بجلی کا وقفہ یا وقفے کی بجلی
اس مصنوعی قلت کی ذمے دار بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں (خودمختار اور کرایے کے پلانٹ) ہیں۔
LONDON:
بجلی کا وقفہ تو ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں عوام کو وقفے کی بجلی ملتی ہے۔ شہروں میں اگر 14 گھنٹے سے زائد بجلی نہ ہوتو اسے بجلی کا وقفہ کہنے کے بجائے وقفے کی بجلی کہا جائے گا۔ اس لیے کہ 24 گھنٹے میں 14 گھنٹے اگر بجلی ہی نہ ملے تو بیشتر اوقات شہری بجلی سے محروم ہوتے ہیں، یعنی کم اوقات میں اگر بجلی ملتی ہے تو اسے وقفے کی بجلی ہی کہا جائے گا۔ دیہاتوں میں تو صورت حال انتہائی دگرگوں ہے جہاں بجلی اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے 24 گھنٹوں میں 2/4 گھنٹے ہی اپنی صورت دکھانے آتی ہے۔ ہر ایک انسان اس سے متاثر ہے۔ وقفے کی بجلی کی وجہ سے استعمال کے پانی کی قلت بھی جنم لے رہی ہے، جس سے عوام کی حالت ابتر ہوچکی ہے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوارکی صلاحیت 23500 میگاواٹ ہے لیکن بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 14000 میگاواٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس مصنوعی قلت کی ذمے دار بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں (خودمختار اور کرایے کے پلانٹ) ہیں۔ کل پیداواری صلاحیت میں نجی شعبے کا حصہ تقریباً 7000 میگاواٹ ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے ریاستی اداروں کی پیداوار 4000 سے 7000 میگاواٹ تک کا شارٹ فال ہے۔ ایک لمبے عرصے سے ان پاور پلانٹس کی دیکھ بھال اور مرمت کے کام کو تسلی بخش انداز میں نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے یہ پاور پلانٹس اپنی پیداواری صلاحیت کا تقریباً ایک تہائی حصہ کھوچکے ہیں۔ سب حکمران یہ دعوے تو کرتے ہیں مگر اس عذاب سے چھٹکارے کا نسخہ کوئی نہیں رکھتا۔ نئے ڈیم بنانے کی شیخیاں بگھار کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے دانشور بھی اس مسئلے کا یہی حل بتاتے ہیں مگر کوئی بھی مسئلے کی حقیقی وجوہات پر بات نہیں کرتا۔ بجلی کے بحران کی اصل وجہ کسی طور بھی پیداواری صلاحیت میں کمی نہیں ہے۔ کچھ لوگ گزشتہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
سب الزام کرپشن کے سر تھوپ دیتے ہیں اور سرکلر ڈیٹ کے اندھے کنوئیں کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر سرکلر ڈیٹ کے خاتمے سے کیا یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے مسائل کے حل کی صلاحیت ہی کھوچکا ہے۔ تمام تر پالیسیاں عوام کی سہولت کے بجائے منافع کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ وقفے کی بجلی کی بنیادی وجہ بھی منافع کی ہی ہوس ہے۔ اگر 1980 کی دہائی تک پبلک سیکٹر میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کو دیکھا جائے تو یہ دو ہی اداروں یعنی واپڈا اور کے ای ایس سی پر منحصر تھا اور اس کی کارکردگی آج کی نسبت کہیں زیادہ قابل اعتماد اور تسلی بخش تھی۔ مگر 90 کی دہائی میں آئی پی پی ایس کے آنے کے بعد مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی پی پی اس تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور یہ بجلی پیدا کرنے کا مہنگا طریقہ ہے۔ اس کے بہ نسبت بجلی کی پیداوار کے سستے طریقے موجود ہیں، مگر چونکہ یہ منافع بخش نہیں ہیں اور ان پر زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ پرائیویٹ ادارے ان طریقوں کو استعمال نہیں کرتے۔
پانی، ہوا، شمسی توانائی اور سمندر کی لہروں سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں کوئلے سے 40 فیصد، گیس سے 19 فیصد، ایٹمی توانائی اور پانی سے 16، 16 فیصد اور تیل سے صرف 7 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے مگر پاکستان میں گیس سے 41 فیصد، تیل سے 19 فیصد اور پانی سے 37 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ جب کہ کوئلے اور ایٹمی توانائی سے بجلی کی پیداوار محض بالترتیب 0.16 اور 2.84 فیصد ہے۔ کوئلے سے بجلی کی پیداوار کرنے سے فضائی آلودگی بڑھتی ہے، ایٹمی توانائی خطرے سے بھرپور ہے، اس لیے بجلی پیدا کرنے کا بہترین طریقہ پانی، شمسی توانائی، سمندری لہریں اور ہوا ہے۔ پاکستان میں نجی کمپنیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ چاہیں تو بجلی پیدا کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ ان نجی کمپنیوں کے پورے ملک میں 23 پاور پلانٹس ہیں اور ان میں سے بیشتر قرضوں کے ذریعے لگائے گئے ہیں۔
