غزل
نہ گرے کہیں نہ ہرے ہوئے کئی سال سے
یونہی خشک پات جڑے رہے تری ڈال سے
کوئی لمس تھا جو سراپا آنکھ بنا رہا
کوئی پھول جھانکتا رہ گیا کسی شال سے
تری کائنات سے کچھ زیادہ طلب نہیں
فقط ایک موتی ہی موتیوں بھرے تھال سے
تُو وہ ساحرہ کہ طلسم تیرا عروج پر
میں وہ آگ ہوں جو بجھے گی تیرے زوال سے
ترے موسموں کے تغیّرات عجیب ہیں
میں قبا بنانے لگا ہوں پیڑ کی چھال سے
(پارس مزاری، بہاولپور)
غزل
بے مہر مقدر کا ستارہ نہیں ہوتا
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ہوتا
پلکوں پہ سجا رکھنا غمِ یار کے موتی
ویران سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
پیارا تو ہمیں ہوتا ہے ہر دوست ہمارا
ہر دوست مگر جان سے پیارا نہیں ہوتا
کھو جاتے ہیں اشکوں کی روانی میں یوں منظر
دیدوں سے پلک تک بھی نظارا نہیں ہوتا
اے حسن! تغافل سے بھی کچھ کام لیا کر
اب مہر و مروت سے گزارا نہیں ہوتا
لگ جاتی نظر تجھ کو زمانے کی اے سدرہؔ
ماں نے ترا صدقہ جو اتارا نہیں ہوتا
(سدرہ ایاز، کراچی)
غزل
لا کر سجا دیے ہیں سبھی غم دکان پر
ڈالے ہیں بوجھ اس طرح اک نو جوان پر
اس فاختہ کا دکھ میں بتاؤں تو کیا بھلا
آنکھیں ہیں جس کی آنکھیں ارے اک کمان پر
شاہین چُھو کے آتا ہے جب آسمان کو
آتا ہے رشک مجھ کو بھی ایسی اڑان پر
ہجر و فراق میرے مقدر میں کر کے تم
ڈھاتے ہو ظلم ننھی سی ہاں ننھی جان پر
کیسے بیان دیں گے مرے حق میں چند لوگ
چھالے پڑے ہوئے ہیں سبھی کی زبان پر
وہ عہد اس نے توڑ دیا پل میں ہی سحرؔ
پیوست جس کی میخیں تھی دل اور جان پر
(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)
غزل
مری آنکھوں کو جاناں خون کے آنسو رلاتا ہے
وہ تیرا روٹھ جانا جب بھی مجھ کو یاد آتا ہے
نہیں وہ دیکھتا تک بھی مجھے جب سامنے ہو تو
محبت بھی اسے مجھ سے ہے وہ لیکن چھپاتا ہے
مری سانسیں یہ بے ترتیب سی پھر ہونے لگتی ہیں
زبانِ غیر پر جب بھی تمھارا ذکر آتا ہے
اسے تسکین ملتی ہے مرے دل کو دکھانے سے
وہ آنسو دیکھ کر آنکھوں میں میری مسکراتا ہے
جسے صورت گوارا بھی نہیں تھی دیکھنا میری
اسدؔ کیوں آج میت پر مری آنسو بہاتا ہے
(زین اسد ساغر، شیخو پورہ)
غزل
ہوتا ہی نہیں دل کا یہ آزار مکمل
میں ہو گئی ہوں آپ سے بیزار مکمل
یہ عشق کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا
کر دیتا ہے انسان کو مسمار مکمل
پہلے تو بہانے سے مجھے ٹالتا تھا وہ
اور آج کیا میں نے بھی انکار مکمل
مشروب مجھے لاکھ بھلے اور پلا دو
بن چائے کے ہوتی نہیں افطار مکمل
یہ زندگی بھی ایک عجب مسئلہ ہے دوست
چلتے رہو پھر بھی نہ ہو رفتار مکمل
محسوس یہ ہوتا ہے تری آنکھوں سے اقراء
تو خواب سے ہو پائی نہ بیدار مکمل
(اقرا عافیہ ٹانک، پاکستان)
غزل
کاغذ کب تک دھیان میں رکھا جائے گا
آخر کوڑے دان میں رکھا جائے گا
آنکھوں کی اس بار رہائی ممکن ہے
خوابوں کو زندان میں رکھا جائے گا
سب کو دل کے کمرے تک کب لائیں گے
کچھ لوگوں کو لان میں رکھا جائے گا
جس کو چاہے ہونٹ اٹھا کر لے جائیں
لفظوں کو میدان میں رکھا جائے گا
باتوں سے جب پیٹ کا کمرا بھر جائے
تو پھر ان کو کان میں رکھا جائے گا
ہم کب قبر کی مٹی کے ہاتھ آئیں گے
ہم کو تو دیوان میں رکھا جائے گا
(عزم الحسنین عزمی، ڈوڈے، گجرات)
غزل
مسلسل آہ اور زاری ہوئی ہے
شبِ ہجراں بہت بھاری ہوئی ہے
رہو تم عمر بھر خوشیوں کے سائے
دعا دل سے مرے جاری ہوئی ہے
قضا نزدیک آکر کیا کرے گی؟
کسی پر زندگی واری ہوئی ہے
میں تم کو جیت لوں ممکن نہیں ہے
تمہی پر زندگی ہاری ہوئی ہے
فقط اتنا کہ میں''ہوں'' اور تم ''تھے''
کہانی یوں مری ساری ہوئی ہے
وہ جب سے کہہ گئے اچھی غزل ہے
کمال اشعار سے یاری ہوئی ہے
(مبشر آخوندی، اسکردو)
''میں امرِتا ہوں''
میرے پریتم
میں امرِتا ہوں
تمہاری چاہت میں ایسی پاگل
تمہاری سگریٹ کے سارے ٹوٹے
لبوں سے اپنے لگا کے پیتی
ہر ایک کش میں
تمہاری سانسیں
میں اپنی سانسوں میں
پی کے جیتی۔۔۔!
