سانس کی مشقیں اور ضروری ہدایات

گزشتہ کالموں میں ہم نے نفسیات ومابعد نفسیات کے حوالے سے مفصل گفتگو کی، سانس کی مشقوں اور خارق العادات۔۔۔


Shayan Tamseel July 27, 2013
[email protected]

گزشتہ کالموں میں ہم نے نفسیات ومابعد نفسیات کے حوالے سے مفصل گفتگو کی، سانس کی مشقوں اور خارق العادات صلاحیتوں کا بھی تذکرہ کیا۔ قارئین کی طرف سے پذیرائی کے ساتھ مشقوں کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی اٹھائے گئے، اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام ہدایات کو شامل کالم کرلیا جائے تاکہ ابہام دور ہوسکیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے کہا تھا کہ انسان میں ماورائی بصیرت موجود ہے اور انسان کے ذہنی اور دماغی ارتقا کا رخ سپر نارمل کی طرف ہے۔ اس پر کافی اعتراضات اور سوال سامنے آئے کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں خارق العادات صلاحیتوں کے حامل افراد باآسانی دستیاب کیوں نہیں ہوتے؟ آپ اس بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ قوانین حیات نے خود خارق العادات کے غیر ضروری اظہار پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ انسان نارمل طور پر ترقی کرسکے، دوسرے انسانی ذہن بھی ان جکڑ بندیوں کے خلاف ہمیشہ بغاوت کرنے پر تلا رہتا ہے جو خارق العادات صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کردار سازی و تنظیم شخصیت کی مشقیں ان پر عائد کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خارق العادت صلاحیتوں کے حامل افراد دنیا میں خال خال ہی ملتے ہیں اور جو چند ایک ان صلاحیتوں پر مکمل دسترس رکھتے ہیں وہ خود کو دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار نہیں کرتے۔ عام لوگ بھی خود میں موجود صلاحیتوں کی پرورش و پرداخت کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے مخصوص عوامل و حالات سے گزرنا اور مشقوں کی پابندی کرنا ازحد ضروری ہے۔ سانس کی مشقوں اور ان کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے۔ سانس کی مشقیں (جس کے بہت سے طریقے ہیں) کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کا بنیادی جزو ہیں۔ سانس کی مشق کے بغیر ذہنی صحت مندی، دماغی چستی اور روحی ترقی کی صلاحیتیں ابھر آئیں یہ ممکن نہیں۔ یہ مشقیں کسی نگراں یا استاد کی ہدایات کے تحت ہی کی جانی چاہئیں۔ ان مشقوں کے طلبا و طالبات میں مشق تنفس نور اور متبادل طرز تنفس بے حد مقبول ہیں، اس سلسلے میں چند شرائط کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ ہم وہ تمام ہدایات اس کالم میں شامل کررہے ہیں جو مختلف لوگوں نے بذریعہ ای میل اور فون کال ہم سے مشق کا طریقہ جاننے کے بعد معلوم کیں۔

سانس کی مشق کا بہترین اور مناسب ترین وقت طلوع آفتاب سے قبل ہے۔ یہ مشقیں دریا کے کنارے کی جائیں، تو سونے پر سہاگہ۔ مشق کے وقت معدہ بالکل خالی ہو، یہ مشقیں حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر کرنی چاہئیں، تاکہ ذہنی یکسوئی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ بہتر ہے کہ کھانے کے چھ یا سات گھنٹے بعد سانس کی مشق کی جائے۔ مشق تنفس نور کے آدھے گھنٹے بعد دودھ کا ایک گلاس پی لیا جائے تو مزید فرحت بخش ثابت ہوگا۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ سانس کی مشق دن رات میں چار بار کی جائے یعنی قبل طلوع آفتاب، دوپہر، شام، رات سونے سے قبل۔ ایک وقت کی مشق کا دورانیہ کم سے کم پندرہ منٹ ہونا چاہیے۔ اعلیٰ درجے کے تربیت یافتہ یوگی بیک وقت 80 چکر سانس کے کرتے ہیں، لیکن عام آدمی کو بقدر برداشت سانس کی مشق کرنی چاہیے۔ مشقوں کا بہترین زمانہ دسمبر، جنوری، فروری اور مارچ کے مہینے ہیں۔ مشقیں صاف ہوادار مقام پر کرنی چاہئیں۔ مشقوں سے حقیقی فائدے حاصل کرنے کے لیے وقت کی پابندی، جگہ کی پابندی اور طرز نشست کی پابندی ضروری ہے، بصورت دیگر مشقوں سے فوائد کم اور دیر طلب ہوجاتے ہیں۔

