لیڈر اور فقیر
ہمارے لیڈر اپنی کسی سیاسی ضرورت پر تقریب میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہ ہمارے سال بھر کے خرچ کے برابر ہوتا ہے۔
سیاسی لیڈروں اور عوام کے تعلق کے بارے میں لکھتے لکھتے عمر بیت گئی وقتاً فوقتاً اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ ایک سیاستدان اور ایک عام آدمی کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوتی ہے دونوں کا اگرچہ چولی دامن کا ساتھ ہے یعنی دونوں ایک دوسرے کو پکڑے رکھتے ہیں اور دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں وہ اکیلے کسی کام کے نہیں اگر عوام ساتھ نہ دیں تو سیاسی لیڈری کس کام کی اور اگر لیڈر عوام کا حال احوال معلوم نہ کرے تو عوام اس کو وقت آنے پر چھوڑ دیں گے یعنی اس کو مستقبل میں مسترد کر دیں گے ۔
سیاستدانوں اور عوام کا تعلق ایک کھیل جو کھیلا جاتا رہا ہے اور ہمیشہ کھیلا بھی جاتا رہے گا۔ اس کھیل میں ایک جیت جاتا ہے تو دوسرے کو مات ہو جاتی ہے لیکن یہ مات جلد ہی جیت میں بدل جاتی ہے کیونکہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ اسی طرح کا تعلق ایک اخبار نویس اور اس کے قارئین کے درمیان بھی ہوتا ہے قارئین تک نئی اور تازہ ترین معلومات اور تبصرے پہنچانا اخبار نویس کا فرض ہے اور اس میں کسی قسم کی خلاف ورزی قابل قبول اور قابل معافی نہیں ہے ۔
چونکہ اخبار نویس اور عوام کا تعلق عوام کی تفریح طبع کے لیے باندھا گیا ہے لیکن یہی تعلق جب سیاستدان اور عوام کے درمیان آتا ہے تو کوئی بھی سیاستدان اپنے عوام سے تعلق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا ۔ہمارے سیاستدان جو ہمارے ووٹوں پر پلتے ہیں عوام سے کسی رشتے کو توڑنے میں تامل نہیں کرتے لیکن دوسرے دن پھر کسی نہ کسی بہانے اس تعلق کو قائم کرنے کی کوشش سے باز نہیں آتے ۔ عوام سے بے وفائی سیاستدان اپنا حق سمجھتے ہیں اور ایک عادت جسے یوں کہاں جاتا ہے کہ سیاست میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔
سیاستدان عوام کے ساتھ ایک رشتہ قائم کرتے ہیں اور عوام کی سادگی دیکھیںکہ وہ اس رشتے کوسنجیدگی سے قبول بھی کر لیتے ہیں اور لیڈروں کو اپنا سچ مچ کا قائد سمجھ لیتے ہیں۔ لیڈروں کی طرف سے عوام سے بے وفائی یا کسی رشتے کی خلاف ورزی ان کا ایک معمول بن جاتا ہے لیکن عوام بھی لیڈروں کو ایسی حرکتوں کا حقدار سمجھ لیتے ہیں۔
اس طرح لیڈروں کی لیڈری اور عوام کی لیڈر پرستی اور تابعداری دونوں سیاست کی ایک روایت بن جاتے ہیں اور لیڈر اور عوام دونوں مل کر اس روایت کو زندہ رکھتے ہیں کیونکہ سیاست اسی کا نام ہے اور سیاست ایسے ہی انداز میں چلتی ہے۔ یہی سیاست کی زندگی ہے اور یہی لیڈروں کی 'عوام خوری'ہے جو جب تک عوام زندہ ہیں لیڈر ان کے خون پسینے پر سیاست کرتے رہیں گے اور عوام بھی اپنی سیاسی خواہشیں ان لیڈروں پر قربان کرتے رہیں گے۔ سیاسی لیڈروں اور عوام کا یہی رشتہ دنیا بھر میں زندہ ہے اور ہر ایک قوم میں اسے قبول کیا جاتا ہے۔
سیاسی لیڈروں اور عوام کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ووٹ یا ان کے اعتماد کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے لیکن اس روایت کا کیا کیا جائے جو سیاست کے ساتھ ہی پیدا ہوئی اور عوام کو یہ اب تک قبول ہے ۔ لیڈر بھی اسی کے سہارے اپنی لیڈری قائم کرتے ہیں اور اسے زندہ رکھتے ہیں ۔ عوام اور ان کے لیڈر اسی سیاسی روایت پر زندہ ہیں اور یہی لیڈروں اورعوام کے درمیان ایک رشتہ بھی ہے جسے دونوں عزیز سمجھتے ہیں کیونکہ دونوں کی سیاست اسی رشتے پر قائم ہے ۔
میں نے کئی لیڈروں کی زبان سے ان کے کسی نازک وقت میں یہ سنا کہ اگر یوں کرتے رہے تو عوام بددل ہو جائیں گے یا جس سیاست میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو وہ ہمیں یعنی لیڈروں کو بھی چھوڑ جائیں گے اور بددل ہو کر یا تو بے عمل ہو جائیں گے یا سیاست میں دلچسپی لینا ترک کر دیں گے چنانچہ لیڈروںکے لیے ایسا کوئی مرحلہ قابل قبول یایوں کہیں کہ قابل برداشت نہیں ہے جس میں عوام ان سے مایوس ہو جائیں یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔
سیاسی لیڈر جن کی سیاست اور نام عوام کے ساتھ تعلق سے چلتا ہے اور وہ عوام کی تائید کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں کسی بھی صورت میں عوام سے دور نہیں رہ سکتے وہ سچ مچ یاوقتی ضرورت کے تحت عوام سے قریبی واسطہ رکھنے کی ضرورت کو خوب سمجھتے ہیں لیکن عوام کی فراخدلی ملاحظہ ہو کہ وہ ہر حال میں اورلیڈروں کو ہر کیفیت میں قبول کرتے ہیں ۔
چند دن کی بات ہے میں نے ایک کارکن سے پوچھا کہ آپ کے لیڈر یہ کیا کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ان کا سلوک کیسا ہے تو اس نے کہا کہ میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم لیڈروں کوچھوڑ کر کیا کریں ۔ یہ لیڈر اپنے خرچ پر سیاست کرتے ہیں اور ہمیں حکومت اور عوام میں وقعت دلاتے ہیں وہ یہ سب اپنے خرچ پر کرتے ہیں بلاشبہ اس میں ان کا اپنا فائدہ بھی ہوتا ہے اور ان کی لیڈری زندہ رہتی ہے لیکن ان لیڈروں کے بغیر ہم لاچار اور غریب عوام بھی کیا کر سکتے ہیں ۔
ہمارے لیڈر اپنی کسی سیاسی ضرورت پر تقریب میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہ ہمارے سال بھر کے خرچ کے برابر ہوتا ہے اور اپنے لیڈر کی اس تقریب کے خرچ پر ہم سال بھر کاخرچ اٹھا سکتے ہیں لیکن زندگی ہے کہ ایک طرف لیڈر ہیں جو نہ جانے ہمارے نام پر کیا کچھ کما لیتے ہیں اور دوسری طرف ہم عوام ہیں جو کسی فقیر کی طرح ہیں جو لیڈروںکی فراخدلی پر زندہ رہتے ہیں ۔بس یہی تعلق چلتا ہے اور عوام اور سیاستدان دونوں اس تعلق کو نبھائے جارہے ہیں ۔