مگر تم ایسے کہ پوری سگریٹ
جلا کے پیتے
اسے جلاتے، اسے بجھاتے
بجھا کے پیتے
کبھی نہ سوچا کہ میری خاطر
تم ایک سگریٹ بچا کے پیتے۔۔۔۔!
میں جانتی ہوں
تم میرے شاعر نہیں تھے پریتم
میں امرِتا ہوں
مگر تم ساحر نہیں تھے پریتم
(ناہید اختر بلوچ، ڈیرہ اسماعیل خان)
غزل
ہم ہیں قصور وار دہائی نہ دے سکے
دامن پہ ان کے داغ دکھائی نہ دے سکے
اپنی ضرورتوں کے لیے مانگتے گئے
لینے کا وقت آیا تو پائی نہ دے سکے
شکوہ کیا ہے ساتھویں ننّی پری نے یہ
بہنیں تو آپ دیتے ہیں بھائی نہ دے سکے
مجبوریاں بھی ان کی ہماری طرح کی ہیں
بے مول چارہ گر بھی دوائی نہ دے سکے
صیاد اب کی بار مجھے ایسا چاہیے
جو دل میں قید کر لے رہائی نہ دے سکے
بدبخت اس سے کوئی زیادہ نہیں یہاں
جو اپنی ماں کو اپنی کمائی نہ دے سکے
حارثؔ یہ سوچ کھوکھلا کرتی ہے دم بدم
بھائی کو دیکھ حوصلہ بھائی نہ دے سکے
(حارث انعام، نوشہرہ)
غزل
چندا بولا پچھلی رات
آجا پیارے چرخہ کات
ایک خیال کا دولہا ہے
پیچھے لفظوں کی بارات
دل کا کھیل، مقابل جاں
ہنس کر میں نے کھائی مات
اک دوجے کو دیں الزام
شاید یوں بدلیں حالات!
آج ملا ایسے کوئی۔۔۔
جیسے بن بادل برسات
خوشیاں بھی یوں ملتی ہیں
جیسے نازل ہوں آفات
(صبیح الدین شعیبی، کراچی)
غزل
کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی
اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی
ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے
ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی
زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں
مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی
اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے
اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی
ان جھیلوں میں پریاں روز اترتی ہیں
آنکھوں میں تالاب نہیں ہوتے بھائی
سوچیں ہیں جو دوڑ دوڑ کے تھکتی ہیں
تھکے ہوئے اعصاب نہیں ہوتے بھائی
(مستحسن جامی، خوشاب)
غزل
آپ کی یاد نے ستایا ہے
دل گداگر سا بن کے آیا ہے
راستے بھولتے نہیں وہ مجھے
جن میں اس شوخ کو گنوایا ہے
مطمئن کر سکا نہ کوئی جواب
آپ نے کیوں مجھے بھلایا ہے
بھری دنیا میں ڈھونڈ دیکھا ہے
یہاں ہر شخص ہی پرایا ہے
دل کے بدلے میں جس کو پایا تھا
جان دے کر اسے منایا ہے
ہجر کا کیا بتاؤں میں احمدؔ
عمر بھر ہی مجھے رلایا ہے
(احمد نیازی، لاہور)
غزل
وجہ یہ بھی بچھڑنے کی بنی تھی
ہماری خاندانی دشمنی تھی
اسے چھوڑا نہیں جاتا ہے باہر
خبر یہ آخری میں نے سنی تھی
اندھیروں میں دکھاتی تھی وہ رستہ
وہ لڑکی چاندنی تھی، روشنی تھی
جب آنکھیں کھولتی تھی چوم کر لَب
ان آنکھوں کی چمک بھی دیدنی تھی
میں جس شب گھر نہیں لوٹا تھا حمزہؔ
عجب سی گاؤں میں اک سنسنی تھی
(حمزہ سواتی، مانسہرہ)
''شہرِ دل''
مگر اے دل۔۔۔
مگر اے شہرِ دل
تُو کیوں فصیلِ درد سے
باہر نہیں آتا
بتا مجھ کو
تری یہ خستہ حالی کیوں نہیں جاتی
تجھے جتنا سنواروں
تیری ویرانی نہیں جاتی
مگر اے دل۔۔۔
مگر اے شہرِ دل
(سارہ خان، راولپنڈی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