فارسی شعروادب کی تاریخ اورنمایاں شخصیات
فارسی اورعربی ادبیات کی تواریخ بہت پرانی ہیں۔ان کوپڑھنے کے لیے کئی صدیوں کامطالعہ کرناپڑے گا۔فی الوقت...
فارسی اورعربی ادبیات کی تواریخ بہت پرانی ہیں۔ان کوپڑھنے کے لیے کئی صدیوں کامطالعہ کرناپڑے گا۔فی الوقت ہمارے موضوع کامدار فارسی شعر وادب ہے،لہٰذا یہ دیکھنا ہے کہ فارسی زبان میں شعر وادب نے تخلیق کے مدارج کیسے طے کیے۔ہمیں اس کے لیے ساتویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک مختصر جائزہ لیناہوگا۔
یہ فارسی شعرا ئے کرام اورادیبوں کی مختلف ادوار میں تخلیقی سرگرمیوں کوبامِ عروج تک پہنچانے کی داستان ہے۔تصوف کے سفر کابھی تذکرہ ملے گا۔ہم جب فارسی شعروادب کی بات کررہے ہیں ،تو اس سے مراد کسی مخصوص خطے یا ملک کے تخلیق کار سے نہیں ہے، بلکہ جہاں بھی فارسی زبان میں شعروادب تخلیق ہوا،اس کایہاں تذکرہ ہے۔
فارسی شعروادب کا اردوزبان اورادبیات پربھی خاصا گہرا اثر رہا ہے۔ساتویں اورآٹھویں صدی کے درمیانی عرصے میں فارسی زبان میں شاعروں، ادیبوں،عالموں کاذکر ملتاہے،ان میں چنداہم تخلیق کاروں میں،محمدابن زکریاالرازی ،محمد ابن موسی الخوارزمی،عبداللہ ابن المقفع،بخاری،ابوبسرعمروبن عثمان قنبر البصری اور بلاذری کے نام شامل ہیں۔یہ وہ شخصیات ہیں، جن کا ان دوصدیوں کے درمیانی زمانے میں بہت چرچارہا اورانھوں نے فارسی شعروادب کی بنیاد رکھی۔فارسی شعروادب میں شخصیات کی اکثریت ایسی ہے،جنہوں نے شعروادب کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی نام پیدا کیا۔
اس صدی میں شعروادب میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں''ابن المقفع''کانام سب سے پہلے آتا ہے، کیونکہ اس شعبے میں اتنا تخلیقی کام کرنے والی واحد شخصیت تھے جنھیں ترجمے کی صنف پر دسترس حاصل تھی۔انھوں نے عربی سے ایک معروف ادبی نثری تحریر کاشاندارہ ترجمہ کیا،وہی ترجمہ فارسی ادب میں پہلی نمایاں اور باقاعدہ کام کے طورپر سامنے آیا۔فارسی زبان میں یہ وہ پہلے رجحان ساز تخلیق کار تھے،جنہوں نے عربی ادب سے ترجمے اورماخذات کوبڑی مہارت سے فارسی زبان میں منتقل کیا،اسی لیے قدیم فارسی کے مصنّفین میں انھیں ایک مکمل مصنف کے طورپر مانا جاتا ہے اسی دور میں راضی جیسا سائنسدان، طبیب۔خوارزمی جیسا ریاضی دان'البصری جیسا عربی لسانیات کاماہراوربلاذری جیسا مورخ اور امام بخاری جیسی مذہبی شخصیت بھی موجود تھیں۔نویں صدی نے تین ایسی شخصیات کو جنم دیا،جن کو فارسی شعر وادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
اس عہد کی تین تخلیقی علامتوں میں شمار کیے جانے والوں میں،منصور اوربلخی کے نام سے دنیاواقف ہے۔ان تینوں نے شاعری، ادب، فلسفے کی مختلف جہتوں میں کام کیا۔فارسی زبان میں تصوف کا دور بھی درحقیقت یہی سے شروع ہوتاہے اورپہلی نمایاں شخصیت کے طورپر منصور حلاج کانام آتاہے،جنہوں نے خود کوفنافی التصوف کردیا۔وہ اورتصوف کی دنیا ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔جدید فارسی شاعری میں ''ابوعبداللہ جعفر ابن محمد رودکی''پہلی نمایاں شخصیت کے طورپر پہچانے جاتے ہیں۔یہ قدیم فارسی زبان میں کلاسیکی ادب کے خالق بھی مانے جاتے ہیں۔ منصور حلاج کانام برصغیر کے لوگوں کے لیے نیا نہیں تھا، ہمارے ہاں آج بھی تصوف کی نسبت سے ان کانام بہت مقبول ہے۔ تصوف کے بنیادی اساتذہ میں شمار کیے جانے والی یہ شخصیت انقلابی قلم کار تھی۔ایک صوفی کے طورپر ان کی زندگی عملی نمونہ بنی۔عباسی دور کے چندمقبول ترین ناموں میں سے ایک نام ان کابھی ہے۔اسی طرح کئی جہتوں میں کام کرنے والے ''شاہد بلخی''ایک شاعر ہونے کے ساتھ فلاسفر اورصوفی بھی تھے۔