مشق کرتے وقت دوزانو بیٹھیں یا کوئی اور آرام دہ نشست اختیار کریں۔ کمر، گردن اور سینہ ایک سیدھ میں ہو، نہ کمر جھکی ہوئی ہو نہ سینہ باہر کی طرف نکلا ہوا ہو، مگر دیکھ لیں کہ کسی حصہ جسم میں کھنچائو اور تنائو نہ ہو ورنہ ارتکاز توجہ قائم کرنے میں دشواری ہوگی۔ سانس کے اخراج و ادخال (سانس کھینچنے اور نکالنے) کا عمل ہمیشہ ناک کے سوراخوں سے کرنا چاہیے، البتہ اگر زکام کے سبب ناک بند ہو تو ہونٹوں سے سانس اندر کھینچیں اور باہر نکالیں۔ سانس اندر کھینچتے اور نکالتے وقت ہونٹوں کی وہ شکل بنائیں جو بوسہ لیتے وقت ہوتی ہے۔ سانس کھینچتے، سینے میں روکتے اور نکالتے وقت چہرے پر دبائو، گھٹن اور تنائو کے آثار نہ ہوں اور نہ شکل بگڑے، کوشش یہ ہو کہ ہر حصہ بدن سکون محسوس کرے۔ مشق تنفس نور (یا سانس کی دوسری مشقوں) میں آنکھیں اور ہونٹ بند ہونے چاہئیں، آنکھیں کھلی ہوں تو یقیناً توجہ بھٹکتی رہے گی۔ ذہن کی پوری توجہ سے سانس اندر کھینچئے۔

سانس کو اندر سینے میں روکنے اور سانس کو (ناک کے سوراخوں کے ذریعہ) باہر نکالنے پر توجہ مبذول اور مرکوز رہنی چاہیے۔ مشق تنفس نور میں ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچتے وقت تصور یہ ہوتا ہے کہ نور کا شعلہ سانس کے ساتھ جسم کی اندر داخل ہو رہا ہے۔ سینے میں سانس روکنے کے ساتھ ساتھ یہ تصور کریں کہ سینے میں روشنی پھیلی ہوئی ہے اور سانس نکالتے وقت یہ تصور کریں کہ ہوا کے ساتھ شعلہ نور باہر نکل رہا ہے۔ نور کے کسی خاص تصور مثلاً سورج کی روشنی، چاند کی روشنی یا شمع کی روشنی پر ذہن کو مجبور نہ کریں بلکہ ذہن کو تصور نور کے ساتھ آزاد چھوڑ دیں، ذہن اپنی مناسبت کے لحاظ سے خود کوئی تصور نور قائم کرلے گا۔

مشق تنفس نور کے بعض طلبا نور کے تصور اور روشنی کے رنگ میں اس قدر الجھ جاتے ہیں (روشنی کا رنگ سفید ہو یا سرخ) کہ مشق کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ فوری طور پر نور کا تصور قائم نہ ہوگا، آپ رفتہ رفتہ تصور نور پر قادر ہوں گے، پھر عجیب و غریب نورانی کیفیات کا احساس ہوگا۔

سانس کی مشقیں ہوں یا تعمیر و تنظیم شخصیت کی دوسری مشقیں ان کے سبب ذہن (نفس) کی مختلف تہوں میں ہلچل سی مچ جاتی ہے، خیالوں اور خوابوں، واہموں اور جذبوں کی شکل میں جو کچھ اندر بھرا ہوتا ہے وہ سب اچھل کر باہر آجاتا ہے۔ صوفیوں کو اپنے روحانی تجربات میں بار بار دو نفسی کیفتیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ فیضان کے دروازے بند ہوگئے اور ان کی تمام روحانی صلاحیتیں سلب ہوگئیں اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ ساری کائنات خود ان ہی کے اندر سمٹ آئی ہے اور وہ عالموں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پہلی کیفیت کو تصوف کی اصطلاح میں قبض یعنی ذہن کا بند ہونا اور دوسری حالت کو بسط (کشاد) یعنی ذہن کا کھل جانا کہتے ہیں۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کا طالب علم بھی ان ہی کیفیتوں سے گزرتا رہتا ہے۔ اسی لیے اگر ابتدائی کامیابیوں کے بعد اچانک آپ خودکو اندھیرے میں محسوس کریں تو پریشان نہ ہوں، یہ کیفیت بھی وقتی ہوگی اور مستقل مزاجی سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں