گارمنٹ ٹیکسٹائل مزدوروں کے مسائل
امریکی سامراج پاکستان میں جس طرح لوٹ مارکرتا ہے اسی طرح وینزویلا میں مداخلت کر رہا ہے۔
آج سے لاکھوں برس قبل جب شہر اور ریاست کا وجود نہیں تھا تو لوگ بیابانوں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں رہا کرتے تھے۔ اس وقت لوگوں کوگرم ریت ، مچھروں اور دھوپ سے بچنے کے لیے کسی پہناوے کا تصور ذہن میں آیا ہوگا، پھر قدیم انسان درخت کے پتے، چھال اور بعد میں جانوروں کے کھالوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ ابن بطوطہ نے جب برصغیرکا سفرکیا ، تو اپنے سفر نامے میں لکھا کہ سندھ میں ایک پودہ ہوتا ہے جس کا پھول چاندی جیسا سفید ہے۔اس وقت اسے روئی یاکپاس کے نام سے کوئی نہیں جانتا تھا ۔
بہرحال اسی کپاس سے انسان نے ترقی کرکے دھاگہ اور پھر موٹا اور بھدا ابتدائی ہاتھ کا بنایا ہوا کپڑا بنایا اور اسے جسم کا پیراہن بنالیا ۔ برصغیر میں اتنی ترقی کی کہ مغلیہ دور میں دھاگے کا ململ کا کپڑا اتنا نفیس اور عمدہ تھا کہ برطانیہ میں برآمدکیا جاتا تھا ۔
اس وقت برطانیہ میں بنڈی نما بھدا کپڑا استعمال ہوتا تھا ۔ جب برطانیہ میں اس کی طلب بڑھی تو تاج برطانیہ نے اس کی در آمد پر سو فیصد ڈیوٹی لگا دی، اس کے باوجود جب طلب بڑھی تو دو سو فیصد ڈیوٹی لگا دی ، مزید طلب بڑھی تو پانچ سو فیصد ڈیوٹی لگا دی اور پھر اس کے باوجود مزید طلب بڑھنے پر برصغیر سے ململ کے کپڑے کی درآمد پر ہی پابندی لگادی ، جب کہ ہم خام مال برآمدکرکے انھیں سے پلٹ کر مہنگا کپڑا خریدتے ہیں۔
آج کل تو جرمنی، فرانس، برطانیہ، امریکا وغیرہ کی اجارہ دار گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کمپنیاں ہمارے ملک میں مصنوعات بنواتی ہیں اورکپڑے بھی سلواتی ہیں اور سستی مزدوری کے عوض اربوں ڈالرکماتی (لوٹتی) ہیں ، جب کہ پیداواری قوتوں یعنی مزدوروں کو صرف زندہ رہنے کے لیے چند سکے بطور بھیک دیتی ہیں۔اسی طرح سے یورپی ممالک نے صدیوں قبل ایشیا، افریقہ اور امریکا سے سونا، چاندی اور قیمتی پتھروں اور معدنیات کو لوٹا اور مسلسل لوٹ رہی ہیں ۔
مغلیہ دور میں جہانگیر بادشاہ کے دور میں لارڈ کلائیو سات پانی کے جہازوں میں سونا، چاندی اور قیمتی جواہرات بھرکے برطانیہ لے گئے۔جنوبی اور شمالی امریکا سے سونا چاندی اور جواہرات لوٹ کر اور ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے غلاموں سے چینی کی پیداوار کرکے آج یورپ مہذب اور امیر بن گیا ہے۔ آج کے دور جدید میں جو بھی لیبر قوانین موجود ہیں اس پر بھی اگر عمل کروایا جائے تو مزدور نیم فاقہ کشی کے ماحول سے نکل کر ایک حد تک اچھی اور آ زاد زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
حالیہ ضمنی بجٹ میں محنت کش طبقے کو عملی طور پہ نظر انداز کیا گیا ہے جس سے موجودہ حکومت کی محنت کش دشمن سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ امور ملبوسات کے بڑی بین الاقوامی مزدور تنظیموں سے گلوبل فریم ورک معاہدہ (جی ایف اے) کے ذریعے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمام مزدوروں کے لیے بہتر اجرتیں، یونین سازی کا حق، صنفی مساوات ، صحت اور تحفظات کو یقینی بنائے گی لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ان برانڈزکے لیے ملبوسات تیارکرنے والی فیکٹریوں میں مزدوروں سے روزانہ دس گھنٹے سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور چھٹی کے دنوں میں بھی فیکٹریوں میں بلا کر جبری کام لیا جاتا ہے۔
ان فیکٹریوں میں یونین سازی دہشت گردی کے زمرے میں قرار دے دی گئی ہے اور مزدوروں کے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو غیر قانونی ذرایع سے ہراساں کیا جاتا ہے اور ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ ان فیکٹریوں میں دو سے تین فیصد مزدور سندھ ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹیٹیوٹ اور ایمپلائز او لڈ ایج بنیفٹ انسٹیٹیوٹ کے اداروں سے رجسٹرڈ ہیں ۔ ملک کے تمام مالیاتی اداروں، میڈیا ہائوسز اور صنعتی شعبے خصوصا ٹیکسٹائل اورگارمنٹ سے وابستہ لا کھوں مزدوروں کو بلاجواز ملازمتوں سے برطرف کیا جاچکا ہے ۔
