پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمینی پر حکومت کی دہری حکمت عملی

کیا شہباز شریف کو خود ہی استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں ہر گز نہیں۔ تاریخ رقم ہو رہی ہے۔


مزمل سہروردی February 12, 2019
[email protected]

علیم خان کی گرفتاری کے بعد حکومت نے توجہ ہٹائو مہم کے تحت میاں شہباز شریف سے پبلک اکائونٹس کمیٹی سے مستعفیٰ ہونے کا مطا لبہ شروع کر دیا ہے۔ شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا ڈھول بھی بجایا جا رہاہے۔

اگر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران کی فہرست کو غور سے دیکھا جائے تو پبلک اکائونٹس کمیٹی میں کل ممبران کی تعداد تیس ہے۔ اس میں سولہ ارکان کا تعلق حکومتی اتحاد سے ہے۔جب کہ متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد چودہ ہے۔ سادہ بات ہے حکومت کی اکثریت ہے۔

شہباز شریف حکومتی ارکان کی مدد سے ہی کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اگر حکومت نہ چاہتی تو وہ چیئرمین منتخب نہیں بن سکتے تھے۔ اب بھی کسی بھی لمحہ شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے کیونکہ حکومت کے پاس اکثریت ہے۔ لیکن اکثریت صرف پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ہی نہیں ہے، تمام کمیٹیوں میں حکومت کی ہی اکثریت ہوتی ہے پھر بھی آدھی کمیٹیوں کی سربراہی اپوزیشن کو دی جاتی ہے۔ یہی پارلیمانی روایات ہیں۔

شہباز شریف کوجب پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا تب بھی وہ نیب زدہ اور گرفتار ہو چکے تھے۔ اس لیے ایسا کچھ نیا نہیں ہوا جو ا نہیں ہٹانے کی وجہ بن جائے۔ جو صورتحال بنانے کے وقت موجود تھی، وہی صورتحال اب بھی موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ علیم خان گرفتار ہو گئے اور حکومت اپنے وزیر کی گرفتاری سے توجہ ہٹانے کے لیے شہباز شریف پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر عددی اکثریت موجود ہے تو حکومت بیان بازی کرنے کے بجائے تحریک عدم اعتماد پیش کیوں نہیں کر رہی۔ ایسی کیا بے بسی ہے جس نے حکومت کو روکے رکھا ہے۔ اس بحث کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ حکومت مارو کم گھسیٹو زیادہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، شایدہٹانا مقصود ہی نہیں ہے۔ صرف تذلیل کرنا مقصود ہے۔ یہ تحریک انصاف کی کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔ یہ ان کا لینڈ مارک ہے۔ مخالفین کی تذلیل ہی تحریک انصاف کی اولین ترجیح رہی ہے۔

علیم خان کی گرفتاری کے بعد بھی توجہ ہٹائو مہم کے تحت گالم گلوچ کمپنی کو متحرک کیا گیا ہے۔ اس کی ناقص کارکردگی کے باعث وزیر اعظم کو ان کی مدد کو آنا پڑا ہے۔ ورنہ پہلے یہ کام گالی گلوچ کمپنی اکیلے ہی اچھا کر لیتی تھی۔ دوسرا پہلو یہ ہے حکومت کے اتحادی اس سے ناراض ہیں۔ اتحادیوں کی ناراضی کی وجہ سے ہی منی بجٹ منظور کرائے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔ آج کل اتحادیوں کو منانے کا عمل جاری ہے۔

ق لیگ کو مزید وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کو مزید وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ وزارتوں کی اس بندر بانٹ کے بعد بجٹ منظور کرایا جائے گا۔ لیکن پبلک اکائونٹس کمیٹی میں شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا معاملہ اس سے بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں اختر مینگل بیٹھے ہیں۔ اختر مینگل کے ساتھ معاملات ابھی طے نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ماضی قریب میں متحدہ اپوزیشن کے اجلاسوں میں شرکت اور اپوزیشن کے ساتھ پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔

اپوزیشن کے تحفظات پر مبنی چیئرمین نیب کو لکھے گئے خط پران کے بھی دستخط تھے۔ وہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری نہیں کر رہی ہے۔ ان کی ناراضی ابھی تک قائم ہے۔ اس لیے اگر وہ حکومتی عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنتے تو حکومت اور اپوزیشن کے ووٹ برابر ہو جائیں گے۔

ادھر تحریک انصاف کے اندر بھی شہباز شریف کو ہٹانے کے حوالے سے واضح تقسیم نظر آرہی ہے۔ا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت سنجیدہ رہنما ایسے کسی ایڈونچر کے خلاف ہیں۔ان میں پرویز خٹک شاہ محمود قریشی جیسے لوگ شامل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت محاذ آرائی کی سیاست سے باہر آجائے۔ انھیں علم ہے کہ اپوزیشن کے بغیر حکومت تو چل سکتی ہے لیکن پارلیمنٹ نہیں چل سکتی۔ آج بھی یہ سنجیدہ گروپ اس عدم اعتماد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہی گروپ شیخ رشید کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا ممبر بنانے کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ پارلیمانی روایات بھی شیخ رشید کے ممبر کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

ماضی میں ریاض پیرزادہ اور حامد ہراج پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران تھے۔ لیکن وزیر بنتے ہی انھوں نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس لیے شیخ رشید کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر انھوں نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا ممبر بننا ہے تو وزارت سے استعفیٰ دے دہیں۔ لیکن شیخ رشید وزارت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں قانون اور قواعد میں رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمانی روایات کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر روایات قانون سے بالاتر سمجھی جاتی ہیںلیکن شیخ رشید اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کوئی ن لیگ کی طاقت سے نہیں بنے تھے۔ یہ متحدہ اپوزیشن کا فیصلہ تھا کہ اگر قائد حزب اختلاف کو نہیں بنایا جائے گا تو اپوزیشن کسی بھی پارلیمانی کمیٹی میں شامل نہیں ہو گی۔ایسے میں پارلیمنٹ جام ہو گئی۔ لہذا حکومت کو اپوزیشن کے سامنے سرنڈر کرناپڑ گیا۔ اب بھی اگر شہباز شریف کو ہٹایا گیا تو اپوزیشن کے پاس وہی ہتھیار موجود ہے۔ وہ پھر بائیکاٹ کر دے گی۔ پھر پارلیمنٹ جام کر دے گی۔ لیکن تحریک انصاف کی گالم گلوچ کمپنی کی دلیل ہے کہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کی پرواہ نہ کی جائے اور حکومت صرف اپنے ارکان سے ہی کمیٹیاںچلا لے۔ اپوزیشن کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ شائد سننے میں یہ سب عمران خان کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن کتنا قابل عمل ہے اس کا ان کو اندازہ نہیں ہے۔

کیا شہباز شریف کو خود ہی استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں ہر گز نہیں۔ تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت اپوزیشن لیڈر کے خلاف بھی عدم اعتماد لا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو لینے دینا چاہیے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کل کو تحریک انصاف کو اس کا جواب دینا ہے۔ ویسے بھی حکومت اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ بات کارکردگی پر رہنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں