ڈھاکا میں پاکستان کی لہو رنگ کہانی

بیگم حسینہ واجد کی 18 جماعتی مخلوط حکومت کی مدت 25 اکتوبر 2013ء کو ختم ہو رہی ہے۔


Aslam Khan July 26, 2013
[email protected]

لاہور: ہم تو ڈھاکا بھلا بیٹھے تھے لیکن42سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ اب حسینہ واجد اپنے ذاتی مفادات کے لیے دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دے رہی ہیں۔ وہ پاکستان کی فراموش کردہ داستان یاد دلا رہی ہیں۔ وہ باب جو ہم کب کا بند کر چکے تھے، مسلم بنگال کے اس درخشاں باب کو کھو ل رہی ہیں۔ ہم ہیں کہ اس کو بنگلہ دیش کا اند رونی معاملہ قرار دے کر نظریں چرا رہے ہیں، چہرہ چھپا رہے ہیں۔

آخر حسینہ واجد کیا چاہتی ہیں، اپنے دور اقتدار کے آخری مرحلے میں کیوں نفرتوں کے الائو بھڑکا رہی ہیں جس کی آگ شعلہ جوالا بن کر بنگلہ دیش کے گلی کوچوں کو تیز ی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ پاکستان کے نام پر بنگلہ دیش میں نصف صدی بعد ایک بار خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ مسلم بنگال کے خاکستر سے دو قومی نظریہ آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا ہے۔ ادھر اور ادھر بدحواس دانشور اور کالم کار منہ کھولے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ حسینہ واجد سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنگلہ دیش کو خاک و خون میں غلطاں کر نے پر تلی ہوئی ہیں۔ آمدہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی متوقع شکست کے یقینی آثار دیکھ کر وہ مارشل لاء لگوانا چاہتی ہیں تا کہ عوام کی عدالت میں جانے کے بجائے فوجی اقتدار کے وقفے کے بعد اپنی بداعمالیوں کے نشان مٹاکر ازسرنو بحالی جمہیوریت کی جدوجہد کر کے نئے نعروںاور وعدوں کے ساتھ انتخابی دنگل میں اترا جائے۔ ڈھاکا میں فوجی بوٹوں کی چاپ صاف سنائی دے رہی ہے اور اس کے لیے 'خوشگوار ماحول' کو ئی اور نہیں، خود حسینہ واجد پیدا کر رہی ہیں۔

بیگم حسینہ واجد کی 18 جماعتی مخلوط حکومت کی مدت 25 اکتوبر 2013ء کو ختم ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین کے آرٹیکل 123 کے تحت 26 اکتوبر2013ء سے 24 جنوری 2014ء کے درمیان 90 دنوں میں عام انتخاب ہونے ہیں۔ حسینہ واجد کو اپنی عوامی مقبولیت کا اندازہ گزشتہ ماہ 15 جو ن 2013ء کو چار بڑے شہروں میں ہو نے والے بلد یا تی انتخابات سے ہوا جس میں عوامی لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد حسینہ واجد نے عالمی جرائم کے نا م نہاد ٹربیونلز کو جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف جاری مقدمات کی رفتار تیز کر کے فوری 'انصاف' فر اہم کرنے کا اشارہ کر دیا جس کے بعد 91 سالہ پروفیسر غلام اعظم کو 90 سال کی قید کی مضحکہ سزا سنائی گئی جس میں وہ وہیل چیر پر موجود اس بزرگ کو ہٹلر سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ان فیصلوں پر ساری دنیا میں تھو تھو ہو رہی ہے۔ صرف ہمارے نا م نہاد ترقی پسند کھسیانی بلی کی طر ح کھمبا نو چ رہے ہیں۔

ان بے چاروں کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ بنگلہ دیش کے بلدیاتی نظام میں میئر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹو ں سے ہوتا ہے۔ 15 جون 2013ء کے بلدیاتی انتخاب میں کھلنا سے منیر الزمان مونی، راجشاہی سے مصدق حسین بلبل، سلہٹ سے عارف الحق چوہدری اور باریسال سے احسن حبیب کمال نے عوامی لیگ کے امیدواروں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بیگم خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدواروں کی شاندار فتح نے حسینہ واجد کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور اب وہ عام انتخابات میں عوام کا سامنا کرنا کے بجائے جمہوریت کی بساط لپیٹ دینا چاہتی ہیں، اپنے والد کی طر ح انسانی جانوں کی اس کی نظر میں کو ئی اہمیت نہیں ہے، وہ بھڑکتی آگ اور مظلو ں کے بہتے ہوئے لہو سے اپنی سیاسی کھیتی کو سینچنا چا ہتی ہیں۔ وہ خون آشام دیوی کالی ماتا کا روپ دھار چکی ہیں۔ بلدیاتی انتخاب میں عبرت ناک شکست کے بعد اپنی تخلیق کردہ کنگروکورٹس کے ذریعے وہ نفرتوں کی آگ بھڑکا رہی ہیں جس کی میر ے پیارے برادر کبیرنصرت جاوید کو نجانے کیو ں سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بزرگ رہنما پروفیسر غلام اعظم اور علی احسن محمد مجاہد کے خلاف سیکڑوں صفحات پر مشتمل فیصلے ڈھاکا سے اس کالم نگار کو موصول ہو چکے ہیں جس کی تفصیلات نظام انصاف اور آئین کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہیں۔ جس سے جنوبی ایشیاء کے ممالک میں نظام انصاف کی رسوائی ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش کے چار بڑے شہروں کے بلدیاتی انتخاب کے نتائج کو حسینہ واجد کی حکومت اور عوامی لیگ کے خلاف عوامی ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان انتخابات نے عوام میں عوامی لیگ کی مقبولیت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے اور اس وقت حسینہ واجد عوامی مقبولیت کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔

شاہ باغ تحریک کے مادر پدر آزاد، روشن خیالوں کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے 25 ہزار دینی مدارس کے طلبہ "حفاظت اسلام" کے نا م سے 13 نکاتی ایجنڈے کا پروگرام لے کر میدان میں نکلے، 5 اور 6 مئی 2013ء کی درمیانی شب ڈھاکا شہر اور موتی جھیل کے پوش ایریا کی بجلی بند کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چاروں طرف سے ان نہتے اور پر امن طلبہ پر ہلہ بول دیا جس میں درجنوں افراد مارے گئے اور سیکڑوں تا حال لا پتہ ہیں۔ بے گناہوں کے بہتے لہو کی ندیوں میں حسینہ واجد کی مقبولیت کا سفینہ ڈوب چکا، اب وہ عوام کا سامنا کرنے کی بجا ئے جرنیلوں کا سہارا ڈھونڈ رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کے گلی کو چوں میں بیک وقت سیاسی اور نظریاتی لڑائی کے ساتھ ساتھ تہذییوں کا تصادم بھی جاری و ساری ہے جس میں دو بیگمات متحارب لشکروں کی قیادت کر رہی ہیں۔ بیگم حسینہ واجد کا لشکر پسپا ہو رہا ہے اور وہ بگڑے بچے کی طرح جمہوری نظام کے گھروندے کو ٹھوکریں مار رہی ہیں اور ہما رے بعض نام نہاد دانشور نجا نے کیو ں اپنے آپ میں شرمندہ ہوئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے نام پر آج بھی ڈھاکا میں لہو بہہ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے گلی کو چے رنگین ہو رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں جاری کشیدگی کو انتہا پر پہنچانے کے لیے حسینہ واجد کی ایماء پر الیکشن کمیشن نے 1971ء میں وفا ق پاکستان کی حفاظت کے لیے لڑ نے والے تمام بنگالیوں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ 10 ویں پارلیمانی انتخابات اکتوبر 2013ء سے جنوری 2014ء کے درمیان کسی بھی وقت متوقع ہیں۔ جس کے لیے انتخابی فہرستوں کی تیاری کا عمل جاری ہے۔ وزارت داخلہ پاکستانی فوج کے بنگالی مددگاروں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کرے گی۔ جس کے بعد ان کے نا م انتخابی فہرستوں سے خارج کر دیے جائیں گے۔ بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر شاہنواز نے دعویٰ کیا کہ ووٹر لسٹ سے اخراج کے لیے قوانین میں ضروری رد و بدل اور ترامیم کر دی گئی ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں عالمی جرائم کے6 نا م نہاد ٹربیونل کا م کر رہے ہیں۔ جن کی آئینی و قانونی حیثیت کے بارے میں ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں خونی انقلاب کی یا بغاوت کی کو شش ناکام بنا کر 16 حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی فوج کے ترجمان بریگیڈیر مسعود رزاق نے اعلان کیا کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش ناکام بنا دی گئی۔ جب کہ 16 ملزمان کے خلاف ڈھاکا کی فوجی عدالت میں مقدمہ کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔

بنگلہ دیش کی فوج میں دینی رجحانات رکھنے والے افسروں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور غیر تحریر شدہ قواعد و ضوابط کے تحت ایسے افسروں کو صرف میجر کے رینک تک ترقی دی جا تی ہے تا کہ فو ج کی اعلی قیا دت کو دینی رجحانات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ بنگلہ دیش کے اپنے ہمسایوں سے کسی قسم کی پیچیدہ تنازعات نہیں ہیں۔ اس لیے فوج کی اہمیت بہت زیادہ نہیں ہو نی چا ہیے۔ لیکن بنگلہ دیش میں 2 دہائیوں تک فوجی جنتا نے راج کیا ہے۔ اب حسینہ واجد اپنے اقتدار کی مدت ختم ہونے سے چند ماہ پہلے ازخود سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوج کی آمد کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں