کراچی آپریشن چند تجاویز
تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات پر ہی کیا جا رہا ہے۔
KARACHI:
نئی حکومت آنے کے بعد کراچی شہر میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیںاس پر متاثرہ عوام پورے زور سے چلا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام سے ووٹ لینے والی حکمران جماعت سمیت مختلف جماعتوں کے نمایندوں نے بھی اپنے تحفظات کااظہارکیا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کا '' سہرا '' کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہے، تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات پر ہی کیا جا رہا ہے۔ خیر یہ عمل کس کے کہنے پر ہو رہا ہے، اس سے قطع نظر چونکہ یہ سب کچھ اس شہرکی بہتری کے لیے کیا جارہا ہے اور اسی لیے انتہائی بڑی قوتوںکے خلاف بھی کارروائیوں کا عندیہ دیا گیا ہے لہٰذا راقم یہاں بحیثیت ایک شہری چند مشورے اور تجاویز پیش کر رہا ہے، امید ہے کہ مقتدر حلقے ان پر غورکرینگے۔
تجویز نمبر1: شہر میں اب تک تجاوزات کے خلاف جو آپریشن کیا گیا اس کا فائدہ مکمل طور پر نہیں ہو رہا ہے کیونکہ تجاوزات کے خاتمے کے بعد کہیں ہوٹلوں کی کرسیاں ٹیبل دوبارہ رکھی گئی ہیں،کہیں ٹھیلے وغیرہ توکہیں سرکاری طور پر کار پارکنگ بدستور قائم ہیں ۔ (صرف ایک مثال موبائل مارکیٹ سخی حسن چورنگی، کو مغرب کے وقت جا کر دیکھ لیں، موٹر سائیکلوں کی پانچ ، پانچ قطاریں اورکاروں کی پارکنگ کی قطاریں الگ، یہاں شہری حکومت کی جیکٹ پہنے لڑکے پارکنگ فیس وصول کرتے ہیں جب کہ ٹریفک کا سپاہی بھی موجود ہوتا ہے مگر وہ بھی ان کو منع نہیں کرتا ، پل زیر تعمیر ہے جسکی وجہ سے ٹریفک پہلے ہی جام رہتا ہے اور یہاں پورا سروس روڈ اور فٹ پاتھ پرکار پارکنگ بنادی گئی ہے) ایسے مناظر شہر بھر میںعام ہیں،گویا شہر میںاتنی توڑ پھوڑ کرنے کا کوئی فائدہ نہیںہوسکتا جب تک ان وجوہات کو ختم نہ کیا جائے۔
تجویز نمبر2: شہر میں خاص کر وسط اورگنجان آباد علاقوں میں اونچی عمارتوں کی تعمیرات پر پابندیاںعائد ہونی چاہیے بلند وبالا عمارتوں سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں مثلاً پر فضا ماحول آلودہ ہو جاتا ہے۔ سیوریج ، پانی ،گیس اور بجلی کی ترسیل پر دبائو بڑھ جاتا ہے ،کار پارکنگ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، ٹریفک کا دبائو بھی بڑھ جاتا ہے، پھر ہمارے ہاں ابھی نہ تو جدید سہولیات ہیں نہ ہی ہمارے ادارے درست ہیں، خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو کیا ہوگا؟ مثلاً کراچی شہر میں ایک نوجوان اسٹیٹ لائف کی بلڈنگ میں آگ لگنے پر جان بچانے کے لیے گیلری سے لٹک گیا اور بالآخر نیچے گر کر ہلاک ہوگیا، فائر ٹینڈر بروقت جائے حادثہ پر نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ جگہ جگہ پتھارے، ٹھیلے، کار پارکنگ سے راستہ تنگ ہوتا ہے پھر فائرٹینڈر بھی پانی کے بغیر یا ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔ دوسری مثال اسلام آباد کے مارگلہ اپارٹمنٹ حادثے کی ہے ، جب زلزلے کے نتیجے میں ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے کے لیے ہمارے پاس جدید آلات ہی نہیں تھے، بیرون ملک سے امدادی ٹیموں نے آکرکئی روز سے دبے ہوئے لوگوں کو نکالا۔
تجویز نمبر3 :گزشتہ کئی دہائیوں سے شہرکراچی میں بڑی بڑی عمارتیں جن میں کمرشل عمارتیں سرفہرست ہیں تعمیر تو ہوئیں مگران میں کار پارکنگ کی سہولت نہیں رکھی گئی چنانچہ اس وقت شہر میںبہت سے ایسی عمارتیں نظر آتی ہیں جن میں کار پارکنگ کی کوئی سہولت میسر نہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ( مثلاً نیپا چورنگی ، گلشن چورنگی کی جانب سے آگے بڑھتے جائیں تو لیاری ایکسپریس وے بریج تک الٹے ہاتھ پرکئی کمرشل پلازہ اور ایک بڑا پلازہ جسکے نیچے کراچی شہرکا ایک بہت بڑا سپر اسٹور موجود ہے ان میں سے بیشتر نے بلندو بالا کمرشل مارکیٹ وغیرہ تو بنا لیے مگر کار پارکنگ نہیں بنائی یا کم ازکم خریداری کے آنیوالوں کے لیے پارکنگ کی باقاعدہ سہولت نہیں رکھی چنانچہ مصروف اوقات میں جب لوگوں کو یہاں سے گزرنا ہوتا ہے تو ہمیشہ ٹریفک جام ہی ملتا ہے۔ چند کمرشل عمارتوں کی غیر قانونی حرکات نے شہریوں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ نئی و پرانی اور رہائشی و کمرشل عمارتوں کے لیے لازمی کار پارکنگ رکھی جائے اور انھیں اسکا وقت دیا جائے ورنہ ان پر پابندی عائد کی جائے۔
تجویز نمبر 4: مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی ایسے بڑے پلازہ، شاپنگ سینٹرز یا ڈپارٹمنٹل اسٹور بنائے جا رہے ہیں جو مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہوتے ہیں (ان سے جوگیسز خارج ہوتی ہیں، ان سے اوزون کی سطح میں سوراخ ہوچکا ہے اور نتیجے میں زمین پرگرمی ، سردی کی شدت بھی بڑھ رہی ہے نیز طوفان بھی آرہے ہیں،کراچی شہر میں خود کئی مرتبہ ہیٹ اسٹروک آچکا ہے) ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی عمارتوں کی تعمیر نہ کی جائے جو مکمل ائیرکنڈیشنڈ ہوں ، تبھی اس شہر سے ہیٹ اسٹروک جیسے واقعات کوکم نہ سہی، بڑھنے سے ضرور روکا جاسکتا ہے مگر افسوس ایسی عمارتیں خاص کر سپر اسٹور جو پہلے صرف پوش علاقوںتک محدود تھے ،اب مڈل اور لوئر مڈل علاقوں میں بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں،ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔
تجویز نمبر 5: شہری حکومت سے 20سال سے وابستہ تمام منتخب نمایندوں، یونین کے عہدیداروں اور افسران کے اثاثے چیک کیے جائیں کہ اس ادارے سے وابستہ ہوتے وقت ان کے کل اثاثے کیا تھے؟ انھوں نے ٹیکس کتنا ادا کیا ہے، اگر درست معنوں میں اس ملک سے کرپشن اور لاقانونیت ختم کرنی ہے تو پھر اس تجویز پر عمل ضروری ہے۔
تجویز نمبر 6: چائنا کٹنگ کے مکانات نہ گرائے جائیں بلکہ اس میں ملوث لوگوں سے رقم وصول کر کے ان مکینوں کو دے کر جگہ خالی کرائی جائے۔ یہ تجویزاس لیے بھی اہم ہے کہ اس شہر میں مکان بنانا سب سے مشکل کام ہے، قسمت ہی سے کوئی اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی جمع کرکے مکان حاصل کرتا ہے اور جب سرکاری لوگ ہی فروخت کر رہے ہوں تو ایک عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ قانونی طور پر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس کے اصل مجرم وہ مافیا اور افسران ہیں جنھوں نے کروڑوں اربوں روپے کمائے لہٰذا ان کے خلاف الگ سے فوری نوعیت کا آپریشن کیا جائے، پکڑکر خصوصی عدالتوں سے سزا دلواکر رقم وصول کی جائے اور وہ رقم ان چائنا کٹنگ میں رہنے والوں کو دے کر پھر مکانات خالی کرائے جائیں۔
امید ہے مقتدرہ حلقے مذکورہ بالا تجاویز پرغورو خوص کریں گے کیونکہ یہ تجاویز شہرکی بہتری کے لیے ہیں۔