بیتے دنوں کی یاد
احمد صادق بھی حیات ہیں اور میں بھی سانس لے رہا ہوں۔ لیکن دونوں وزیر اعظم باپ بیٹی غیر طبعی موت مارے گئے۔
ریس کورس گرائونڈ راولپنڈی جیالوں سے بھر چکا تھا، یہ 1971ء کے بعد دوپہر کا وقت تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں مغربی پاکستان کی حد تک اکثریت حاصل کی تھی جب کہ مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔
بھٹو صاحب جنہوں نے ابتداء میں 1973ء تک صدارت کا عہدہ اپنے پاس رکھا تھا اپنی پہلی عوامی تقریر کرنے ریس کورس پہنچے تو زبردست نعروں سے ان کا استقبال ہوا۔ میں بحیثیت مجسٹریٹ وہاں ڈیوٹی پر موجود تھا اور احمد صادق ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ جلسہ گاہ کا جائزہ لے رہا تھا۔ بھٹو صاحب کا خطاب پرجوش تھا جس کے دوران نعرے گونجتے رہے۔ اس کامیاب جلسے کے ایک ہفتے بعد مجھے ڈپٹی کمشنر احمد صادق صاحب کا تعریفی خط موصول ہوا جو ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔
چند روز قبل اس خط کو پڑھا تو احمد صادق صاحب کا ذکر کرنے کی غرض سے اس تحریر کی تحریک ہوئی۔ ریس کورس کے جلسہ سے چند ماہ قبل 2500 year celebration of Persian Empire ساری دنیا کے ملکوں کے دارالحکومتوں کے بڑے ہوٹلوں میں منعقد ہوئی تھی ۔ راولپنڈی کے ہوٹل (موجودہ PC ہوٹل) میں یہ تقریب رات کے وقت اپنے عروج پر تھی جب بھٹو صاحب اس ہوٹل میں ایک رات قیام کے دوران اپنے کمرے سے نکل کر Celebration ہال میں چند منٹ کے لیے آئے ۔ لوگوں نے ان کے ساتھ مصافحے کیے جس کا موقع مجھے بھی ملا۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ ایران کے زوال میں تیزی کی ایک وجہ پوری دنیا کے ممالک میں ہونے والی یہ Celebrations اور فضول خرچی تھی۔
میرے سابق ڈپٹی کمشنر صوبائی سیکریٹری تھے جب وہ سرکاری دورے پر ساہیوال آئے ۔ اتفاق سے میری تعیناتی وہاں تھی ۔ ملاقات کے دوران ہم نے فرنیچر کی ایک فیکٹری دیکھی جہاں شیشم کی لکڑی کا بہترین سامان تیار ہوتا تھا۔ ہم نے اس میں فرنیچر تیاری کے مختلف مراحل دیکھے۔ سیکریٹری صاحب کو ایک بہت اچھا ڈائننگ سیٹ پسند آیا جو کسی کے آرڈر پر تیار ہو رہا تھا۔ سابق باس نے فیکٹری مالک کو بالکل اس جیسا ڈائننگ سیٹ تیار کرنے کا کہا جب وہ واپس لاہور چلے گئے تو میں نے کئی بار فیکٹری جا کر ڈائننگ سیٹ کی تیاری کے مراحل دیکھے، قریباً تین ماہ میں سیٹ مکمل ہوا تو میں نے رانا صاحب سے فرنیچر لاہور سیکریٹری صاحب کے گھر ڈیلیور کرنے اور نہایت مناسب قیمت وصول کرنے کا کہا لیکن انھوں نے جواب دیاکہ سیکریٹری صاحب اتنے نفیس آدمی ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ ڈائننگ سیٹ بطور تحفہ انھیں پیش کروں۔
میں ڈائننگ ٹیبل بنوا اور بھجوا کر اپنے اس کام سے فارغ ہو چکا تھا۔ یہ سطور لکھنے تک مجھے نہیں معلوم نہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ تحفہ رہا یا فروخت ہوا۔
میرا تعلق باس کے ساتھ قائم رہا اور جب وہ صوبہ سندھ میں سیکریٹری تھے توکچھ عرصہ کے لیے زیر عتاب آئے لیکن نہ وہ مجھے بھولے نہ میری تابعداری کم ہوئی ۔ ان کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب ان کے DHA لاہور والے گھر میں تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی کو دعوت نامہ آیا ۔ میں کار کھڑی کر کے بیگم کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف چل رہا تھا تو پیچھے سے کسی نے میرا نام پکارا۔