ٹیکسٹائل اورگارمنٹ کا شعبہ جوکہ ملکی صنعت کا سا ٹھ فیصد سے زیادہ ہے اور ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور یہی شعبہ پینسٹھ فیصد زرمبادلہ کما کردیتا ہے۔ مقامی مارکیٹ کے لیے کپڑا اور ملبوسات تیارکرنے والے صنعتی یونٹس نہیں بلکہ بیگارکیمپ بنے ہوئے ہیں، بلکہ بین الاقوامی برانڈ کے لیے مال تیارکرنے والی فیکٹریوں میں بھی لاکھوں مزدور غلامی کی جدید شکل پیش کر رہے ہیں۔
فیکٹریوں اورکارخانوں میں پچانوے فیصد مزدوروں کے پاس تحریری تقرر نامے موجود نہیں جس کی وجہ سے انھیں جب چاہے ملازمت سے بغیرکسی وجہ بتائے برطرف کردیا جاتا ہے۔ بیماری کی شکل میں چھٹی کا تصور ناپید ہے ۔ خواتین مزدوروں کوجن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں نہایت تیزی کے ساتھ خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور انھیں یکساںکام کی یکساں اجرت نہیں دی جاتی ۔
ملک میں معیشت بڑی تیزی سے بے قاعدہ شعبے میں تبدیل ہورہی ہے جس کے نتیجے میں مزدور آئین اور قوانین میںموجود اپنے جائز حقوق سے محروم ہوگئے ہیں ۔ فیکٹریوں اورکار خانوں میں غیر قانونی اور غیر انسانی ٹھیکیداری نظام کا عفریت مزدور طبقے میں بے چینی پیدا کررہا ہے۔
اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مزدوروں کو تحریری تقرر نامہ جاری کیا جائے اور اجرتیں بینک کے ذریعے ادا کی جائیں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں ٹھیکیداری نظام کی تمام شکلوں کا خاتمہ کیا جائے اور اس جرم میں ملوث افراد کو سزا دی جائے ، قانون کے مطابق آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام لینے والی فیکٹریوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ہفتہ وار چھٹی پر مزدوروں سے جبری کام نہ لیا جائے، خواتین مزدوروں کو ہراساں کرنے کے عمل کو جرم قرار دیا جائے اور ہر ادارے میں نگہباں کمیٹی تشکیل دی جائیں جس میں ایک نمایندہ مزدوروں کی جانب سے ضرور ہو، فیکٹریوں اورکارخانوں میں صحت اور تحفظات کے معیارات پر عمل درآمدکروایا جائے، تمام مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا جائے، ٹیکسٹائل اورگارمنٹ کے مزدوروں کی اجرتوں کا تعین ان کے ہنرکے مطا بق مقررکیا جائے، پاکستان میں کام کرنے والے برانڈز بین الاقوامی لیبرمعیارات اورملکی لیبرقوانین کا احترام کریں اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔
بین الاقوامی برانڈزگلوبل فریم ورکز ایگریمنٹ کے تحت کیے گئے وعدوںکی پاسداری کرے ۔ حکومت پاکستان جی ایس پی پلس کے تحت کیے گئے، تمام نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ برطرف صحافیوں اور کارکنان کو بحال کیا جائے یا متبادل ملازمت فراہم کی جائیں ۔
امریکی سامراج پاکستان میں جس طرح لوٹ مارکرتا ہے اسی طرح وینزویلا میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہی صورتحال آج وینزویلا کی ہے ۔عوام ما دورو کے ساتھ ہیں جب کہ گوانڈو کے پیچھے جو عوام ہیں انھیں امریکی سامراج نے اسی طرح جوڑا ہوا ہے، جس طرح پاکستان میں عمران خان کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ورنہ عمران خان جرات مندی سے ما دورو کی حمایت کا اعلان کرتے ۔ چونکہ امریکا اب شام اور افغانستان سے زخم خوردہ ہوکر دم دبائے واپس جا رہا ہے، اس لیے زخم کو چاٹنے کے لیے وینزویلاپر نظرگاڑے ہوئے ہے۔امید ہے وینزویلا کے عوام لاطینی اور میکسیکن عوام سے مل کر امریکی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے ، ہرچندکہ محنت کش طبقے کے مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں ہی ممکن ہے۔