پرفارمنس بہترین جواب ہے
آخری فیصلہ صرف اسی پرفارمنس سے ہوتا ہے جو میدان میں ہو اور سب کو نظر آئے۔
ایک زمانہ تھا کہ کرکٹ کو شریفوں کا کھیل کہا جاتا تھا اور اس کے کچھ آداب ہوا کرتے تھے اب اس سے قطع نظر کہ اس ترکیب کے پس پشت انگریز کا نسلی اور تہذیبی تعصب کسی حد تک کارفرما تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے دیگر کھیلوں کی نسبت اس میں لڑائی جھگڑے اور جسمانی نقصان کا امکان نسبتا بہت کم تھا۔
تضحیک آمیز جملے کس کر مخالف کھلاڑیوں کو نفسیاتی طور پر پریشان یا حواس باختہ کرنا ایک ایسا حربہ تھا جسے سب سے پہلے باقاعدہ طور پر آسٹریلوی کھلاڑیوں نے استعمال کیا مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں بھی نسلی تعصب برقرار رہا کہ اگر کوئی گورا کسی گورے پر جملہ کسے تو اسےpart of the game کہا جاتا تھا لیکن اگر کوئی رنگ دار قوم کا بندہ ایسا کرے یا اس کا جواب دے تو اسے بد تہذیب اور قابل سزا گردانا جاتا تھا جب تک کیمرے اور مائیکروفون اس کھیل کا حصہ نہیں بنے تھے اور نیوٹرل امپائر اور میچ ریفری یا تھرڈ امپائر کا تصور ابھی حقیقت نہیں بنا تھا یہ معاملات عام طور پر کھلاڑیوں کی حد تک ہی محدود رہا کرتے تھے لیکن اب صورتحال بہت بدل گئی ہے بیسیوں کیمروں کی موجودگی میں کسی کھلاڑی کے لیے ممکن ہی نہیں رہا کہ اس کی کوئی غلط حرکت چھپی رہ سکے، وکٹوں کے ساتھ لگے ہوئے مائیکروفون اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ اردگرد کھڑے سب کھلاڑیوں کی آوازیں بھی صاف سنائی دیتی ہیں اسلیے یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ کسی غلط لفظ یا جملے کا ریکارڈ محفوظ نہ ہو۔
اس بات کو آگے بڑھانے سے قبل ٹیکنالوجی کے فروغ کے حوالے سے ایک شاندار لطیفہ نما واقعہ کچھ یوں ہے ایک دادی اماں اپنے پوتے کو اپنے زمانے کے قصے اور اشیاء کی انتہائی کم قیمتوں کے بارے میں بتا رہی تھی کہ کس طرح 100 روپے کے اندر وہ جنرل اسٹور سے سارے مہینے کا راشن اور ضرورت کی تمام چیزیں لے آتی تھی اور پھر بھی کچھ پیسے بچ بجاتے تھے، بچے نے ساری بات سن کر سر ہلایا اور بولا کہ اب ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے ہر طرف کیمرے لگا رکھے ہوتے ہیں۔
تو ہوا یوں کہ بے چارہ سرفراز احمد بھی ان کیمروں اور کمنٹیٹروں کے ہاتھ چڑھ گیا اور اس کا فرسٹریشن میں کہا ہوا جملہ اس کے گلے کا طوق بن گیا۔ اول تو اس جملے میں کم ازکم وہ نسلی تعصب نہیں تھا جس کی بنیاد پر اسے سزا دی گئی کہ یہ معاملہ دو زبانوں کے محاورے کے فرق اور ترجمے کا تھا۔ سرفراز کے اپنے رنگ کے پیش نظر تو یہ بات اور بھی زیادہ واضح تھی کہ اس کا کسی کو کالا کہنا اس فلمی ڈائیلاگ سے مختلف نہ تھا کہ "تیرا کیا بنے گا کالیا" ۔کھیل کے دبائو کی وجہ سے اکثر کھلاڑیوں کے منہ سے ایسے جملے نکل جاتے ہیں جو تہذیب کے پیمانوں پر پورے نہیں اترتے لیکن یہ بھی ایک معمول ہے۔ سرفراز احمد کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا اس نے نہ صرف متعلقہ کھلاڑی سے بلکہ پریس کے ساتھ اپنے کہے ہوئے جملے کی وضاحت اور معذرت کی اور اس پر ندامت کا اظہار کیا اور اطلاعات کے مطابق فریق ثانی نے اسے معاف بھی کر دیا۔
اب اس کے بعد آئی سی سی یا کسی اور ادارے کا اس مسئلے پر تادیبی کارروائی کرنا یا سزا کا اعلان کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ sledging کے موضوع پر بے شمار ایسے واقعات مختلف کتابوں میں درج ہیں جن میں نسلی تعصب کا اظہار بہت واضح اور شدید ہے مگر چونکہ ان کے کہنے والے گوری چمڑی تھے اس لیے ان کو ہنسی مذاق کی بات کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر ویسٹ انڈیز کے بیشتر کھلاڑی سیاہ فام ہوتے ہیں، ان کا دبدبہ پوری دنیائے کرکٹ پر پھیلا ہوا تھا۔ پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں اس کا آغاز اس وقت ہوا جب فرینک وارل کی کپتانی میں اس کے فاسٹ بولرز بڑے بڑے بیٹسمینوں کے چھکے چھڑا دیتے تھے۔ انگلینڈ کا فاسٹ بولر ٹرومین ایک ایسے وقت میں بیٹنگ کرنے کے لیے آیا جب 70 کے اسکور پر 8 وکٹیں گر چکی تھی دن کے گیارہ بجے تھے اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ویسٹ انڈیز کے کپتان فرینک وارل نے سارے فیلڈر اس کے اردگرد کھڑے کر دیے۔
چار سلیبس دو گلیاں ایک شارٹ لیگ اور دو سلی مڈ آن اور مڈ آف پر کھڑے نو آدمیوں کا ہجوم اور ویزے ہال کا طویل بولنگ اسٹارٹ ایسا منظر تھے جو کسی بھی بیٹسمین کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھا۔ جونہی ویزے ہال نے دوڑنا شروع کیا ٹرومین اسٹمپ چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا امپائر نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کالوں کو پیچھے ہٹاو یہ تو میرے سر پر چڑھے آ رہے ہیں امپائر نے کہا کہ کھیل کے اصولوں کے مطابق یہ سب لوگ صحیح فاصلے پر کھڑے ہیں ان کو پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ ٹرومین نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر میںbad light کی اپیل کرتا ہوں اس اندھیرے میں مجھے بال ٹھیک سے دکھائی نہیں دے گا۔
یہ اور اس طرح کے سیکڑوں جملوں کو ایک sorry کی چادر سے ڈھک دیا گیا اور ماضی قریب میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جو بات آپس میں ختم ہو جائے اس کو اچھالا نہیں جاتا۔ اس پس منظر میں سرفراز کو دی جانے والی سزا ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ یہاں بھیall are equal سے زیادہsome are more equal کا اصول ہی کارفرما ہے۔
جہاں تک پاکستان کی ٹیم کا ساؤتھ افریقہ میں پرفارمنس کا تعلق ہے ٹیسٹ میچ وائٹ واش ون ڈے میں تین دو اور ٹی ٹونٹی میں دو ایک سے ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ حالات اچھے نہیں ہیں مگر ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
کھلاڑیوں کی مناسب ذہنی تربیت، صحیح سلیکشن اور انصاف پر مبنی طریقہ کار ہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر ہم ان تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو فاتح ٹیموں کی نشانیاں ہوتی ہیں ضرورت صرف دولت کی ہوس کے جن کو قابوکرنے اور اپنے جائز حقوق کے لیے یک جہت ہو کر لڑنے اور استقلال کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہے کہ آخری فیصلہ صرف اسی پرفارمنس سے ہوتا ہے جو میدان میں ہو اور سب کو نظر آئے۔