کوئی میرے شہر کو
ایک زمانہ تھا جب میرے شہر کو عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کہا جاتا تھا۔ ایک پُرسکون اور امن و آشتی کا ...
ایک زمانہ تھا جب میرے شہر کو عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کہا جاتا تھا۔ ایک پُرسکون اور امن و آشتی کا گہوارہ میرا شہر کراچی ہر غریب اور امیرکا مسکن ، ہر شخص کو اپنی آغوش میں جگہ دینے والا یہ کشادہ دل ، فیاض اور خلوص و محبت کا امین ، نفرت و تعصب سے عاری ، لسانی و علاقائی گروہ بندی کا دشمن کبھی اپنی مثال آپ تھا۔ یہاں اپنی اپنی علیحدہ زبان اور پہچان رکھنے والے سب لوگ اِس طرح مل جل کر رہا کرتے تھے کہ کبھی یہ گمان بھی نہ ہوتا کہ وہ مختلف زبان اور شہریت کے امین اور مالک ہیں۔اُن کے درمیان باہمی اتحاد اور بھائی چارہ ہی اِس شہر کی اصل شناخت تھا ۔
آج سے تیس برس پہلے میرا یہ شہر دوستی ، سخاوت اور دریا دلی کی وجہ سے ایک منفرد مقام کا حامل تھا، یہاں کے باسی ہر مصیبت اور عافیت میں ایک دوسرے کے ساتھ اِس طرح مل جاتے تھے کہ یہ سب ایک خاندان ہی کے افراد معلوم ہوتے تھے۔کوئی تنہائی اور پسماندگی اُنہیں افسردہ اور غم زدہ نہیں کر پاتی تھی، ہر کوئی اپنے مصیبت زدہ بھائی کی مدد اور جان نثاری کے لیے تیار رہتا تھا ۔ یہی اِس شہر کا حسن تھا، یہاں صبح سے شام تک تمام لوگ بے خوف و خطر اپناکام کیا کرتے تھے ۔
تمام شہری مل جل کر معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے، ایک نقطہ نظر اور ایک نظریے کے تحت ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرداں اور مصروفِ عمل رہا کرتے تھے۔ سیاسی شعور اورادراک کا حامل یہ شہر ہمیشہ ڈکٹیٹروں اور غیر جمہوری قوتوں کا مخالف اور جمہوری سوچ کا علمبردار ہوا کرتا تھا۔یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ سچ اور حق گوئی کا ساتھ دیا اور فعال اور منظم تحریکوں کے ذریعے،مکمل اتحاد اور ہم آہنگی کی بدولت آمروں اور غیر جمہوری حکومتوں کا تختہ گول کیا۔
یہاں کی سڑکیں اور میدان کبھی پُرامن ماحول کے امین اور پُر سکون تقریبات کا خوبصورت نظارہ پیش کیا کرتے تھے ،یہاں کوئی زبردستی بھتہ اور چندہ وصول نہیں کیا کرتا تھا، یہاں ٹارگٹ کلنگ کا کوئی تصور تک نہ تھا، یہاں ڈاکو سرِ بازار یوں لوٹ مار نہیں کیا کرتا تھا، ہر ایک کی عزت اور اُس کا مال محفوظ تھا،کاروباری سرگرمیاں اور تجارتی لین دین بلا خوف و خطر جاری و ساری رہا کرتا تھا۔ماں باپ اپنے بچوں کو اسکول بھیج کر بڑے اطمینان سے اپنے کاموں میں مشغول ہو جایا کرتے تھے اُنہیں کوئی پریشانی یا فکر لاحق نہیں ہوا کرتی تھی۔
اِس شہر کی شامیںاب اُن خوبصورت نظاروں کو ترستی ہیں جب کلفٹن اورصدر کی پُرر ونق سڑکوں پر ہر کوئی اطمینان و سکون سے گھوما کرتا اور رات کوبخیریت اپنے گھر کو لوٹ جاتا تھا۔ صدر میں واقع جارج ریسٹورنٹ، کیفے آکسفورڈ میں چائے پیٹس اور سموسوں سے لطف اندوزی اور شاہراہِ ایلفی پر چہل قدمی آج بھی مجھ جیسے کئی لوگوں کی گم گشتہ یادوں کا سرمایہ ہے۔ قریب ہی واقع پریس کلب صحافتی سرگرمیوں کا مسکن ہوا کرتا تھا جہاں ملک کے نامور صحافی اور اخباری کارکن چائے کی میز پر بیٹھ کر اپنی دن بھر کی کاروائیوں کا جائزہ لیا کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خیالات اور معلومات کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ اِن حسین یادوں کے اِس شہر کو نجانے کِس کی نظر لگ گئی اور یہ ہنستا بستا شہر اُداسیوں اور ویرانیوں کی نذر ہوکر رہ گیا۔
