اُمید کا دامن تھامے رہو

عاصمہ نے ان سب کی لڑائی لڑنے کی ذمے داری اٹھائی اور اپنی آخری سانس بھی اس لڑائی کی نذر کردی۔


Zahida Hina February 17, 2019
[email protected]

موت ہم پر اپنے پر پھیلاتی ہے اور ہمیں ساتھ لے جاتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پروں کی ہوا دیتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔ 8 فروری کو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ میں نے جشن ادب کا پہلا حصہ لکھا اور دوسرا حصہ لکھ کر اپنی میز پر رکھ دیا ۔

بی بی سی سے پریانکا کی تقریر سن کر سوچ رہی تھی کہ ہندوستان میں سوا صدی پرانی اور شاندار سیاسی روایات رکھنے والی انڈین نیشنل کانگریس کا ہاتھ تھام کر پریانکا اس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے سے لگا سکے گی یا نہیں میں ان ہی خیالات میں غلطاں تھی ، ساتھ ہی یہ بات بھی یاد آرہی تھی کہ اب سے 2 دن بعد 10فروری ہے ، میرے والد کی برسی کا دن ۔

دہائیوں پہلے 10فروری 1971ء کی خنک اورگہری رات کو جب میں سول اسپتال سے اپنے والد کا جسد خاکی لے کر نکلی تھی، ریڈیو پاکستان کے سامنے سینٹ جان ایمبولینس کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور میں گھر سے بہ مشکل دس منٹ کے فاصلے پر ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی، دوسری ایمبولینس کا انتظار کرتی رہی تھی ۔ یہ وہ دن تھے جب کراچی کے افق پر عبدالستار ایدھی کا نام نامی طلوع نہیں ہوا تھا اور ایمبولینس ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہوتی تھیں ۔ ان ہی خیالوں میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے میں نے کب موت کی ندی میں ڈبکی لگائی ، مجھے نہیں معلوم ۔ میرے بیٹے زریون کو اطلاع دی گئی ، وہ فوراً پہنچا اور اس نے مجھے میڈی کیئر اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرا دیا ۔

ڈاکٹر مہ وش بزنجو میری معالج ٹہریں ۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے ایم آر آئی ہوئے اور طبی تحقیق نے تفتیش کی ایک لمبی کہانی ۔ ڈاکٹر طارق سہیل ، کرنل باقر ، شازیہ کی طبی توجہ اور زریون میاں کی بے پناہ جانفشانی مجھے ایک بڑے گرداب سے نکال لائی ۔ دبئی سے فینانہ ، کامران عباس ، پنڈی سے سحینا سب ہی متوحش تھے ۔ یہ میرے بچوں ، دوستوں کی دعائیں اور محبتیں تھیں کہ میں آج آپ سے نئے سرے سے تعلق قائم کررہی ہوں ۔

12فروری ہمارے دُر آب دار عاصمہ جہانگیر کی رخصت کا دن ہے ۔ میں اس تاریخ اور عاصمہ جہانگیر کو دل کھول کر یاد کرنا چاہتی ہوں ۔ میری نگاہوں کے سامنے اس کا جنازہ گزر رہا ہے ۔ وہ جو زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ کو دعوت مبارزت دیتی رہی ، وہ جان سے گزر کر بھی ان کے لیے مسئلہ بنی ۔ ایک باغی جو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائی اور اس کی آنکھیں ان لوگوں سے کہتی رہیں کہ تم اس ملک کے غریبوں ، مزدوروں ، کسانوں ، عورتوں ، پسے ہوئے لوگوں اور روند دی جانے والی لڑکیوں کو انصاف نہیں دیتے لیکن آج نہیں تو کل ورنہ پرسوں یہ لوگ تمہارے جبڑوں سے اپنا حق چھین لیں گے ، افتادگانِ خاک کو تم کب تک اپنے قدموں تلے روندو گے ۔

اس کے جانے کا غم اجتماعی ہے اور ذاتی بھی ۔ وہ بے آسرا لوگوں کے لیے ایک ایسا نام تھی جو اندھیری سرنگ کے آخری سرے پر جلتی ہوئی روشنی تھی ۔ اس نے اپنے بہادر اور بے دھڑک باپ ملک غلام جیلانی کی رہائی کے لیے لڑائی لڑنی شروع کی ۔ ایک باپ کے لیے انصاف حاصل کرنے کی تگ ودو جو ایک بیٹی نے آغاز کی لیکن چشم زدن میں یہ جدوجہد ملک کے ان لوگوں کے لیے سیاسی ، سماجی اور قانونی لڑائی میں بدل گئی جن کے لیے آسمان دور تھا اور زمین سخت ۔ اس نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی ، لوگ اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے ، یوں لوگ ملتے گئے ، کارواں بنتا گیا ۔ آج ایچ آر سی پی ایک محترم ادارہ ہے ، پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی ۔ وہ اقوام متحدہ تک جاپہنچی ۔

اس نے دنیا کے نامی گرامی اداروں سے اعزازات لیے ۔ وہ انصاف اور ہمارے خطے میں امن کے لیے آخری سانس تک لڑتی رہی ۔ اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں اپنے کھیتوں کی ہریالی،اپنے باغوں کی شادابی اور اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے خواب تھے ۔ یہاں جب میں '' اپنے بچے '' لکھ رہی ہوں تو میری مراد ہمارے برصغیر کے تمام مسلمان ، ہندو ، سکھ ، عیسائی اور اقلیت قرار دیے جانے والے بچوں سے ہے ۔ وہ بچے جن کے تن پرکپڑے نہیں ، جوگرم نوالوں کو ترستے ہیں اور جن کی انگلیاں قلم تھامنے کے بجائے اینٹ بھٹے سے نکلنے والی بھلستی ہوئی اینٹیں اٹھاتی ہیں یا ٹائرکے پنکچر لگاتی ہیں ۔