یہ قرضے ان نجی کمپنیوں نے نہیں بلکہ پاکستانی ریاست نے ادا کرنے ہیں۔ مثال کے طور پر 1994 میں ایک نجی ادارہ جس کی پیداواری صلاحیت 1292 میگاواٹ ہے اور سب سے بڑا نجی پاور پلانٹ ہے کی تعمیر کے لیے 1.6 ارب ڈالر کی رقم ورلڈبینک سے ریاست نے قرضے کی صورت میں حاصل کی اور تمام تر رسک فیکٹرز کی ذمے داری بھی ریاست پر تھی۔ یہ توانائی کے شعبے کی تباہی کا آغاز تھا۔ اس کے بعد لگنے والے زیادہ تر نجی پاور پلانٹس میں بھی سرمایہ کاری کا یہی طریقہ استعمال کیا گیا۔ سرمایہ کاری ریاست نے کی، قرض پاکستانی عوام نے چکائے جب کہ منافع نجی کمپنیوں نے کمایا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا، شخصیات اور کمپنیوں کو بڑی فیاضی سے نوازا گیا جس سے بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے طریقوں پر انحصار بڑھتا گیا۔ بجلی کی پیداوار کے لیے تیل پر جتنا انحصار بڑھتا ہے بجلی کی قیمت میں بھی اس قدر اضافہ ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں کے عالمی مارکیٹ میں مسلسل چڑھاؤ کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 1994 سے اب تک تیل کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، صورت حال کو مزید خراب کرتی جارہی ہے۔ 2005 سے 2011 تک تیل کی قیمت 236 ڈالر فی ٹن سے تجاوز کرکے 639 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کمی کی وجہ سے تیل کی درآمد کی لاگت 21087 روپے فی ٹن سے بڑھ کر 70930 روپے فی ٹن تک پہنچ گئی۔ اس طرح صرف 6 سال میں تیل سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں 236 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2011-12 میں تیل سے پیدا کی جانے والی کی ترسیل کی کمپنیوں کو 15.94 روپے فی کلو واٹ پاور کی قیمت پر ادا کی گئی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں گیس سے پیدا ہونے والی بجلی 4.24 روپے، نیوکلیئر پاور 1.13 روپے اور پانی سے پیدا ہونے والی بجلی صرف 0.16 روپے فی کلو واٹ پاور کی قیمت پر فراہم ہوئی۔ جب کہ صارفین کے لیے اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت اوسطاً 8.89 روپے ہے۔ پیداواری لاگت اور قیمت میں یہ فرق ہی سرکلر ڈیٹ کی بنیادی وجہ ہے۔ سرکلر ڈیٹ نے بڑے مسئلے کے طور پر 2005 میں سر اٹھانا شروع کیا۔ جب یہ 84 ارب روپے تک پہنچا۔
اس کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ تھی۔ اس کے بعد سرکلر ڈیٹ میں لگاتار اضافہ ہوتا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 سے 2011 تک بجلی کی قیمتوں میں 34 سے 74 فیصد (بجلی کے استعمال کی شرح کے مطابق) تک اضافہ کیا۔ لیکن اس اضافے کے باوجود بجلی کی لاگت اور قیمت کے مابین فرق ختم نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں سرکلر ڈیٹ اس وقت 872 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس سرکلر ڈیٹ کا صرف 22 فیصد صارفین کے ذمے ہے۔ سرکلر ڈیٹ میں 2006 کے بعد 788 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد بنتا ہے۔ نیپرا کے مطابق اگر یہ کیفیت برقرار رہی تو سرکلر ڈیٹ میں سالانہ 550 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ پہلے اضافے کی یہ شرح 1350 ارب روپے سالانہ تھی یعنی سرکلر ڈیٹ کو صرف موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے عوام کو سالانہ 550 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر بجلی کا بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی بجلی کے بحران کی وجہ سے قومی پیداوار سکڑ رہی ہے۔
گہرا ہوتا ہوا توانائی بحران، بدترین معاشی بحران کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا اور حکومت مزید بیرونی قرضوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوگی۔ بیرونی قرضے شاید وقتی طور پر تو بحران کو کچھ کم کردیں مگر طویل المدت میں ان سے معاشی تباہی مزید بڑھے گی۔ اس صورت حال میں حکمرانوں کے دعوے کتنے کھوکھلے، بے بنیاد اور حقیقت سے عاری لگتے ہیں۔ نئے ڈیم بنانے کی صلاحیت یہ ریاست بہت پہلے کھوچکی ہے۔ بڑے ڈیم بنانے کے لیے درکار سرمایہ اس ریاست کے پاس موجود نہیں ہے۔ جو چھوٹے پراجیکٹس زیر تعمیر ہیں ان کے معیار اور تکمیل پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ اس وقت تک جن ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے ان میں سے سب سے زیادہ پیداوار اور کم لاگت کا منصوبہ نجی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 7100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسطوں پر چلنے والی ریاست ایسے منصوبے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ایسے میں وقفے کی بجلی کا بحران کا فوری حل نجی شعبے میں کام کرنے والے تمام تر پلانٹس کو قومی ملکیت میں لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