بیکار مباش کچھ کیا کر
مصروفیت کے حوالے سے صاحب حیثیت لوگوں کے ایک گروہ کا ذکر عین مناسب ہو گا جو کسی سوشل کلب کے ممبر ہوتے ہیں۔
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں اور گدھوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر بتایا جانے والا ہمارا ملک جو تیزی سے اس دوڑ میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے بلندیوں کی طرف مائلِ پرواز ہے اگر اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو ہمارے ماہرین معیشت و تعلیم اگلی کئی صدیاں سر پیٹتے رہ جائیں گے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی پالیسیاں بنانے میں پس ِ پردہ بیٹھے بیوروکریٹ جنہوں نے گزشتہ بیس پچیس سال سیاسی حکمرانوں کی بیساکھیوں کو دھکا دے کر چلایا ہے ان کے اپنے بچے تو نقل مکانی کر کے برطانیہ، یورپ، امریکا جا آباد ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں ناخواندہ بے ہنر جاہل، کاہل اور بیروزگار افراد کا سمندر چھوڑ گئے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں حصول ِ تعلیم کے لیے جانے والے اکثر بچے اور نوجوان واپس آ جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جب کہ ان کے والدین سال میں ایک دو بار پکنک منانے بچوں کے پاس جاتے رہتے ہیں۔ ایسے والدین جو اعلیٰ یا Lucrative سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہو چکے ہوں زیادہ سے زیادہ دوستوں کی محفلوں میں وقت گزارنے یا اپنی نا جائز کمائی کو Multiply کرنے کی پلاننگ میں مصروف رہتے ہیں، اور نچلی سرکاری سطح کے ریٹارئرڈ ملازم دن بھر مکھیاں مارتے اور آئندہ مہینے کے پنشن ڈے کا انتظار کرتے ہیں۔
مقام ِ افسوس ہے کہ اگر ہماری بیس کروڑ آبادی کے ملک میں 5 کروڑ بالغ افراد ہیں تو ان کی اکثریت نا خواندہ، بے ہنر اور ناکارہ افراد پر مشتمل ہے۔ آپ کسی بھی شہر کے گلی، محلے، بازار، سڑک مارکیٹ کی طرف نکل جائیں، کسی گنجان آباد غریب بستی کو دیکھ لیں، کسی ٹریفک سگنل پر رکیں، بیکار بیٹھے، گھومتے لوگ، مفلوک الحال نیم برہنہ بچے بھیک مانگتے، ہر عمر کے مرد و زن چھوٹی عمر کے لاتعداد بچے اور بچیاں دیکھیں گے۔ بیکاری انسان کو بھکاری یا ذہنی مریض بنا دیتی ہے اور اس کا نتیجہ جرائم پیشہ بنانے میں بھی نکلتا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اکثر امیر اور خوشحال افراد کے بچوں کی تعداد دو، تین یا زیادہ سے زیادہ چار کیوں ہوتی ہے جب کہ افلاس کے مارے جاہل مفلوک الحال لوگوں کے بچوں کی تعداد پانچ دس، پندرہ کیوں ہوتی ہے جب کہ نہ وہ بچوں کو روٹی کھلا سکتے ہیں نہ کپڑے پہنانے کی استطاعت رکھتے ہیں نہ کمرہ چارپائی بستر دے سکتے ہیں جب کہ تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا تو دور کی بات ہے حقیقت یہ ہے کہ بچے پیدا کرتے رہنا ان کی Recreation اور مصروفیت کے علاوہ بڑھاپے میں روزی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے۔
ہمارا فیملی پلاننگ کا پروگرام، اور محکمہ تو بوجوہ غیر فعال ہو چکا ہے ان جہلاء کی مخالفت کی وجہ سے جن کے پاس اس قسم کے معاملات کا ٹھیکہ ہے۔ لوگوں نے تو وائرل ہونے والی وہ وڈیو بھی دیکھی ہو گی جس میں بچے جانوروں کی طرح ایک دوسرے سے روٹی چھین کر کھا رہے ہیں جن کی تعداد 50 بتائی گئی ہے۔ اور ان کا باپ فخر سے کہہ رہا ہے کہ وہ سنچری مکمل کرے گا۔
ہر شخص کی اپنی ضرورت حاجت اور کمزوری کے لحاظ سے اپنی اپنی Priority ہوتی ہے۔ جس کے والدین بیمار یا مصیبت زدہ ہوں وہ ہر سجدے میں ان کے لیے دعا گو ہوتا ہے، جو مقروض ہو وہ سہولت کا منتظر رہتا ہے۔ جس کی اولاد نالائق، بد خصلت ہو وہ متمنی ہوتا ہے کہ اس کے بچے لائق، نیک اور فرمانبردار ہوں۔ جسے بیماری کے مسائل ہوں اس کا کہنا ہے کہ صحت خدا کی بڑی نعمت ہے، جو بیوی کی طرف سے خوش قسمت ہو وہ کسی اور کی بدفطرت بیوی کو دیکھ کر فخر محسوس کرتا ہے ۔ جس کے دوست اچھے ہوں وہ خود کو قسمت کا دھنی سمجھتا ہے بلکہ جس کا ایک دوست بھی اس کے ساتھ مخلص اور برے بھلے دنوں کا ساتھی ہو وہ کہتا ہے کہ We two are a multitude جب کہ سرکاری ملازمت سے بلکہ اعلٰی اور مصروف رکھنے والے عہدے سے ریٹائر ہو جانے والے افسر کو اچانک ایک دن محسوس ہوتا ہے کہ مصروفیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ تیس چالیس سال بھرپور اور مصروف زندگی سے یکدم محروم ہو جانے والے فارغ شخص کو تنہائی اور بیکاری کا احساس جسمانی سے زیادہ ذہنی امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ '' بیکار مباش کچھ کیا کر ٹانکے ادھیڑ کر سیا کر ــ''۔
