمیر'' کی شوٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ فلم میں محمد علی اور وحید مراد کے ساتھ روحی بانو نے بڑا خوبصورت رومانٹک کردار ادا کیا تھا۔ رقص سے زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باوجود اس نے دو گیتوں کی فلم بندی کے دوران رقص بھی کیا تھا، فلم کے موسیقار ناشاد تھے۔صبا فاضلی کے لکھے ہوئے دو گیت مقبول ہوئے تھے جن کے بول مندرجہ ذیل ہیں:
٭ سن ری پون سن ری گھٹا
٭کیا دن یہ سہانے آئے ہیں
یہ دونوں گیت آؤٹ ڈور میں فلمائے گئے تھے اور ان گیتوں کو ناہید اختر اور موسیقار ناشاد کے صاحبزادے عمران ناشاد نے گایا تھا۔ فلم ''ضمیر'' کامیابی حاصل نہ کر پائی تھی اور اس طرح روحی بانوکا فلمی سفر بھی ناکامی سے دوچار رہا جب کہ روحی بانو نے محمد علی کے ساتھ ایک فلم ''آج کا انسان'' اور پھر ''کائنات'' میں بھی کام کیا تھا مگر روحی بانو فلمی تقاضوں پر شاید پوری نہ اتر سکی تھی یا پھر فلمی ماحول اسے راس نہیں آسکا تھا کیونکہ وہ تھوڑی بہت انا پرست بھی تھی مگر وہ خوشامد پسند نہیں تھی وہ فلمی لوگوں کے ساتھ ان کی محفلوں میں بیٹھ کر قہقہے نہیں لگاسکتی تھی۔
یہی وجہ تھی جو اداکارہ ٹیلی وژن کی آنکھوں کا تارہ تھی وہ فلمسازوں کی گڈ بک میں نہ آسکی تھی۔ ہدایت کار اقبال اختر نے روحی بانو کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ یہ لڑکی بہت ہی باصلاحیت ہے، مگر اس کی شخصیت کچھ بٹی ہوئی سی ہے۔ اس کے مزاج میں فلموں کے ماحول کی وجہ سے کافی تلخی موجود ہے جب یہ اس طرح خود کو فلمی لوگوں سے دور رکھے گی تو فلموں میں کام کیسے کرسکے گی۔
حالانکہ روحی بانو میں صلاحیتوں کا ایک خزانہ تھا فلم انڈسٹری کو اس جیسی ذہین اداکارہ کی ضرورت تھی مگر اس نے دو تین ہی فلموں میں کام کیا اور پھر وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی تھی۔ اس کا اکلوتا بیٹا اب نوعمری کے اسٹیج پر تھا وہ اپنے بیٹے کو اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھتی تھی جیسے کوئی مرغی اپنے چوزے کی حفاظت کرتی ہے پھر اس کی زندگی میں ایک آندھی آئی۔ اس کا جوان بیٹا قتل کردیا گیا اور روحی بانو کی دنیا اندھیر ہوتی چلی گئی۔ وہ چیختی رہی چلاتی رہی مگر اس کی کسی نے بھی مدد نہیں کی۔ اس کے بیٹے کے قتل کا سراغ نہ لگ سکا تھا جوان بیٹے کے غم نے روحی بانو کو بے حال کردیا تھا۔
اس کی زندگی ایک ویران کھنڈرکی صورت اختیار کرتی چلی گئی اس کے زخموں پر اس کے اپنوں نے بھی مرہم رکھنے کوشش نہیں کی۔ وہ اس صدمے سے آہستہ آہستہ پاگل ہوتی چلی گئی تھی۔ اس کا گھر جو کبھی خوشیوں کا گلشن تھا خزاں نے اسے برباد کردیا تھا۔ وہ ایک بار سنبھلنے کی کوشش کرتی پھر دس بار گر جاتی تھی۔ حالات کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن چکی تھی۔ اس کے اپنوں نے بھی ہمدردی کا دامن کشادہ نہیں کیا تھا۔ اسے خطرناک دورے پڑنے لگے تھے وہ کبھی کبھی خود سے بھی لڑتی تھی پھر بے حال ہوکر گر جاتی تھی۔
اسے کوئی اٹھانے نہیں آتا تھا۔ اسے وقت کے بے رحم طوفان سے بچانے کوئی نہیں آتا تھا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں نے، فنکاروں نے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ حکومت کی طرف سے اسے اعزاز تو دیا گیا تھا مگر حکومت کے کسی کارندے نے بھی اس کی زندگی کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کا بیٹا چلا گیا اس کا گھر اس سے چھن گیا۔ اسے آسیب زدہ شخصیت کی صورت میں اس کے اپنے لوگوں نے لاہور کی سڑکوں پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ کبھی وہ آسمان کا تارہ جیسی تھی اب وہ زمین کی دھول بن گئی تھی۔
میں جب بھی اس کی پریشان حال اور آسیب زدہ شخصیت کی تصویر کسی اخبار میں دیکھتا تھا تو مجھے اس کے خوبصورت ڈرامے یاد آجاتے تھے۔ زیر زبر، کرن کہانی، جزیرہ، آدھے چہرے، دروازہ، کانچ کا پل، حیرت کدہ اور زرد گلاب ۔ روحی بانو جوکبھی شگفتہ گلاب تھی اب زرد گلاب کا تصور بھی نہیں رہی تھی۔ وہ تو ایک زندہ لاش میں بدل چکی تھی۔ اس کا ایک گناہ یہ بھی تھا کہ وہ آرٹسٹوں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جو چڑھتے سورج کا پجاری ہوتا ہے۔ اب اس کے ڈراموں کا تذکرہ اس کی شاندار شخصیت کی باتیں سب مگرمچھ کے آنسو اور بے کار سی باتیں ہیں اچھا ہوا روحی بانو مر گئی آہ ! روحی بانو، اللہ اس کی روح کو سکون عطا کرے (آمین)