فکری تبدیلی
ستم یہ ہے کہ آج بھی ذہنی رویے بالکل وہی ہیں جو برصغیرکے حکمرانوں کے صدیوں پہلے تھے۔
وہی نیم شب میں سوالات کی بارش۔ اکثر جوابات کا موجودنہ ہونا۔ملک کے حالات دیکھیے تو ہول اٹھتا ہے۔ اخبارمیں کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا جو توجہ کواپنی طرف مبذول کروائے۔وہی بوسیدگی، نعرے اورروایتی اعلانات۔ نتیجہ سب کے سامنے۔ مگرماننے سے ہرکوئی انکاری۔ ایک ناکام ریاست کے خدوخال، رقصاں ہیں اورہمسوئے ہوئے لوگ۔ وہی سر سیداحمدخان کی انقلابی پکار،کہ اے میری مسلمان قوم،نئے علوم کوحاصل کرناگناہ نہیں۔جدت سے لاعلمی،جہالت کوجنم دیتی ہے۔
عقیدت کے بتوں کوتوڑو اور اپنے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ زندہ رہو۔مگرکچھ نہ ہوسکا۔ملک توبن گیا مگرسوچ نہ بدل پائی۔قیامت یہ کہ قدامت پسندی اور روایات کو ریاست نے فروغ دیناشروع کردیا۔معاشرے میں نئی بات سوچنے اورکہنے پراَن دیکھی پابندی لگ گئی۔ وہی گروہ،جوہمارے ذہنوں پر قفل لگا چکا تھا۔ نئی آن بان سے،مقدس لباس پہنے پھر سے ذہن پر قابض ہوگیا۔ سرسید، قائد اوراقبال جس فکر کے مخالف تھے، اب پھر وہی ہماری پہچان بن گئی۔
یہ حالت ہے توکیاحاصل بیان سے
کہوں کچھ اورکچھ نکلے زبان سے
(حکیم مومن خان مومنؔ)
گزشتہ روز،پیپلزپارٹی کی قیادت کایہ بیان کہ بنگلہ دیش نہیں بننے دینگے۔جگرچیر گیا۔ملکی سیاست کے سب سے متنازعہ لیڈریہ بنگلہ دیش والی بات کہاں سے لے آئے۔ملکی سالمیت کے خلاف سوچ کو جاگ لگانے کی کوشش کیونکر۔ کون مائی کالال،پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی جرات کر سکتاہے۔سوال توصرف ناجائز دولت کاہے۔جواب یہ کہ بنگلہ دیش نہیں بننے دینگے۔عرض ہے کہ ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھنے والے،آپ سے بہترمضبوط ہیں۔ فکر نہ کیجیے۔ وہ اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ حضرت، آپ نے ملک کوبنگلہ دیش بننے سے کیا روکناہے۔
آپ تو صرف اپنے مقدمات کے چکر میں ہیں۔ پھر فرمانا۔ سب دبائو،اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا ہے۔ ذرایہ بھی فرمادیجیے،کہ گزشتہ دس برس میں اس ترمیم کے ہوتے ہوئے سندھ میں ترقی کا سفر تو دورکی بات، بدترین تنزلی کوہی روک دیتے توچلیے کچھ بات بن جاتی۔ آپ تولاڑکانہ اورنواب شاہ کوموہنجودڑو بناچکے ہیں۔آپ اس سے صرفِ نظرکرکے کبھی اٹھارویں ترمیم کی بات فرماتے ہیں اور کبھی ملک کوتقسیم ہونے سے بچانے کا اعلان کرتے ہیں جب کہ جب آپ ہرلمحے کے بعدفرمائش کرتے ہیں کہ ہمارے متعلق تفتیش اور مقدمات، سندھ میںچلنے چاہیے۔کیوںصاحب؟
دکھ تواس بات کاہے کہ ملک توبن گیامگرحقیقت میں ملک نہ بن پایا۔وہی صدیوں پرانی قدامت پرستی ہم پر قابض ہے۔کیابات کریں۔کس سے مکالمہ کریں۔ذراسی سنجیدہ بات ہو،توسیکولرہونے کا طعنہ دیا جاتاہے۔سوچے سمجھے بغیرکہ مسلمانوں کی تاریخی ترقی کی بنیاد ہی تجسس،تحقیق اورحددرجے رواداری تھی۔اس وقت مسیحی دنیامیںچرچ فیصلہ کرتاتھاکہ کس کوزندہ رہنے کا حق ہے اورکون راندہ درگاہ ہے۔کون جہنمی ہے اورکون جنتی۔ توقرطبہ اوربغدادہی وہ علم سے لبریزشہرتھے،جہاں سوچ کے دروازے کھلے رکھے گئے تھے۔مشکل سے مشکل بات پربحث کی اجازت۔دلیل سے دلیل پربات۔