یہ موجودہ سینیٹر سابق وزیر اور سرکاری ملازمت کے دوران ایک ہی محکمہ میں میرے کولیگ ملک رحمان تھے جن کے بارے میں میری رائے اور میرا مشاہدہ ہے کہ ملک رحمان کی گریڈ17 کی ملازمت سے ترقی کر کے محکمہ پولیس میں اعلیٰ پوسٹنگ، سینیٹر شپ اور مرکزی وزارت تک ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ ضرورت مند کی مدد کرنے اور اپنی ذمے داری یا ڈیوٹی کو سو فیصد کی بجائے دو سو فیصد نبھانے کی شہرت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ احمد صادق صاحب بیٹی کی شادی کے وقت پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر تھے۔
شادی کی تقریب میں ملک کی Dignitaries شامل تھیں۔ مہمان ان کے برابر والے طارق سعید ہارون کے پلاٹ میں کرسیوں پر براجمان تھے۔ کرسیوں کے فرنٹ پر ایک چار سیٹوں والا صوفہ تھا۔ اس کے درمیانی حصے پر دولہا ، دلہن اور دلہن کے ساتھ وزیر ِ اعظم بینظیر بھٹو بیٹھی تھیں۔ دوسرے خالی کونے پر پرنسپل سیکریٹری صاحب اپنے خاص مہمانوں کو بلا کر بٹھاتے تصویر اُترنے کے بعد اگلا مہمان اس خالی سیٹ پر بٹھایا جاتا، صوفے کے پیچھے پانچ چھ مہمان کھڑے ہو کر فوٹو بنواتے۔
بینظیر کی موجودگی اور فوٹو شوٹ کی وجہ سے احمد صادق صاحب بے حد مصروف اور Tense تھے۔ میں سلامی کا لفافہ پکڑانے کے لیے ان کا پیچھا کر رہا تھا ۔ انھوں نے مجھے پیچھے آتا دیکھ کر کہا I will talk to you to morrow ۔ میں نے لفافہ پکڑایا اور کچھ دور موجود اپنی بیگم کے پاس کھڑا ہو کر وزیر ِ اعظم کو دیکھنے لگا۔ مجھے وہ دن یاد آیا جب میں اور DC راولپنڈی ذوالفقار علی بھٹو کے الیکشن کے بعد 1971میں ان کی پہلی عوامی تقریر کے انتظامات میں مصروف تھے۔
اعلیٰ سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو جانے والوں کو کچھ عرصہ تک افسری کا خمار رہتا ہے۔ میرے مذکورہ باس تو سول سروس کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے تھے ۔ میں ایک دن گولف کھیلنے کے لیے پہنچا تو انھوں نے مجھے آواز دی اور چائے کی ٹیبل پر بلا کر کہا کہ میں دو گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھوں۔ پھر چائے اور فرائیڈفش کا آرڈر دے کر بتایا کہ انھوں نے گالف بال کو شارٹ لگائی تو آگے جانے والوں میں سے ایک پلیئر نے بدتمیزی سے ان پر shout کر کے انھیں اپنے پیچھے آتے ہوئے گالف کھیلنے سے منع کیا ہے اور اب وہ ان کا گیم کھیل کر واپسی تک انتظار کریں گے اور ان کی مرمت کریں گے۔
انھیں آگے جانے والے پلیئر پر بہت غصہ تھا۔ چائے پینے کے دوران میں نے انھیں بتایا کہ اکیلا پلیئر گالف کورس پر نہیں کھیل سکتا اور خاص طور پر جب آگے چار پلیئر یعنی فور بال جا رہا ہو ۔ کافی دیر بعد میں نے انھیں غصہ تھوک دینے پر بمشکل قائل کر لیا۔ انتظامی اور خاص طور پر پولیس سروس میں فیلڈ جاب کرنے کے بعد ریٹائر ہو جانے والے ہمارے بعض افسر نارمل زندگی میں لوٹنے میں کچھ وقت لیتے ہیں۔
یہ عجیب حسن ِ اتفاق تھا کہ میں بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے پہلے جلسے میں ڈیوٹی پر تھا جہاں احمد صادق ڈپٹی کمشنر تھے اور پھر احمد صادق صاحب کی بیٹی کی شادی میں بھٹو صاحب کی بیٹی وزیر ِ اعظم بینظیر مہمان ِ خصوصی تھی جہاں میں بھی مہمان تھا۔
احمد صادق بھی حیات ہیں اور میں بھی سانس لے رہا ہوں۔ لیکن دونوں وزیر اعظم باپ بیٹی غیر طبعی موت مارے گئے۔ ان کے ذکر کے ساتھ آج مجھے دونوں بہت یاد آ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق کا طیارے میں اپنے انجام کو پہنچنا اور جنرل پرویز مشرف کا عدالتی مفرور ہونا بھی یاد آیاہے۔