جہاں گشت

بابا نے ایک اینٹ مجھے دیتے ہوئے کہا، تکیہ تو لے لو پگلے


عجب اسرار ہے ناں ایک عام سا نظر آنے والا انسان آپ کے متعلق سب کچھ جانتا ہو۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 31

میں تو سمجھا تھا کہ مجھے حکیم بابا اور ماں جی بھی بس میں بٹھانے کے لیے آئیں گے لیکن عجیب واقعہ ہوا انہوں نے مجھے گھر سے ہی رخصت کردیا، ماں نے اصرار کیا کہ اپنے کپڑے لے جاؤں لیکن میں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ مجھے واپس تو آنا ہی ہے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

میری فرمائش پر انہوں نے اپنی ایک استعمال شدہ کالی چادر اور ٹوٹی ہوئی چپل مجھ سے پوچھتے ہوئے دے دی تھی کہ میں پاگل اس کا کیا کروں گا اور جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ اب آپ کا دست محبت پکڑ کر سونے کی اتنی عادت ہوگئی ہے تو بس آپ کی چادر اوڑھ لیا کروں گا، ماں جی مسکرائیں اور پھر نم آنکھوں سے ٹوٹی ہوئی چپل کا دریافت کیا کہ اس کا کیا کرنا ہے تم نے، ماں جی میں تو لاتوں کا بھوت ہوں ناں تو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو آپ کی چپل سے اپنی پٹائی کرلوں گا اور سمجھوں گا کہ ماں نے پیٹا ہے، یہ سن کر تو ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور پھر جو ہوتا ہے، ہوا انہوں نے مجھے بہت دیر تک اپنے ساتھ لپٹائے رکھا اور پھر بہ مشکل یہ کہتے ہوئے کہ پگلے اس کی ضرورت نہیں ہے میں ہر وقت سایہ بن کر اپنے بیٹے کے ساتھ رہوں گی۔

بس آخری گھڑی آپہنچی تھی تو بابا نے مجھے گلے لگایا اور کہا جاؤ رب تعالی تمہارا نگہبان رہے گا، میں نے بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دلاسا دیا اور انہیں یقین دلایا کہ میں واپس لوٹ کر آؤں گا، طیبہ نے ضرور پوچھا تھا کہ کب؟ تو بس میں مسکرایا تھا اس لیے کہ یہ تو میں بھی نہیں جانتا تھا۔ میں دعاؤں کے حصار میں رخصت ہوگیا۔ راستے میں میں نے سوچا جس حلیے میں اس گاؤں میں داخل ہوا تھا اسی طرح میں واپس جارہا ہوں اور یہ بھی اس مرتبہ پھر مجھے اپنی منزل نہیں معلوم تھی، حالاں کہ میں نے بابا سے دریافت کیا تھا کہ مجھے جانا کہاں ہے تو وہ بس اتنا بولے تھے کہ پگلے جب تو یہاں آیا تھا تو کیا کسی نے بتایا تھا کہ یہاں آؤ تو بس جاؤ راستے خود کھلیں گے اور جہاں پہنچنا ہے پہنچ ہی جاؤ گے۔

اب اس کے بعد میں ان سے اور کیا دریافت کرتا۔ مجھے میرے بابا لوگ نے منع کیا ہے کہ جب کہیں سے رخصت ہو رہا ہوں تو بس آگے دیکھوں، پیچھے مڑ کر دیکھنا منع تھا مجھے، میں آج تک اس پر عمل پیرا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی یہ بہت مشکل ہے، لیکن کیا کریں کہ بس ایسا حکم ہے تو بس تسلیم۔ بس آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا، میں پھر کھٹارا کو بس کہہ گیا لیکن کبھی سوچیے وہ جو بھی تھی ایک نعمت تو تھی کہ مسافروں کو اپنی منزل تک پہنچاتی تھی، کیا بات تھی اس بس کی بھی، بس خدمت کرتی رہتی ہے ناں اور ہم؟