ایک مصروف انسان اس لیے بھی خوش قسمت ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے بدقسمت اور بدنصیب لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
اور بعض لوگ یہ بھی کہتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کچھ نہیں کر تے کمال کرتے ہیں۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ بیکار شخص کا ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے جو شیطانی خیالات کو جنم دیتا اور ان کی پرورش کرتا ہے۔
لوگوں نے ایسے بہت سے ریٹائرڈ سرکاری ملازم بلکہ افسر بھی دیکھے ہیں جن کی ایک طویل عمر ہر قسم کی خباثتوں میں گزرتی ہے لیکن ریٹائر ہونے کے بعد انھیں اگلے جہان کی فکر اس شدت سے آ گھیرتی ہے کہ وہ ایک پنتھ دو کاج تلاش کر لیتے ہیں۔ مصروفیت کی مصروفیت اور درِ توبہ پانچ وقت کھٹکھٹائے چلے جانا الگ وہ اپنی بڑھیا شیونگ کریم، امپورٹڈ سیفٹی ریزر، قینچی، آفٹر شیو لوشن اور آفٹر شیو کریم پھینک کر داڑھی بڑھا کر لیکن سفید بالوں کو خضاب لگا کر گھٹنوں سے اونچی شلوار اور قمیض پہن کر سر پر عمرہ سے واپسی پر خریدی ہوئی ٹوپی لے کر اللہ لوگ بن جاتے ہیں ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔
کئی لوگ اپنی ریٹائرڈ زندگی میں کوئی کم حیثیت والی ملازمت کرنا پسند نہیں کرتے اور اچانک موسیقی کے دلدادہ بن کر کسی انجمن کی ممبر شپ لے کر شہر بلکہ بیرون ملکِ بھی موسیقی اور ادبی محفلوں میں اپنی شامیں گزارنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ جوانی میں تاش کھیلنے کے بڑے شوقین تھے، وہ اپنا گم شدہ گروپ تلاش کر کے ہفتے میں کم از کم دو دن روٹیشن میں خاموشی سے اکٹھے ہو کر رات گئے تک محفل سجا لیتے ہیں ان کی اس Activity کا ان کے گھر والوں کو بھی مدت گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔
خوشحال اور شوقین لوگ اپنی بیگم یا گروپ کے ساتھ مشہور سیاحتی مقامات کو ٹارگٹ کر کے ہر تین چار ماہ کے بعد کم از کم دو ہفتوں کا ٹور پروگرام بنا کر گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ جو لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں واپسی پر اپنا سفر نامہ بھی تحریر کرتے ہیں۔ کئی حضرات نے تو لوگوں کی اَن دیکھی جگہوں سے متعلق اپنے سفر نامے شائع کر کے اور اگر وہ کسی اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں تو اپنی سیاحت کو کتابی شکل دے کر کتاب کی لانچ کے فنکشن بھی کیے ہیں۔ لیکن سست اور کاہل حضرات آج کل موبائل فون کی باریکیوں پر عبور حاصل کر کے اچھی بُری معلوماتی میسجنگ کرنے اور دن ہی نہیں رات کا بیشتر حصہ اس کھلونے کو انگلیوں پر نچانے میں گزار رہے ہیں لیکن بے حد سست لوگوں نے ہاتھ میں ٹیلیوژن کا ریموٹ کنٹرول آلہ پکڑ رکھا ہے اور بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں تو دو تکئے گردن کے نیچے رکھ کر لیٹے لیٹے اس آلے کے بٹنوں کو گھماتے گھماتے صبح کو شام میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
مصروفیت کے حوالے سے صاحب حیثیت لوگوں کے ایک گروہ کا ذکر عین مناسب ہو گا جو کسی سوشل کلب کے ممبر ہوتے ہیں لاہور کے جمخانہ کلب ہی کو لے لیجیے اگرچہ لوگ کراچی اسلام آباد کی Clubs سے بھی واقف ہیں لیکن جمخانہ کے سینیئر ممبرز کی ایک مخصوص تعداد گھروں میں ناشتہ اور صبح کا قیلولہ کرنے کے بعد کلب کا رُخ کرتی ہے۔ بلیئرڈ، کارڈ روم، لائیبریری، ریڈنگ روم، جم اور ریستوران ان کا مسکن یا ڈیرہ ہوتے ہیں۔
بعض لوگ بعد دوپہر آ کر شام کو یا رات گئے واپس جاتے ہیں۔ کچھ ممبر حضرات ہر روز صبح آ کر رات سونے کے لیے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ جمخانہ کلب ان فارغ یا ریٹائرڈ اور Active ممبران کا Second Home ہے۔ گزشہ دو سال سے اس کلب کی Renovation اور Improvement پر موجودہ کمیٹی کروڑوں روپیہ خرچ کر چکی اور کرتی چلی جا رہی ہے۔ کلب میں ممبر حضرات کو مہمان لانے کی اجازت مل چکی ہے جس کی وجہ سے اب یہ کلب پورا ہفتہ سنجیدہ ممبران کی نظر میں اصل اور پرانی Traditional کلب کی بجائے Mall یا Eatery میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ کلب کے سوئمنگ پول، ٹینس اور اسکوائش کورٹس، گولف کورس، کرکٹ کلب لائیبریری، جم، بلیئرڈ روم اور کارڈ روم البتہ غنیمت ہیں۔