محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان۔ ایک نئے دور کا آغاز
آج سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان دراصل جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں کا ہی ثمر ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت میں اور باقی ممالک سے پاکستان سے تعلقات کی نوعیت میں بہت فرق ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے عوام کی محبت لازوال ہے۔ پاکستان کے عوام میں سعودی عرب کے لیے محبت اور احترام ہی پاکستان کی حکومتوں کو سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات پر مجبور کرتا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ محبت اور احترام کی انفرادیت اس لیے بھی ہے کہ باقی عرب ممالک کے لیے پاکستان کے عوام کے دل میں وہ محبت اور احترام نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حرم شریف اور مدینہ منورہ بھی ہیں۔ ان مقدس مقامات سے محبت نے ہی پاکستان اور سعودی عرب کو محبت اور احترام کے ایک لازوال رشتے میں باندھا ہوا ہے۔
محبت اور لازوال رشتے کی اسی بنیاد پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ موجود ہے۔ جس میں اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی بھی خطرہ ہو گا تو پاکستان سعودی عرب کا دفاع کرے گا۔ ایسا کوئی معاہدہ پاکستان کا کسی اور ملک کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ پاکستان سعودی عرب کے دفاع کا پابند ہے۔ سعودی عرب نے آج تک ہر مشکل موقعے پر پاکستان کی مدد کی ہے۔ قومی اسمبلی کی یمن پر متنازعہ قرارداد میں بھی اس عزم کا اعادہ موجود ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب میں تعاون کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی نہایت اہم اور نازک مواقع پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی ہے۔ جس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب امریکا سمیت پوری دنیا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کو 50ہزار بیرل روزانہ ادھار تیل فراہم کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی 1965اور 1971کی جنگوں میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان جنگوں میں باقی دنیا نے ہماری مدد نہیں کی تھی۔ سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ اور دوستی کی بنیادیں 1951کے معاہدوں سے نظر آتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایسے موقع پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان معاشی طور پر سخت مشکل میں ہے۔ قرضہ واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ملک میں معاشی ڈپریشن چھا چکا ہے۔اس میں کچھ اس حکومت کی نا اہلی بھی ہے۔ ایسے میں سعودی سرمایہ کاری تازہ ہوا کا جھونکا ہوگا۔ یہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرے گی اور ڈوبتی معیشت کو سہار ادینے میں مدد کرے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان پاک سعودی تعلقات میں ایک نئی جہت کا آغاز کرے گا۔اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید ہے۔ سعودی عرب تین ارب ڈالر کا قرضہ پہلے ہی دے چکا ہے۔ تین ارب ڈالر کا ادھار تیل بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس دورے میں تعاون کی یہ کہانی نئی بلندیاں چھوتی نظر آرہی ہے۔
محمد بن سلمان سعودی عرب کا مستقبل ہیں۔ ان کے ساتھ مضبوط تعلقات سعودی عرب کے ساتھ مستقبل میں بہترین تعلقات کی بنیاد ہیں۔
محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے قبل اسلامی اتحاد فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے دورہ پاکستان کی بھی بہت اہمیت ہے۔شنید یہی ہے کہ جو وہ طے کر کے جا رہے ہیں وہی ہونے جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ راحیل شریف اس وقت سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے نہ صرف بہت قریب ہیں بلکہ پاکستانی بھی ہیں۔ وہ پاک فوج کے سابق سربراہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کی حکومت نے انھیں سعودی عرب میں اسلامی فوج کی سربراہی جاری رکھنے کے لیے این او سی بھی جاری کیا ہے۔ انھیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر اور پاکستان میں سعودی عرب کا سفیر سمجھا جائے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ راحیل شریف کی سعودی عرب میں موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان کی ہر حکومت کے ساتھ کام کیا ہے۔ سعودی عرب نے بھٹو کے ساتھ مل کر پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی ۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے عالمی طور پر تنہائی کا شکار تھا۔ امریکا بھی دھوکا دے چکا تھا۔ اس کے بعد روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ تب بھٹو جا چکے تھے۔ اور پاکستان میں بھٹو مخالف حکومت تھی۔اس کے بعد پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعدبھی جب دنیا نے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں تو سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی۔ نائن الیون کے موقعے پر بھی سعودی عرب نے مشرف کی مدد کی۔ وہ بھی پاکستان کی مدد تھی۔ آج بھی عمران خان کے دور میں سعودی عرب پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔
آج سعودی عرب سی پیک کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ سعودی عرب گوادر میں سرمایہ کاری کرنے جا رہاہے۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت نہ صرف سی پیک کو مضبوط کرے گی بلکہ پاکستان کے توسط سے چین اور سعودی عرب کے درمیان بھی شراکت داری کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا جو عالمی سطح پر بھی نئی تبدیلیوں کا باعث ہو گا۔اس سے چین اور سعودی عرب بھی قریب آئیں گے۔
میری رائے میں پاکستان حکومت کو محمد بن سلمان کا تاریخی استقبال کرنا چاہیے۔ ایسا استقبال کرنا چاہیے کہ ماضی کے تمام استقبال اس کے سامنے ماند رہ جائیں۔ نہ صرف وزیر اعظم عمران خان بلکہ آرمی چیف سمیت سب کو استقبال کے لیے ایئرپورٹ جانا چاہیے۔ ہم نے ماضی میں بھی سعودی عرب کے سربراہان کے شاندار استقبال کیے ہیں۔ یہ کسی بھی سعودی عرب کے سربراہ کا کوئی پہلا دورہ پاکستان نہیں ہے۔ لیکن میری رائے میں اس بار ماضی کے تمام ریکارڈ توڑنے کی ضرورت ہے۔
انھیں پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کا اعزاز بھی دیا جانا چاہیے تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے وفد سے ان کی ملاقات کروائی جانی چاہیے تاکہ محمد بن سلمان کو اندازہ ہو سکے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر سعودی عرب سے بہترین تعلقات کی خواہاں ہیں۔ پارلیمنٹ سے ایک نئی قرارداد منظور کروانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ یمن والی پرانی قرارداد کے اثرات ختم ہو سکیں۔
میری رائے میں جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سعودی عرب کے دفاع کا معاہدہ موجود ہے تو یمن فوج بھیجنے میں کوئی برائی نہیں تھی۔ ہم وکٹ کے دونوں طرف نہیں کھیل سکتے۔ مجھے امید ہے کہ قدرت نے آج عمران خان کو اچھا موقع دیا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
آج سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان دراصل جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں کا ہی ثمر ہے۔ پاکستان کو اسلامی فوجی اتحاد کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے راہیں تلاش کرنی ہونگی۔ اس فوج میں براہ راست شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان اسلامی فوج اتحاد کا ایک متحرک حصہ بنے۔ اس ضمن میں خدشات اور تحفظات کو دور کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