ان کو بھی اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام حاصل تھا۔دسویں صدی میں فارسی زبان میں مزید وسعت پیداہوئی۔بہت سے نئے لکھنے والے سامنے آئے۔ہر شعبے میں ترقی ہوناشروع ہوگئی۔مجموعی طورپر پندرہ سے بیس شخصیات اس دور میں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔جنہوں نے مختلف شعبوں میں نام کمایا،لیکن سب سے زیادہ شہرت جس شاعر نے حاصل کی ،ا س کانام''فردوسی''ہے۔ایران کی قومی داستان کے خالق ''حکیم ابوالقاسم فردوسی توسی''نے فارسی شاعری میں بلند مرتبہ حاصل کیااوردیگر زبانوں میں شاعری کرنے والوں پر بھی اپنی شاعری کے اثرات مرتب کیے۔
شاہنامہ فردوسی اس شاعر کاایک ایسا شاہکار ہے،جس کو دنیا آج بھی ذوق وشوق سے پڑھتی ہے اورفردوسی کی شہرت دنیا میں جہاں بھی لوگ نظم اورداستان سے لگاؤرکھتے ہیں،وہ ان کے نام سے واقف ہیں۔سلطان محمود غزنوی کے دور حکومت میں شہرت حاصل کرنے والے فردوسی کے ہم عصروں میں بھی بہت سے قابل شاعر ،ادیب اورصوفی موجود تھے۔ان ہم عصروں میں ،ابوسعید ابوالخیر، ابومنصور دقیقی، ابو الفضل بیہقی، فرخ سیستانی،کسائی مروزی، عیوقی، خواجہ عبداللہ انصاری اور دیگر تھے۔
گیارہویں صدی سے فارسی شعروادب مزید مقبولیت کی بلند پرواز اڑنے لگا۔اس صدی میں کئی نامور شخصیات پیدا ہوئیں ،ان کی وجہ سے پوری دنیا میں فارسی ادب کوشہرت حاصل ہوئی۔ان میںتین شخصیات ایسی تھیں،جن کے علم کی چمک دمک سے فارسی شعروادب جگمگااٹھا۔ان کے نام ''عمر خیام''،''امام غزالی ''اور''داتاگنج بخش علی ہجویری'' ہیں۔ایک رباعی کابادشاہ تھا۔
دوسرے کو مذہبی فکروفلسفے پر مکمل دسترس حاصل تھی۔
تیسرے اپنی ذات میں مکمل صوفی تھے۔تینوں اس صدی کی نمایاں شخصیت بن کرابھرے۔عمر خیام فلسفی، ریاضی دان، ماہر موسیقی، ماہر جغرافیہ اور خوب صورت خیالات کا مالک شاعر بھی تھا،جب کہ امام محمد غزالی کی شخصیت بھی ہمہ جہت تھی۔انھوں نے دینی علوم میں مہارت حاصل کی اوراپنی ذات میں ایک صوفی بھی تھے۔ اسلامی فکروفلسفے پر کیاہوا ان کاکام یادگارہے ۔اس حوالے سے غزالی اپنے عہد میں ایک رجحان ساز شخصیت ثابت ہوئے اوراپنی علم کی ایسی دھاک بٹھائی کہ آج تک اس کااثرہے۔داتاگنج بخش علی ہجویری کے مزار پر زائرین کاہجوم آج بھی ان کی صوفی تعلیمات کاعینی شاہد ہے،انھوں نے اپنے عمل سے دین اسلام کو برصغیر کے خطے میں متعارف کروایا،پھر ان کے نقش قدم پر چل کر کئی اورصوفی بھی اسی خطے میں تشریف لائے۔بارہویں صدی میں بھی فارسی زبان پر زرخیزی کا موسم چھایا رہا اورکئی نامور شخصیات کی دریافت ہوئی۔اس عہد میں دو شخصیات نے دنیا بھر میں اپنے علم وفضل سے بے پناہ شہرت حاصل کی،ان میں ''فریدالدین عطار''اور''شیخ سعدی''شامل ہیں۔ فریدالدین عطار نہ صرف ایک اچھے شاعر تھے ،بلکہ ان کی شخصیت بھی صوفیانہ تھی،جس کا اثر ان کی تحریروں پر بھی دکھائی دیتاہے۔
