مراد علی شاہ کا کام کرنے کا انداز
سب وزرا اعلیٰ اور وزیر اعظم کو اس بات کا پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ فائلوں پر خود دستخط کریں۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کام کرنے کے انداز کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ پی پی پی کی عمومی سیاست میں مراد علی شاہ اور ان کا کام گم ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی سندھ کی سیاست میں کراچی اور اندرون سندھ کے مسائل ایسے ہیں کہ وہاں کام گم جاتا ہے، دیگر مسائل ہی اہمیت اختیار کیے رکھتے ہیں۔
پاکستان میں حکمرانی کا سادہ انداز ہے۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو خود کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے سیکریٹری ہی حکومت چلاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے لیے کوئی فائل پڑھنا ضروری نہیں ہے، ان کا سیکریٹری اور اکثر ان کے بھی آگے سیکریٹری فائل پڑھتے ہیں، پھر زبانی بریفنگ دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اسی بریفنگ پر یقین رکھتے ہوئے زبانی احکامات جاری کرتے ہیں اور اس طرح اہم فیصلہ ہوتے ہیں۔ ستر سال سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔
میں کسی ایک وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس میں سب شامل ہیں۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے سیکریٹری فائلوں پر لکھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نے کہا ہے یہ کر لیا جائے یا یہ نہ کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم فائل کے اس حصہ سے متفق ہیں اور اس حصہ سے متفق نہیں ہیں۔ سمری مسترد کی جاتی ہے یا منظور کی جاتی ہے۔ یہ سب ان کے سیکریٹری لکھتے ہیں۔
یہ سب کام اعتماد کا ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا فائل واقعی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نے دیکھی تھی۔کیا انھیں صحیح بریفنگ دی بھی گئی یا نہیں۔ کیا غلط حقائق بتا کرغلط فیصلہ تو نہیں کرا دیا گیا۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے سیکریٹری کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے بلکہ یہ مانا جاتا ہے کہ نوے فیصد معاملات میں وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری اور وزیر اعظم کے سیکریٹری ہی ملک و صوبے پر حکومت کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا تو ایسے ہی نام بدنام ہوتا ہے۔ ان کے نام پر بہت سے ایسے آرڈر بھی کر دیے جاتے ہیں جس کا انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا،پاکستان میں کام ایسے ہی چلتا ہے۔
لیکن مراد علی شاہ ایسے نہیں ہیں۔ مراد علی شاہ نہ تو کسی فائل پر زبانی بریفنگ لیتے ہیںاور نہ ہی ان کا سیکریٹری کسی فائل پر کوئی آرڈر لکھتا ہے۔ ہر فائل مراد علی شاہ خود پڑھتے ہیں اور خود اپنے ہاتھ سے اس پر آرڈر لکھتے ہیں۔ سیکڑوں فائلیں روز آتی ہیں اور وہ ان سب پر مختلف محکموں کے نوٹ پڑھتے ہیں اور پھر ان پر اپنے ہاتھ سے، اپنی قلم سے، اپنے فیصلے لکھتے ہیں۔ خود ریمارکس لکھتے ہیں۔ نہ وہ کسی سیکریٹری سے بریفنگ لیتے ہیں اور نہ ہی ان کا سیکریٹری ان کی جانب سے کوئی احکامات جاری کرتا ہے۔بلکہ وہ اپنے فیصلوں کی ڈکٹیشن بھی نہیں دیتے۔ بس سیدھا قلم سے لکھتے ہیں۔ جو لکھ دیتے ہیں اس کو کاٹتے بھی نہیں ہیں۔ سندھ میں کام کرنے والے اہم بیوروکریٹس کو مراد علی شاہ کے دستخط کی پہچان ہو گئی ہے۔
ویسے یہ بتایا جاتا ہے کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی خود فائلیں پڑھ کر اس پر خود اپنے احکامات لکھتے تھے۔ وہ فائلوں پرریمارکس بھی لکھتے تھے۔ لیکن بھٹو کے بعد دوبارہ یہ رواج ختم ہو گیا اور بھٹو سے پہلے بھی سیکریٹری کے ذریعے ہی نظام چلایا جاتا تھا اور بعد میں بھی سیکریٹری کے ذریعے ہی نظام چلایا گیا ہے۔ حتیٰ کے جنرل کی حکومت میں بھی ان کے سیکریٹری ہی فائلیں نکالتے رہے ہیں۔ اسے محفوظ بھی سمجھاجاتا ہے ۔ اگر کسی فائل میں بعد میں کوئی مسئلہ ہوجائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا ۔ یہ تو سیکریٹری صاحب نے خود ہی کر دیا ہے۔ایسا آجکل ہو بھی رہا ہے۔ ایک کیس میں ایک وزیر اعلیٰ نے یہی دفاع لیا ہوا ہے۔ لیکن جب کوئی وزیر اعلیٰ کسی فائل پر اپنے ہاتھ سے کوئی ریمارکس کوئی فیصلہ لکھتا ہے تو وہ بعد میں یہ نہیں کہ سکتا کہہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا۔