عاصمہ نے ان سب کی لڑائی لڑنے کی ذمے داری اٹھائی اور اپنی آخری سانس بھی اس لڑائی کی نذر کردی۔ اس پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ میدان جنگ میں دھاوا کرنے والے ان سواروں میں سے تھی جوگھوڑے کی ایال پر جھکتے ہوئے بھی اپنے پیر رکاب سے باہر نہیں نکالتے ۔

مجھے سن 2000ء کی وہ روشن صبح یاد آرہی ہے جب ہم دلی میں تھے ، عاصمہ اور حنا کے ساتھ مل کر ہم امن کی خواہش کر رہے تھے ۔ ہمارا خیال تھا کہ سنگین کی نوک سے فتح کی تاریخ لکھنے کی کوشش کرنے والوں نے خطے کو جو نقصان پہنچایا تھا ، ہم اس چاک دامانی کو رفو کرسکیں گے ۔ امن کا وہ سفر جو بہت امنگوں اور آرزوؤں کے ساتھ کیا گیا تھا ، وہ اب تک شرمندۂ تعبیر ہے ۔

جمہوریت پر عاصمہ کا ایمان تھا ۔ وہ سمجھتی تھی کہ ایک خستہ حال جمہوریت بھی آخر کار لوگوں کے مسائل کا حل ہوتی ہے ۔ ہم سب کا ایمان تھا اور آج بھی ہم یقین کامل رکھتے ہیں کہ آخر کار جمہوری طریقوں سے ہی عام لوگوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ لوگوں کو انصاف مل سکتا ہے اور انصاف ملے تو خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔ ہتھیاروں کے ڈھیر برصغیر کے غربت زدہ اور پسماندہ انسانوں کے کسی بھی زخم کا مرہم نہیں ہوسکتے ۔ یہ باتیں عاصمہ سے زیادہ کون جانتا تھا ۔ وہ سمجھتی تھی کہ برصغیر کی جھونپڑ پٹیاں ان مشتعل اور بنیادی ضرورتوں کو ترسی ہوئی نوجوان نسل کو انتہا پسندی اور دہشتگردی پر اُکساتی ہیں جو اپنے لیے انصاف کی طلبگار ہیں۔

عاصمہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت ، انصاف اور امن کا ایک دوسرے سے گہرا ناتا ہے ۔ ہم اگر اپنے لوگوں کی فلاح و بہود پر خرچ نہیں کرینگے ، تو ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کانٹے لوگوں کے دلوں سے کیسے نکال سکتے ہیں ۔ صدمے کی بات یہ ہے کہ آخری دنوں میں عاصمہ کو احساس ہونے لگا تھا کہ امن کی خواہش اور ہندوستان جانے کی تڑپ ہندوستان کے انتہا پسند عناصر کے لیے بھی ناپسندیدہ ہے ۔

سیدہ حمید سے 28نومبر 2017ء کو باتیں کرتے ہوئے جب سیدہ نے کہا تھا کہ عاصمہ تم اب شاید واحد فرد ہو جس کے پاسپورٹ پر ہندوستان کا ملٹی پل ویزا لگا ہوا ہے ، تم کیوں نہیں کچھ دنوں کے لیے ہمارے پاس آجاتی ہو ۔ تب عاصمہ نے اداسی سے کہا تھا کہ معاملہ میرا نہیں ہے ۔ میں ہندوستان جاسکتی ہوں لیکن یہاں ہزاروں ہیں جو وہاں جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے دروازے بند ہیں ۔ ہم اس ملک کے لیے ناپسندیدہ عنصر ہوگئے ہیں جس کے ساتھ ہم ربع صدی تک کھڑے رہے ۔ ہر مشکل گھڑی میں ۔ تمام صعوبتیں سہہ کر ۔ ہم تم لوگوں کے شانہ سے شانہ ملا کر چلے لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہماری ضرورت نہیں ۔ اسی لیے اب دل نہیں چاہتا۔''

عاصمہ جہانگیر کے یہ جملے پڑھ کر میرے دل پر آرے چل گئے اور یہ اس نے سانس کا رشتہ ٹوٹنے سے صرف 75 یا شاید 76دن پہلے کہے تھے اور میں نے اس کی پہلی برسی کے بعد پڑھے وہ جس نے برصغیر میں امن قائم کرنے کی خواہش میں 25 برس سے زیادہ صرف کردیے تھے ۔ دشنام ، اتہام ، غداری ، وطن فروشی ... کون سا طعنہ تھا جو عاصمہ اور اس کی ساتھی عورتوں اور مردوں نے نہیں سہا لیکن ہماری وہی کیفیت رہی کہ اس دل میں بہت داغ ہیں، جز داغِ ندامت ۔

عاصمہ کے اس جملے نے بہت آزردہ کیا ، شاید میری طبیعت کی اچانک خرابی کا سبب بھی یہ جملہ بنا ہو ۔ اس وقت میری نگاہوں میں وہ سڑکیں ہیں جن پر ہماری ''امن بس '' فراٹے بھر رہی ہے ۔ حنا ، عاصمہ ، شاہدہ صدیقی ، گلنار اور جانے کون کون ہمارے ساتھ ہے اور سب کے چہروں پر اس یقین کی روشنی ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے ''۔ جے پور کے محل پر چراغاں ہے اور ہاتھی ہمیں سلام کررہے ہیں ۔ میں عاصمہ سے جھک کر کہتی ہوں ''اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ، آخرکار جیت ہماری ہوگی ، چاہے اسے دیکھنے سے پہلے ہم سوگئے ہوں ۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں