حکمرانی اور تھانیداری
ایک سینئر بیورو کریٹ جو عموماً دن کا بیشتر حصہ میٹنگوں میں گزارتے ہیں، فائلوں کا ڈھیر شام کے بعد گھر لے جاتے ہیں ۔۔۔
ایک سینئر بیورو کریٹ جو عموماً دن کا بیشتر حصہ میٹنگوں میں گزارتے ہیں، فائلوں کا ڈھیر شام کے بعد گھر لے جاتے ہیں اور آئندہ صبح وہ تمام فائلیں دفتر پہنچانے کے لیے دوسری گاڑی میں لدی جا رہی ہوتی ہیں کیونکہ صبح سویرے انھیں ایک میٹنگ میں پہنچنے کا بلاوا آ چکا ہوتا ہے۔ میٹنگ روم میں جانے سے پہلے انھیں اکثر ویٹنگ روم میں انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک میٹنگ باس کے کمرے میں پہلے سے چل رہی ہوتی ہے۔ ان کی طرح بعض دیگر محکموں کے انچارج بھی وہاں جمع ہوتے ہیں کیونکہ ان سے متعلق کچھ اہم معاملات ڈسکس کرنے کے لیے انھیں بھی کال کیا گیا ہوتا ہے۔
ان میٹنگوں میں عموماً تبادلہ خیال نہیں ہوتا' صرف ہدایات جاری ہوتی ہیں یا گزشتہ ہدایت یا حکم کی پراگریس طلب کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ میٹنگ پر آئے ہر افسر اعلیٰ کا اپنا دفتر بھی ہوتا ہے جہاں ماتحت عملہ آئے ہوئے سائیلان کرام کے جم غفیر کو بعد دوپہر بتاتا ہے کہ افسر اعلیٰ میٹنگ کے بعد باس کے ہمراہ ایک ایمرجنسی موقع ملاحظہ کرنے چلے گئے ہیں اور اب کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب دفتر آئینگے اور آئیں گے بھی یا نہیں۔ اگر آپ کو مذکورہ افسر اعلیٰ سے کام پڑ ہی گیا ہے تو اٹھیں ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی کوشش کر دیکھیں۔ دو تین دن گزرنے کے بعد آپ خود پر لعن طعن کرتے پائے جائینگے۔
پاکستان میں سرکاری دفاتر میں اپنے کام سے جانے والے سائلوں میں سے ہر کوئی تاخیر اور کرپشن کا شکار ہونے کی شکایت کرتا ہے۔ وہ سائل جس نے اپنا ناجائز کام بذریعہ رشوت دہی کروانا ہے اسے چھوڑ کر عام بلکہ بااختیار سائل بھی دفتری بدانتظامی اور بے اصولی سے نالاں ہیں۔ یہ بدانتظامی اور صاف ستھرے سسٹم کی عدم موجودگی ہر سائل کے لیے عذاب جاں ہے۔ چند روز قبل ایک با اثر سائل نے اپنے کام میں تاخیر اور اس کے علاوہ بے مقصد و بے جا خواری کا احوال سنایا۔ ضلع کا اعلیٰ افسر مجاز ان کا ماتحت رہ چکا تھا جس نے انھیں صبح 9 بجے دفتر میں ملاقات کا وقت دیا۔ موصوف 9 بجے دفتر پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ افسر مجاز کو اچانک کسی میٹنگ میں بلا لیا گیا ہے۔
انھوں نے تین گھنٹے انتظار کیا تو افسر مجاز نے آتے ہی اپنے ماتحت افسروں کو کمیٹی روم میں بلا کر اپنی میٹنگ کال کر لی۔ یہ میٹنگ دو گھنٹے جاری رہی اور اس میٹنگ کے ختم ہوتے ہی موصوف دفتر سے غائب ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک موقع ملاحظہ کرنے جا چکے ہیں۔ اس تمام وقت کے دوران بے شمار سائل آئے اور گئے لیکن ہمارا با اثر سائل برے کے گھر پہنچنے کے لیے دفتری اوقات ختم ہونے تک وہاں موجود رہا۔ کچھ ڈھیٹ قسم کے یا مجبور سائل انتظار گاہ میں ڈٹے رہے۔ ان کی تعداد پینتالیس تھی لیکن جو سائل آتے اور جاتے رہے تھے کہیں زیادہ تعداد میں تھے۔ جس با اثر شخص نے وہاں پورا دن گزارا اور مجھے تفصیل بتائی، اس کا خیال تھا کہ وہاں کا افسر مجاز بیک وقت خود بھی مظلوم تھا لیکن جس سسٹم میں کام کر رہا تھا ایسے سسٹم ڈیلیور نہیں کیا کرتے' عوام کے مصائب میں اضافہ کرنے ہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
چند ماہ قبل اپنے اقتدار کے پانچ سال مکمل کرنے والی حکومت اپنی بدانتظامی' لاقانونیت کو نہ صرف فروغ دینے بلکہ اس میں حصہ دار بننے' رشوت و اقربا پروری کو سکہ رائج الوقت کا درجہ دینے' اداروں کو تباہ کرنے اور ملک کو بدنامی کے گڑھے میں گرا کر قرضوں میں جکڑنے' انڈسٹری برباد کرنے' بیروزگاری و گرانی کی پرورش کرنے کے علاوہ پیپلز پارٹی جیسی عوامی پارٹی کی چیر پھاڑ کر دینے کا باعث بنی۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ فوجداری جرائم میں ملوث افراد کی تلاش ہوتی ہے تو تفتیشی افسر کیوں Beneficiaries پر گہری نظر رکھتا ہے۔ سیاست میں وراثت کا دخول زہر قاتل ہے لیکن اب پاکستان میں اس کی موجودگی کی وجہ سے خرابی کا امکان آرمی کی دخل اندازی سے بھی زیادہ باعث نقصان ہو سکتا ہے۔ وراثتی سیاست کے مخالفین کو اس روایت کی بیخ کنی پر توجہ دینا ہو گی تا کہ سیاست تجارت نہ بن جائے۔ تاجر سیاست دان ہو تو ہندی کا محاورہ ضرور یاد آتا ہے ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری''۔ خدا کرے یہ محاورہ باطل قرار پائے۔
گزشتہ ادوار میں سول و فوجی بیورو کریسی نے اہل سیاست کے ساتھ مل کر جہاں بہت سی خرابیوں کی پرورش کی وہاں اب سیاست دانوں کے ایمپائر اتنے نمایاں نظر نہیں آتے، دراصل چوکیداروں نے ہمراہی نگرانوں کو ہڈیوں کی بجائے گوشت کا مزہ ڈال کر اچھا نہیں کیا۔
بات چلی تھی افسروں کے دفتروں میں بیٹھ کر فائلوں کو پہئے لگانے کے کلچر کو ختم کرنے اور سائلوں کو سننے اور وقت دینے کی۔ افسروں کو حکمرانوں نے اپنی اردل پر لگا لیا ہے۔ حکمرانوں کو فاصلے پر رہ کر افسروں یعنی بیورو کریسی سے کام لینا چاہیے اور کام کرنے دینا چاہیے۔ ان کے ساتھ زیادہ وقت میٹنگوں میں نہیں گزارنا چاہیے۔ اچھا اور کامیاب افسر بھی ہر وقت ماتحتوں کی میٹنگوں کا میلہ نہیں لگاتا۔ ان کی کارکردگی سائلوں کے مسائل حل ہونے یا نہ ہونے سے جانچتا اور پرکھتا ہے۔ پولیس کا آئی جی یا کپتان جس وقت خود تھانیداری کرنے لگے اپنا وقار بھی کھوتا ہے گرفت بھی۔ وہ اپنے تھانیدار کی تفتیشی مہارت اور اس کے علاقے کا کرائم ریٹ دیکھتا ہے نہ کہ اس کے علاقے میں گشت شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو افسروں سے باعزت فاصلہ رکھ کر ان کے کام کا جائزہ لینا چاہیے نہ کہ انھیں میٹنگوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر تھانیداری دکھاتے ہوئے ان کا اور ان بے شمار سائلوں کا وقت برباد کرنا چاہیے۔ اچھا حکمران کام لینے کی صلاحیت سے اچھی طرح لیس ہو تو کامیاب کہلاتا ہے نہ کہ ماتحتوں کی سر عام ڈانٹ ڈپٹ سے۔ حکمرانی تھانیداری سے نہیں بردباری اور فہم و فراست سے ہوتی ہے۔ زیادہ بولنے کے بجائے سن کر سمجھنے سے ہو تو نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