آج میرے اِس شہر میں کوئی ایک ضلع بھی گوشہء عافیت نہیں رہا ، ہر طرف انارکی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔کسی کی عزت و جان محفوظ نہیں ہے۔ کوئی شخص ایسا باقی نہیں رہا جو یہاں اسٹریٹ کرائمز کا شکار نہ ہوا ہو، کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہا جہاں ڈاکوؤں نے واردات نہ کی ہو، کوئی دکان ایسی نہ رہی جو بھتہ خوروں اور چندہ لینے والوں سے بچ گئی ہو۔ یہاںہر شخص ایک خوف کی زندگی گذار رہا ہے، لگتا ہے کوئی بھی اپنی خوشی سے نہیں رہ رہا ، سب کی اپنی اپنی مجبوری ہے۔جس کا بس چلتا ہے وہ یہاں سے اپنا کاروبار سمیٹ کر کسی دوسری جگہ نئی زندگی شروع کر دیتا ہے۔ یہاں اب سڑکوں اور راستوں پر پیدل چلنا بھی کسی انجانے خوف سے خالی نہیں ۔ اگر وہ کسی ٹارگٹ کلر کی گولی سے بچ گیا ہے تو پھر راہزن کی لوٹ مار سے نہیں بچ سکتا۔
یہاں حکومت کی رِٹ اور قانون نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں، ہر طرف دہشت گردوں کا راج ہے۔جس شہر میں روزانہ دس سے پندرہ لوگ بلا وجہ مارے جاتے ہوں اور جسے حکمراں کسی بڑے شہر کی عام سی بات قرار دیتے رہے ہوں وہاں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ جہاں کاایک سابق وزیرِ دہشت گردی کا علاج سرکاری دہشت گردی سے کرنے کا اعلان کرتا ہو اور تین لاکھ اسلحے کے لائسنس جاری کرنے کا حلفیہ اعتراف بھی کرتا ہو وہاں بھلا بلاامتیاز قانون پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے۔یہی وزیر دو برس پہلے اِسی ماہِ رمضان میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرکے اور بڑی بڑی بھڑکیں مار کے غائب ہوگئے۔جس شخص کو وہ لیاری امن کمیٹی کا انچارج بناکر اپنے ساتھ لائے تھے وہ آج لیاری گینگ وار کی لڑائی لڑ رہا ہے۔
کراچی میں نجانے امن کیسے قائم ہوگا۔ کوئی صورت اور تجویز قابلِ عمل دکھائی نہیں دیتی۔ شہر کی انتظامیہ بے بس اور لاچار ہے۔ صوبائی حکومت کو یہاں امن سے زیادہ اپنی سیاست سے دلچسپی ہے۔ کراچی جلتا رہے اُسے اِس کی قطعی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ یہ کہہ کر کہ یہ کوئی آج کا معاملہ نہیں ہے کراچی گزشتہ تیس برسوں سے یونہی جل رہا ہے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو جاتی ہے۔ کراچی کے لوگوں نے جنھیں اپنے ووٹوں سے نوازا وہ کس قسم کی سیاست کررہے ہیں کسی کو پتہ نہیں۔جن کے ایک اشارے پر کراچی میں سارا ٹریفک رُک جاتا ہے، کاروبارِ زندگی معطل ہوکر رہ جاتا ہے وہ بھلا کیسے امن قائم نہ کر سکتے ہوں یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ بات ارادوں اور نیتوں میں اخلاص کی ہے۔ وفاقی حکومت اگر مداخلت کرے تو کہا جاتا ہے کہ وہ صوبائی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے۔
اِس شہر کا اب کوئی پُر سانِ حال نہیں۔ یہاں کوئی اپنی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اب یہ کام یہاں کے لوگوں ہی کو کرنا ہوگا۔ کراچی کااصل دشمن کون ہے۔ کون یہاں کے امن کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ کون یہاں لاقانو نیت اور انار کی کا تسلسل چاہتا ہے، ہمیں اپنے اصل دشمن کو تلاش کرنا ہوگا تبھی جاکر اِن حالات کا سدِباب ممکن ہے۔ کراچی کے لوگوں کو اب احساس کرنا ہوگا کہ وہ کب تک اِنہی حالات کاشکار رہیں گے، کب تک اپنا روزگار تباہ و برباد کریں گے، کب تک اپنے مستقبل کو داؤ پر لگاتے رہیں گے۔بہت وقت ضایع ہو چکا ہے، بہت پانی سروں سے گذر چکاہے اب کراچی کے باسیوں کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ عقل و سمجھ اور سوجھ بوجھ کے ساتھ فیصلے کرنا ہونگے۔ اپنا مستقبل خود سنوارنا ہوگا۔ کوئی اُن کی مدد کو نہیں آئے گا۔
تیس سال کسی بھی قوم کے لیے کم نہیں ہوا کرتے۔ قومیں اِن سالوں میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہیں اور ہم اپنے اِن سنہری تیس برسوں کو کھو چکے ہیں۔اپنا بہت نقصان کر چکے ہیں ، آپس میں لڑ مر کے، احتجاج اور ہڑتالوں کی سیاست کرکے، ایک دوسرے کو قتل کرکے ہم نے اپنا آپ تباہ کیا ہے۔کسی دوسرے کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اب ہمیں اپنے شہر کو اُس کاماضی لوٹانا ہوگا ، اُس کی اصل شناخت اور خوبصورتی واپس کرنا ہوگی۔ لسانی و علاقائی عصبیتوں سے پاک اور امن و آشتی کا گہوارہ کراچی اُس دن کا بڑی بے چینی سے منتظر ہے۔