دوپہر تک میں کلر سیداں پہنچ گیا تھا اور میرا جی چاہنے لگا کہ میں ان ہوٹل والے بابا کے پاس جاؤں، کچھ دن ان کے پاس رہوں لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا، کلر سیداں سے راول پنڈی والی بس تیار تھی میں اس میں سوار ہوگیا، راستے میں میں نے ان ہوٹل والے بابا کو ایک نظر دیکھا ضرور تھا، لیکن میں باوجود اپنی خواہش کے ان کے پاس نہ جاسکا۔ کلر سیداں سے روات ہوتی ہوئی بس آخر راول پنڈی میں داخل ہوئی اور پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر کھڑی ہوگئی۔

میں اتر کر ایک ہوٹل پر جا بیٹھا اور چائے منگائی، پھر سے وہی دن وہی ٹوٹا ہوا میلا کپ اور وہی بے سُری چائے لیکن یہ کہنا ناشکری ہے تو بس میں تائب ہوا۔ چائے پینے کے بعد میں بہت دیر تک بیٹھا رہا، میں یہ قطعاً نہیں سوچ رہا تھا کہ مجھے جانا کہاں ہے، بالکل بھی نہیں، جب ساری زمین رب سوہنے کی ہو اور راستے آپ کو چلا رہے ہوں تو کیا سوچنا، کہ اب مجھے راستہ چلاتا ہے۔ عصر کی اذان بلند ہوئی، وہی عصر کہ جس کی قسم رب پیارے نے کھائی ہے کہ انسان خسارے میں ہے، واہ جی واہ ، صرف یہی نہیں بتایا کہ انسان خسارے میں ہے بل کہ اس خسارے سے بچ نکلنے کی راہ بھی سجھائی، واہ مالک کیا بات ہے تیری، قربان۔ میں قریب ہی ایک مسجد میں داخل ہوا، نمازیوں نے مجھے بہ غور دیکھا اور بس۔ نما ز کے بعد میں سڑک پر آنکلا اور ایک سمت چلنے لگا، پھر سڑک کے کنارے چلتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار میرے قریب آکر رکھا، کہاں جانا ہے آپ نے؟

اس نے پوچھا، بے اختیار میرے منہ سے نکلا اسلام آباد۔ تو آئیے میں وہیں جارہا ہوں اور میں اس کے سنگ ہولیا۔ راستے میں اس نے پوچھا اسلام آباد میں کہاں جانا ہے آپ کو؟ اب اس کا کیا جواب دیتا، بس کسی بھی جگہ اتار دیجیے گا مجھے، اس نے خاموشی اختیار کی۔ اسلام آباد شروع ہوگیا تھا، وہ نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا اور نہ جانے کون سی سڑک سے گزر رہا تھا کہ مجھے ایک قبرستان کی دیوار نظر آئی، بس مجھے یہیں اتار دیجیے۔ اس نے مجھے سڑک کے کنارے اتارا تو میں نے کہا رب سائیں آپ کا بھلا کرے، آپ کو خوش رکھے، بہت زحمت کی آپ نے۔ اس نے مجھے بہ غور دیکھا اور کہنے لگا یہاں سے آبادی ابھی خاصی دور ہے، یہاں قریب کوئی ہوٹل بھی نہیں ہے، کیا کریں گے آپ ؟

وہ مجھے کوئی سیاح سمجھا تھا لیکن میرے اصرار پر وہ مجھے اس جگہ اتار کر چلا گیا تھا۔ میں نے سڑک پار کی اور سامنے قبرستان کے دروازے سے اندر داخل ہوا، مغرب کا وقت قریب تھا، چھوٹی سی مسجد، بس ایک چھوٹا سا کمرہ، روشنی کے لیے ایک دیا جل رہا تھا اور ایک بزرگ کھڑے تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو وہ مسکرائے، آگے بڑھے اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اپنا بیگ رکھا اور وضو کرنے لگا، وضو کے بعد میں سر جھکائے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا اگر یہاں رات گزارنی پڑی تو اچھی جگہ ہے یہ، ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بزرگ میرے قریب آئے اور کہا بیٹا آج تم اذان دو، میں نے کہا جی ضرور یہ تو سعادت ہے، میں ضرور دوں گا۔