میں نے سندھ کے ایک اہم بیوروکر یٹ سے پوچھا کہ جب سب فائلیں وزیر اعلیٰ نے خود دیکھنی ہیں تو فائلیں پھنس جاتی ہوںگی۔ کب وزیر اعلیٰ کو ٹائم ملے وہ فائل پڑھے اور کب اس پر اپنے ہاتھ سے فیصلہ لکھیں۔ وہ مسکرایا۔ اس نے کہا یہاں کوئی فائل دو دن سے زیادہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں نہیں رکتی۔ وزیر اعلیٰ دو دن میں فائل نکال دیتے ہیں۔ یہاں ہفتوں مہینوں والا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ میرے لیے اسپیڈ حیران کن ہے۔ یہاں تو ایک ایک محکمہ کا سیکریٹری فائلیں کئی کئی ہفتے روکے رکھتا ہے۔ چیف سیکریٹری کے پاس فائلیں رکی رہتی ہیں۔لیکن مراد علی شاہ دو دن میں فائل نکال دیتے ہیں۔ وہ پہلے ہر فائل پڑھتے ہیں۔ پھر اس پر اپنے ہاتھ سے فیصلہ لکھتے ہیں۔
مراد علی شاہ کے TAB میں ان کا ہر ریکارڈ ہے۔ ہر فائل پر ان کا کیا ہوا فیصلہ۔ ہر میٹنگ کے منٹس، قوانین، آئین ، سمریوں پر کیے گئے فیصلے۔ کابینہ کے فیصلے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ کی ہوئی خط و خطابت۔ این ایف سی سے متعلق مکمل ریکارڈ۔ اس لیے کسی بھی فائل پر اس سے منسلک پرانے فیصلے دیکھنے کے لیے بھی انھیں کہیں سے کوئی ریکارڈ نہیں منگوانا پڑتا۔ وہ اپنا ٹیب کھولتے ہیں۔ اسی سے سب کچھ دیکھ لیتے ہیں اور پھر جو بھی نیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسے بھی اسی ٹیب میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ اس لیے جب کسی میٹنگ کے دوران انھیں یہ کہا جائے کہ پہلے میٹنگ میں یہ فیصلہ ہو چکاہے۔ تو ویسے تو مراد علی شاہ کو یاد ہوتا ہے۔ ورنہ وہ اپنا ٹیب کھولتے ہیں۔ اس تاریخ کی میٹنگ میں کیے گئے فیصلے دیکھتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ کیا فیصلہ ہوا تھا۔
واقف حال بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت کے ساتھ ایک میٹنگ میں جب ایک سنیئر بیوروکریٹ نے یہ کہہ کر معاملہ کو چکر دینے کی کو شش کی یہ فیصلہ گزشتہ دور حکومت میں ہو چکا ہے۔ تو مراد علی شاہ نے پہلے تو کہا کہ انھیں ایسا کوئی فیصلہ یاد نہیں ہے۔ جب بیوروکریٹ نے فرضی میٹنگ کا حوالہ دیا کہ ا س میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا تھا تو مراد علی شاہ نے اپنے ٹیب سے اس میٹنگ کے منٹس نکالے اور دکھا دیے کہ اس میٹنگ میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ جس پر سب چپ ہوگئے اور وہ بیوروکریٹ شرمندہ ہو گئے۔ اس طرح یہ مانا جاتا ہے کہ جب تک یہ ٹیب مراد علی شاہ کے پاس ہے انھیں چکر دینا مشکل ہے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ سندھ میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ وہاں گورننس کے مسائل ہیں۔ وہاں کا سیاسی کلچر پنجاب سے مختلف ہے۔ پھر پی پی پی کے اپنے سیاسی کلچر کے بھی مسائل ہیں۔ لیکن ان تمام مسائل کے باجود مراد علی شاہ کا کام کرنے کا انداز اچھا ہے۔ انھوں نے سندھ میں غیر مناسب حالات میں اچھا کام کیا ہے۔ وہ صبح بر وقت اپنے دفتر آجاتے ہیں بلکہ سندھ سیکرٹر یٹ میں یہ چیک بھی کرتے ہیں کہ باقی سب لوگ بھی وقت پر آتے ہیں کہ نہیں۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے سندھ سیکریٹریٹ میں بر وقت آنے کا بھی رواج پڑگیا ہے۔ ایک خطرہ رہتا ہے کہ کب وزیر اعلیٰ چیکنگ پر نکل پڑیںگے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مراد علی شاہ کے کام کرنے کے انداز کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب وزرا اعلیٰ اور وزیر اعظم کو اس بات کا پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ فائلوں پر خود دستخط کریں تاکہ وہ کل کو یہ نہ کہہ سکیں کہ انھیں تو معلوم ہی نہیں۔ یہ سیکریٹریوں کے ذریعے معاملات چلانے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مراد علی شاہ سے ٹریننگ لینے کی ضرورت ہے۔ کیسے فائل پڑھتے ہیں۔ کیسے فیصلہ لکھتے ہیں۔