پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مغرب میں اسلام کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے بہت سے یورپین اسلام کے پھیلاؤ کے خوف میں مبتلا ہیں۔
شب تاریک سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن نور سحر ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ خورشید کے طلوع ہوتے ہی دور دور تک تاریکی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ اسلام ایک نور ہے، جس کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسلام دشمن لابیاں اپنے زہریلے اور اعصاب شکن پراپیگنڈے سے مسلمانوں میں مایوسی پھیلاتی رہتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اسلام پوری آن بان کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی روشنی پھیلا رہا ہے۔
یورپ میں اسلام دشمنوں کی جانب سے جس شدت سے اسلام کی مخالفت کی گئی اور اسلام کے خلاف بھیانک پروپیگنڈہ کیا گیا، اسی تیز رفتاری کے ساتھ اسلام یورپ میں پھیل رہا ہے۔ اسلام کی عظمتوں کے ترانے یورپ میں لاکھوں انسانوں کو مسحور کر رہے ہیں اور ہزاروں سلیم الفطرت انسان اسلام کے حلقہ عافیت میں پناہ لے کر ہمیشہ کی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔
یورپ میں اسلام کو دہشتگردی اور بنیاد پرستی کا مذہب قرار دے کر اس کے بڑھتے ہوئے اثرکو روکنے کی بھرپورکوششیں کی گئیں، لیکن اسلام کی کرنوں کو نہ توکوئی آج تک روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا۔ اسلام کا اجالا ان کے ظلمات مآب ایوانوں پر دستک دے رہا ہے۔ کعبے کو صنم خانے سے ہی پاسباں مل رہے ہیں۔
گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کرنے والے گستاخ رسول گیرٹ وائلڈ رزکے قریبی ساتھی اور نیدر لینڈ کی سب سے بڑی انتہا پسند مسلمان مخالف جماعت کے سابق رکن جورم وین کلیورن نے اسلام قبول کرکے اس فہرست میں ایک اورکا اضافہ کیا ہے۔ جورم وین،گیرٹ ولڈرزکی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔اس جماعت کی سیاست کا واحد مقصد اسلام دشمنی اور یورپ کو اہل اسلام سے پاک کرنا ہے۔
جورم مذکورہ انتہا پسند جماعت کے نہ صرف سینئر رہنما تھے، بلکہ نائب چیئرمین بھی تھے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل انھوں نے اس پارٹی کو چھوڑ دیا تھا اور آزاد اسمبلی ممبر بن گئے۔جورم، گریٹ ولڈرزکی پارٹی کا حصہ تھے اور ان کا شمار بھی اسلام مخالف سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ اسمبلی میں بھی اسلام کے خلاف پیش پیش رہے۔ جورم وین نے سات سال تک اسمبلی میں اسلام مخالف بل پیش کیے اور برقعہ، مساجد کے میناروں پر پابندی سمیت دیگر اسلامی روایات پر پابندی عائدکرنے کی مہم چلائی۔
انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ''اپنے ملک میں ہم اسلام بالکل نہیں چاہتے'' جورم کا کہنا تھا کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف اپنی نئی کتاب کے لیے ریسرچ کر رہے تھے۔ اس دوران جب انھوں نے سیرتِ مبارکہ کے چند پہلوئوں کا ''تنقیدی'' جائزہ لیا تو محسن انسانیت کی زندگی نے ان کی فکر کو تبدیل کر دیا، اگرچہ انھوں نے دل سے گزشتہ برس ہی اسلام قبول کیا تھا، تاہم اس کا باقاعدہ اعلان ریڈیو پر کیا۔
اس سے قبل گیرٹ ولڈرزکے ایک اور قریبی ساتھی اور ڈچ سیاستدان آرنود وین دورن نے بھی اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے جورم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ گیرٹ کی اسلام مخالف پارٹی ہالینڈ میں اسلام کی اکیڈمی اور دعوت کا مرکز بن جائے گی۔ برطانیہ کے شہرہ آفاق ادیب جارج برنارڈشا نے برسوں پہلے کہا تھا کہ مغربی دنیا اسلام کی طرف آ رہی ہے اور مستقبل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین یورپ میں مقبول ہوکر رہے گا۔
درحقیقت یہ دین آج بھی یورپ میں پسندیدہ ہے۔ دراصل قرونِ وسطیٰ میں عیسائی طبقے نے اپنی ناواقفیت یا پھرگھناؤنے تعصب کی بنا پر اسلام کی تصویرکو زیادہ سے زیادہ بھیانک بنا کر پیش کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ فرض ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیا جائے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے اور قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ غیر مسلموں کا اسلام میں تجسس بڑھ رہا ہے۔
یہی تجسس اْنہیں قرآن مجید کے مطالعے کی طرف لے جا رہا ہے جس سے اْنہیں نہ صرف قلبی سکون حاصل ہو رہا ہے، بلکہ اسلام کو قریب سے سمجھنے اور جاننے کا موقع بھی مل رہا ہے، اْن کے ذہنوں سے اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کی پھیلائی گئی غلط فہمیاں بھی دور ہو رہی ہیں۔
یورپ کے لوگ اسلام کو انتہائی طاقتور، دل کش اور اثر انگیز محسوس کرتے ہیں۔ اسلام کی پر اثر تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے اہل مغرب یکجا ہوکر ایک عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے بیٹھے ہیں، لیکن ہر بار اسلام کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا فائدہ مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے۔ اہل مغرب اسلام کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اسلام موضوع بحث بنتا ہے اور لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہوکر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
مغرب میں اسلام کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے بہت سے یورپین اسلام کے پھیلاؤ کے خوف میں مبتلا ہیں اور آئے روز مختلف طریقوں سے اپنے اسی خوف اور ڈر کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین بنانے سمیت ہر وہ اقدامات کر رہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیشرفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکے۔
یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کو دیکھتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرکی نو مسلم خواہر نسبتی اور ممتاز صحافی بوتھ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ برطانوی مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، انھیں چاہیے کہ مسلمانوں سے خوش رہیں۔ اگر مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو یہ ملک کے لیے اچھی بات ہے، مسلمان پرامن لوگ ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ اسلام امن و آشتی اور انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے، اسی عالمگیر سچائی کی جانچ پڑتال کے بعد یورپ میں اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والوں کی اکثریت مشہور و معروف اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