تھوڑی دیر بعد تین مزدور مسجد میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے، بزرگ نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اذان بلند کروں اور میں ان کے حکم پر رب کریم کی کبریائی کا آوازہ بلند کرنے لگا۔ بزرگ نے نماز کی امامت فرمائی ، سنت و نوافل ادا کیے اور پھر سر جھکائے کسی گہری سوچ میں چلے گئے، شاید مراقبے میں چلے گئے ہوں۔ تینوں مزدور جاچکے تھے اور میں ان بزرگ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، پھر اچانک مجھے سسکیوں کی آواز سنائی دی ، وہ دعا میں مشغول تھے۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے میری طرف رخ کیا اور کہا: سناؤ بیٹا کیسے ہو، اور حکیم صاحب کے پاس رہتے ہوئے تو بہت مزے میں رہے ناں! یہ سنتے ہی میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا، اس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ میں منزل پر پہنچ چکا تھا، یہ پوچھنا فضول تھا کہ وہ کیسے یہ سب جان گئے، جی بابا جی بہت مزے میں رہا وہاں، بس میں نے اتنا ہی کہا۔ چلو اب اتنی راحت تو یہاں نہیں ملے گی لیکن بیٹا! یہی تو ہے زندگی ناں کبھی راحت اور کبھی ۔۔۔۔۔۔ ہر راحت کے بعد نیا مسئلہ اور نئی مصیبت اور کسی مسئلے اور تکلیف کے بعد راحت، چاہے کچھ بھی کرلو اور کتنی بھی راحتوں میں رہو، ہر دن کا سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ہمارے لیے اس دن کے کام و مسائل لے کر طلوع ہوتا ہے، بس ہمارا کام یہ ہے کہ اس سورج کا خندہ پیشانی سے استقبال کریں اور اس دن کے تمام معاملات و مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کریں، اور اپنے آج کو اپنے گزرے کل سے بہتر بنانے کی کوشش کریں، انسان اگر کوشش کرے اور خلوص سے کرے تو رب تعالٰی اس کے ساتھ ہوجاتا ہے اور جب وہ ساتھ ہو تو مسائل ضرور حل ہوجاتے ہیں، اس میں بھی ایک اور درجہ ہے کہ صرف اپنی راحتوں کا ہی نہ سوچے، ساری مخلوق کا سوچے، ایسا سوچنے سے رب تعالٰی انسان کو اس کے نیک افعال کا چاہے وہ اسے پورا نہ بھی کرسکا ہو، صلہ دیتا ہے اور وہ صلہ ہے رضائے الہی، اور یہی ہے انسان کی معراج کہ اس کا خالق اس سے راضی ہوجائے، اگر ایسا نہ کیا تو سمجھو خسارہ ہے، اسی لیے تو رسول کریمؐ نے فرمایا ہے: '' جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں، وہ تباہ ہوگیا۔''

بس یہی ہے جیون تو بس تسلیم میں ہی عافیت ہے، بس اس کی رضا میں راضی رہنے میں ہی نجات ہے، دکھ سکھ جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں ناں۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوئے تو میں نے کہا: جی بابا جی آپ درست فرما رہے ہیں، لیکن یہ پیکر تسلیم و رضا بننا ہے بہت کٹھن۔ وہ مسکرائے اور کہا: ہاں یہ تو ہے لیکن بیٹا جی! اس کے سوا کوئی اور راہ بھی تو نہیں ہے ناں تو بس پھر اسی پر گام زن رہنا چاہیے۔

چلو اب تم آگئے ہو تو اور برکت ہوجائے گی بیٹا۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے دریافت کیا بابا یہ برکت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ بابا مسکرائے اور کہنے لگے میں کیا جانوں بیٹا لیکن دیکھو برکت یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اداس بیٹھے ہوں اور اپنی تکالیف پر افسردہ ہوں، اپنے مسائل سے رنجیدہ ہوں اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہو، اور اچانک ہی کوئی دانا آجائے اور وہ انہیں ان مسائل و تکالیف سے نجات کی ترکیب بتا دے اور وہ آسان اور قابل عمل بھی ہو تو ان افسردہ لوگوں کے دل کی مرجھائی ہوئی کلی تر و تازہ ہوجائے اور وہ ہمت سے کام لیتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی ترکیب سے اپنے جیون کو آسان کرلیں اور ان کی زندگی سکھی ہوجائے تو بس یہ برکت ہوتی ہے، اس دانا کی برکت جس نے انہیں مسائل و آلام سے نجات کی راہ دکھائی، کچھ سمجھے تم بابا نے مجھ سے پوچھا۔