جب لندن اور پیرس کی گلیوں میں کیچڑہی کیچڑتھاتوسپین کے شہروں میں صفائی اورروشنی کابہترین انتظام تھا۔سوال اُٹھانے پرپابندی نہیں تھی۔مسلمانوں میں عیسائیوں کی طرزپرچرچ کاوجود تک نہیں تھا۔صرف آٹھ صدیاں پہلے کاذکرہے۔مسلمان معاشروں میں روشن خیالی سماجی عالم،محقق اورطرح دار سائنسدان موجود تھے۔ صرف اس لیے کہ معاشرہ زندہ تھا۔ سوچ زندہ تھی۔ مگر پھر مغرب نے ہمارا علم مستعارلے کرترقی کوجنم دیا۔لاکھ باتیں کریں، طعنے دیں مگروہ ہمیں چیونٹی کی طرح مسل گئے۔
برصغیرمیں مسائل انتہائی مختلف اورعجیب طرزکے روا ہوئے۔علمی طورپرزوال پذیرمسلم معاشرے میں قدامت پسندی اورکم علمی کوپیہم بڑھاوادیاگیا۔وہی رویہ جواہل مغرب میں پسماندگی کی وجہ تھا۔بعینہ ہمارے مسلم معاشرے میں برپاکردیاگیا۔برصغیرکی تاریخ پڑھیے۔ ہولناک حقائق ہیں۔صدیوں کے مسلسل اقتدارمیں تحقیق اورجدیدعلوم پر ایک لمحے کوبھی توجہ نہ دی گئی۔دولت کے اعتبار سے سلاطین اور مغلوںکادورکمال رہامگرکسی ایک نے بھی جدیدسوچ کوپروان نہیں چڑھنے دیا۔
مقصدصرف ایک کہ کہیں شخصی بادشاہت ختم نہ ہوجائے۔ایک طرف خزانے بھرے ہوئے مگردوسری طرف حرم بھی دنیابھرکی خوبصورت خواتین سے لبریز۔جن بادشاہوں کوہمارے چندلکھاری بڑے ادب و آداب سے مخاطب کرتے ہیں۔ان میں سماجی،مذہبی اور معاشی انصاف کی رَتی بھررمق نہیں تھی۔مغلوں کاآخری دور توپستی کی انتہا تھی۔تقریباًایک صدی مغل بادشاہ،ایسٹ انڈیا کمپنی کے طفیلی تھے۔مگرعادات اوررہن سہن وہی پرانا۔
محلاتی سازشیں،وہی سیکڑوں خواتین پرمشتمل حرم اوروہی اپنے عصر سے مکمل لاعلمی۔نتیجہ مختلف نہ ہوپایا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیانے درجے کے اہلکارہروقت انکوبے عزت کرتے رہتے تھے۔تضحیک کرتے تھے۔ یہ لوگ ہرذلت کے باوجود نمائشی بادشاہ بننے پربھی خوش تھے۔سوال اُٹھتاہے کہ آٹھ سو برس کی حکومت میں برصغیرمیں ایک یونیورسٹی، تحقیقی ادارہ اورسائنسی تعلیم کی ایک درسگاہ بھی قائم نہیں کی گئی۔
کیایہ اَمربذاتِ خود حیران کر دینے والا نہیں۔ چند لکھاری،برصغیرکی علمی کوتاہیاں چھپانے کے لیے ترکی کی ترقی کابیان فرماتے ہیں۔مگرکیاوہ ترکی کے آخری لڑی کے سلاطین کی ذہنی پستی کے متعلق بیان فرمانا پسندکرتے ہیں۔ترکی کے اکثر حکمرانوں کا دور جدت پسندی سے کافی خائف رہا۔یہ اَتاترک تھا،جس نے موجودہ ترکی کی تشکیل کی ہے۔مسلمان ریاستوں میں اگرکسی نے صدیوں کے جمودکو جڑسے اُکھاڑاہے تووہ صرف اور صرف اَتاترک ہیں۔
آپ اَتاترک سے ہزار اختلاف کریں۔مگراس نے مسلم دنیامیں جدیدریاست کی بنیادرکھی ہے۔ہرتبدیلی تکلیف دہ ہوتی ہے۔لہذاترکی میں سماجی،علمی انقلاب بغیر مشکلات کے نہیں آیا۔برصغیر میں ایک بھی مسلم حکمران ایسا نہیں تھاجو انقلابی تو دور کی بات معمولی سائنسی تحقیق اور تجسس کو نمو ہونے کی اجازت دیتا۔ ان حکمرانوں کامقصد بادشاہت اور اپنے بعد،اپنی کسی لاڈلی بیگم کی اولاد کو تخت پربٹھانے کی منصوبہ بندی۔
ستم یہ ہے کہ آج بھی ذہنی رویے بالکل وہی ہیں جو برصغیرکے حکمرانوں کے صدیوں پہلے تھے۔بساط کارنگ تبدیل ہوگیامگرطاقت کے کھیل میں ہرگزہرگزکوئی تبدیلی نہیں آئی ۔وہی اولادکووزیراعظم یاوزیراعلیٰ بنانے کا جنون۔ وہی ذاتی خزانے کوجائزوناجائزطریقے سے بھرنے کاخبط اورمعذرت کے ساتھ،وہی رنگین شوق۔مگرایک تبدیلی ضرو رآئی ہے۔اب انھوں نے لبادہ "جمہوریت" کا اوڑھ لیا ہے۔ ہاتھی گھوڑوں کے بجائے اب رولزرائس، مرسیڈیز کار اور لینڈ کروزرآگئی ہیں۔اُڑن کھٹولاتونہیں تھا مگر اب جدید پرائیویٹ جیٹ طیارے قطار در قطار موجود ہیں۔
شاہی قلعے توختم ہوگئے۔مگرسیکڑوں ایکڑکے گھرآراستہ ہیں۔شاہی خلعتیں توچلی گئیں مگرکروڑوں روپے کے بیش قیمت ذاتی لوازمات زندگی میں داخل ہوگئے۔کروڑوں روپے کی کلائی گھڑیاں، لاکھوں روپے کے ڈیزائینربیگ اورجوتے۔ہیرے جواہرات سے مزین بٹن،سب آن بان شان سے موجودہیں۔صرف لبادہ بدل گیا ہے۔ ہاں، ایک اورچیزبھی یکساں ہے۔ "درباری"۔صدیوں پہلے کے درباری،آج چہرے،لباس اورنام بدل کربالکل اسی قدیم طریقے سے موجودہیں۔کسی کو بھی اپنے لیڈرمیں کوئی خرابی نظرنہیں آتی۔
دربارکے طور طریقوں کے حساب سے متعدداہل قلم اوراہل علم بھی دربار میں خلعت لینے کھڑے ہیں۔ انتظار صرف اورصرف خزانہ کامنہ کھلنے کا ہے۔ صاحب،وہی قدیم نظام آج بھی ہمیں جکڑے ہوئے ہے۔دنیاتبدیل ہوگئی مگرہم اپنے آپ کوعصرکی جدت میں نہ ڈھال سکے۔نتیجہ وہی غلامی،وہی قرض، وہی عدم استحکام اوروہی بونے۔
چلیے،کچھ گریہ توہوگیا۔مگرسوال تواپنی جگہ پرایستادہ ہے کہ اب کیاکیاجائے۔حل کیاہے۔کونسے راستے پر سفر کیا جائے۔جواب صرف ایک ہے۔معقول اورمعتدل ذہنی اورعملی رویہ۔صدیوں کے خوفناک بوجھ کویکسرختم کرناناممکن ہے۔مگرمصیبت یہ ہے کہ ترقی کے سفرکاآغازقومیں اپنے کندھوں سے سابقہ بوجھ اُتارکرشروع کرتی ہیں۔ چین، ویتنام،سائوتھ کوریاہمارے سامنے حال ہی میں صفِ اول کے ملک بنے ہیں۔ہم کیوں ترقی نہیں کرسکتے۔اپنی معاشرے کی روایات کوساتھ لے کر تحقیق، جدت، علم، سائنس کی دنیامیں سفرکرناضروری ہے۔رویوں کوبدلنے کے لیے معاشروں کوصنعتی انقلاب سے روشناس کروانا امرت دھارا ثابت ہواہے۔ویت نام جیسے تباہ حال ملک نے اپنی ترقی کی بنیادمضبوط معیشت پررکھی ہے۔یہی صورتحال چین اوردوسرے ملکوں کی ہے۔
مگریہاں تومعاملہ ہی انتہائی عجیب نوعیت کا ہے۔ قومی لیڈرناجائزدولت کومحفوظ رکھنے کے لیے ہر اَبتر کام کرنے کو تیارہیں۔اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کی سالمیت کے متعلق بھی منفی سوچ کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔کوئی گریٹرپنجاب کی لایعنی باتیں کرتارہاتوکوئی سندھ کے صوبائی تعصب کو ہوا دینے میں مصروف کار۔مگرکوئی بھی جمودکے شکار معاشرے میں فکری تبدیلی کی بات نہیں کرتا۔المیہ آج بھی یہ ہے اورصدیوں پہلے بھی یہی تھا!