ایران کایہ شاعر صاحب دیوان ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی علوم میں بھی تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے کام پر رومی کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔سعدی وہ شاعر ہے،جس کی شہرت صرف فارسی زبان تک محدود نہیں رہی،بلکہ ان کی مقبولیت کا چرچا مغرب میں بھی ہے،جس طرح رومی کو وہاں دوبارہ سے دریافت کیاگیا ہے۔ ان کے دیگر معاصرین میں نظامی، سنایی کے علاوہ کئی معروف نام بھی تھے۔فارسی زبان وادب میں یہ وہ دور ہے،جس میں ان کے علما عروج کی بلندیوں پرفائز ہیں۔تیرہویں صدی جس عالم اورصوفی کو سب سے زیادہ شہرت اورمقام ملا،ان کے نام امیرخسرو اورشمس تبریزی تھے۔ان دونوں شخصیات نے اپنے علم ومرتبے سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔امیر خسرو نے علم موسیقی میں اپنی صلاحیتوں کا ایسا اظہار کیاکہ آج تک اس کے ثمرات انسانی جمالیات تک پہنچ رہے ہیں۔شمس تبریزی ایک ایسا صوفی شاعر جس نے رومی جیسے شاعر کی تخلیقات میں معاونت کی۔خود بھی ایک ذہین شخص تھے۔حال ہی میں ان کے مزار کو یونیسیکو ورلڈ ہیرٹیج میں شامل کیاگیا ہے۔
چودہویں صدی کی سب سے مشہور اورقابل ترین شخصیت 'حافظ شیرازی'کی ہے۔ایران کے اس شاعر نے شاعری میں نئی جہتیں متعارف کروائیں اورشاعری کی دنیا میں اس کی پیروری کی گئی۔ان کے چاہنے والوں میں علامہ اقبال جیسا شاعر بھی شامل ہے۔ان کے معاصرین میں پندرہ ایسے ہم عصر شاعر اورعالم ہیں،جن کو فارسی زبان میں نمایاں اہمیت حاصل تھی۔اگلی چار صدیوں میں بھی فارسی زبان اپنی زرخیزی کے سبب چھائی رہی،مگر کچھ زوال بھی آیا۔علما اورشعرا کی تعداد میں کچھ کمی آئی۔
اس سارے دور میں پھر بھی ایک شاعر ایسا تھا،جس نے ان چار صدیوں کی شخصیات میں خود کونمایاں کیا۔یہ صرف صوفی شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بہترین موسیقار اورادیب بھی تھے۔ان کی تقریباً آٹھ کتابیں ہیں،جن کاانگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اوریہ بہت مشہور ہیں۔
اس دور تک آتے آتے فارسی شاعری دیگر ملکوں کے شعروادب پر بھی اپنے اثرات مرتب کرچکی تھی۔لہٰذا اُنیسویں صدی میں ہندوستان کے دو بڑے شاعر بھی فارسی زبان کی اس تخلیقی لہر سے متاثر ہوئے،وہ مرزا اسد اللہ خان غالب اورعلامہ اقبال ہیں۔ان کے دیگر معاصرین میں بھی کافی شاعروں نے شہر ت حاصل کی،مگر جو مرتبہ ومقام ان دونوںکے حصے میں آیا،وہ قدرت کسی کوکم کم ہی نوازتی ہے۔
بیسویں صدی میں سو سے زاید ایسی شعروادب کی شخصیات ہیں،جنھیں اپنے شعبوں میں مہارت حاصل ہے اور وہ عالمی سطح پر مقبول بھی ہوئے،ان میں ،علی شریعتی،فروغ فرخ زاد،سہراب ،احمد شاملو،ایرج مرزا،وارند،محمد میلماسی سمیت کئی بڑے نام ہیں،جن کے علم سے بیسویں صدی فیض یاب ہوئی۔ فارسی زبان کاشعر وادب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے بعد آج بھی تخلیق ہورہاہے اوراتنے زرخیز پس منظر رکھنے والوں کے ہاں کتنے ایسے نام ہیں،جن پر اب پوری دنیا میں کام ہوچکاہے۔
گیارہ صدیوں کے اس سفر میں فارسی ادب کا شاندار ماضی مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہے اورمغربی دنیا کے لیے ایک پیغام بھی کہ ہم بھی فکری جمالیات سے عاری نہیں ہیں، بس اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