پتا نہیں بابا! میں نے کہا۔ اچھا تو سمجھ جاؤ گے جلدی کیا ہے بیٹا، انہوں نے مجھے سہارا دیا۔ اچھا بابا یہ تو برکت ہوئی تو پھر نحوست کسے کہتے ہیں، میں نے دریافت کیا۔ تم تو کہہ رہے تھے پتا نہیں بابا، تو یعنی تمہیں تھوڑا سا سمجھ میں آگیا کہ برکت کیا ہوتی ہے، چلو ہم اس کو اب الٹ کردیتے ہیں، کچھ لوگ ہنسی خوشی بیٹھے باتیں کر رہے تھے، مسکرا رہے تھے، ہنس رہے تھے، بس وہ خوش تھے کہ اتنے میں کوئی آیا تو سب کہنے لگے اوہو یہ کون آگیا سارا مزا کرکرا ہوگیا ، ساری خوشی غارت ہوگئی ، اب وہ لوگ اداس ہوئے اور اس سے نجات کی راہیں ڈھونڈنے لگے، بابا نے یہ بتاتے ہوئے میری جانب دیکھا۔

کچھ پتا نہیں چلا بابا، بس اتنا سمجھ میں آیا کہ برکت فرد کی وجہ سے ہوتی ہے، اس فرد کا وجود ہی برکت کا ذریعہ ہوتا ہے ، وہ فرد مجسم برکت ہوتا ہے اور اسی سے باقی لوگ برکت پاتے ہیں، اور کوئی فرد اپنے اعمال کی وجہ سے نحوست کا جوہڑ بن جاتا ہے اور باقی اس کی بساند سے آزار میں مبتلا ہوتے اور اس سے نجات کی دعا مانگتے ہیں تو فرد اپنے نیک اعمال کی وجہ سے باعث برکت اور اپنے برے افعال کی وجہ سے باعث نحوست ہوتا ہے، اور ان کا اثر اور لوگوں پر پڑتا ہے۔ واہ بیٹا واہ، یہ ہوئی ناں بات، یعنی کہ تم اب سمجھ گئے ہو، یہ تو بہت اچھا ہوا، اب اس کلیے کو یاد رکھو گے تو کسی بھی مسئلے کی جڑ اور اس کے حل کی ترکیب تک پہنچ جاؤ گے۔

عشاء کی نماز ادا کرکے ہم باہر نکلے، قبرستان میں صرف وحشت ہی نہیں ہوتی اور بہت کچھ ہوتا ہے، بے بسی کی تصویر بنے وہ لوگ جو خلق پر عذاب بنے ہوئے ہوتے ہیں، اب خود عذاب میں ہوتے ہیں اور کوئی مطمئن اور آسودہ کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی، نہ مانے تو کر کے دیکھ، جی جنت بھی ہے، دوزخ بھی ہے نہ مانے تو مر کے دیکھ، یہ ایک گداگر سے سنا تھا میں نے تو۔ مسجد سے بس چند قدم پر اینٹوں سے بنی ہوئی چھوٹی سی چار دیواری، اس کے کونوں میں گڑھے ہوئے چار بانسوں پر ترپال ڈال کر چھت بنائی گئی تھی، دروازے سے نا آشنا بزرگ بابا کی بس چھوٹی سی کٹیا ۔

لو بیٹا اپنا محل آگیا کہہ کر وہ اندر داخل ہوئے اور دیا سلائی سے دیا روشن کرکے مجھے اندر آنے کا کہا، کچے فرش پر دری بچھی ہوئی تھی، کونے میں چند پتیلے، رکابیاں اور ایک بڑی دری رکھی ہوئی تھی، اور سرخ اینٹوں کے اوپر ایک دیگچا رکھا ہوا تھا یعنی کہ یہ چولہا تھا، ساتھ ہی ایک صندوق جس کے قبضے ٹوٹے ہوئے تھے، بس یہ تھی اس محل کے مکین کا کل اثاثہ، بابا نے دیگچی میں سے دو پیالوں میں دودھ انڈیلا اور کپڑے میں لپٹی ہوئی دو روٹیاں نکالیں اور میرے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا، لو بیٹا کھانا کھالو پھر سونے کی تیاری کرو۔ چلو بسم اللہ کرو بیٹا اور ہم نے بہ نام خدا اس کی نعمت کا شکر ادا کیا۔

کھانے سے فارغ ہوکر ہم لیٹ گئے تو بابا نے ایک اینٹ مجھے دیتے ہوئے کہا: تکیہ تو لے لو پگلے۔ پھر خاموشی چھا گئی کہ دیا بھی گل کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر تک میں لیٹا رہا، پھر بابا کی آواز آئی: نیند نہیں آرہی تمہیں، تو بیٹا وہ جو اپنی ماں کی چادر ساتھ لائے ہو، وہ اوڑھ لو ناں، یہی کہہ کر تو لائے تھے تم، کیا اس وقت نیند آئے گی جب ماں کا ہاتھ تھامو گے، چلو اب تمہارا ہاتھ تمہاری ماں تھامے یا تم ان کا ہاتھ تھامو، ہم کون ہوتے ہیں ماں بیٹے کے بیچ، اور پھر خاموشی چھا گئی۔

عجب اسرار ہے ناں ایک عام سا نظر آنے والا انسان آپ کے متعلق سب کچھ جانتا ہو، بہت عجب، لیکن میرے لیے اب اس میں کوئی اسرار نہیں رہا تھا، روز ہی ایک نیا انکشاف میرے سامنے تھا اور اب تک ایسا ہوتا ہے تو بس۔ تھوڑی دیر بعد بابا کی آواز پھر سنائی دی، بیٹا! وہ جب تم اپنے گاؤں سے فرار ہوئے تھے اور تمہیں ایک بابا مل گئے تھے، وہی جن کی ایک بیٹی بھی ہے، انہوں نے تو تمہیں کراچی بھیجا تھا ناں، وہی بابا تو بعد میں ان کا کچھ معلوم بھی کیا تھا تم نے؟ میں عجیب مقام پر آکھڑا ہوا، جی بابا میں انہیں خط کے ذریعے اپنی خیریت کا بتاتا رہا ہوں، ایک مرتبہ کچھ سامان بھی بھیجا تھا میں نے، اسی ٹرک ڈرائیور کے ہاتھ۔ اچھا کیا تم نے لیکن بیٹا اگر اپنی خیریت کا نہ بھی بتاتے تو وہ جانتے ہیں، سامان کی انہیں کیا ضرورت، لیکن اچھا کیا تم نے، لیکن بہت عرصے سے تو تم نے انہیں یاد ہی نہیں کیا۔ جی بابا ایسا ہی ہوا، میں نے کوتاہی کی بہت کوتاہی، میں اتنا ہی کہہ سکا۔ اچھا تو پھر سنو، ان کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے، خوش ہے وہ، لیکن بابا اپنی اصل منزل پر پہنچ گئے۔ بابا کا انکشاف مجھ پر برق بن کر گرا تھا، میں اٹھ بیٹھا اور آنسوؤں کی برسات میں بھیگتا رہا۔

تمہاری یاد آنسو بن کے آئی چشم ویراں میں

زہے قسمت کہ ویرانوں میں برساتیں بھی ہوتی ہیں

بہت دیر ہوگئی تھی اور پھر بابا میرے پاس آئے، اپنے سینے سے لگایا اور کہا: بیٹا! یہی تو ہے اصل منزل، تم جانتے تو ہو، ہاں کوتاہی تو تم سے ہوئی ہے لیکن تمہیں احساس بھی تو ہے اس کا، تو بس یہی مطلوب ہے خدا کو کہ اپنی غلطی تسلیم کرو، چلو اب صبر کرو کہ اس کے بنا کوئی راہ نہیں ہے، لیکن اتنا اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں سے چلے گئے ناں، پگلے ہیں تو ہمارے آس پاس ہی، تمہیں تو بہت چاہتے ہیں، ہاں ہاں کبھی کہیں مل ہی جائیں گے تمہیں، چلو اب ماں کا ہاتھ تھامو اور سوجاؤ، وہ دیکھو آگئیں ہیں تمہاری ماں جی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