سوشل میڈیا پر پابندیاں
ذرائع ابلاغ مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اب سوشل میڈیا پر پابندیوں سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا ۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے والے افراد کو فوجداری دفعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر اطلاعات کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر متحرک افراد کی گرفتاری شروع ہوگئی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کردیاہے۔ اب الیکٹرونک ویوز جغرافیائی سرحدوں کے محتاج نہیں ہیں، صرف چند لمحوں میں کوئی بھی اطلاع دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف فورم کے ذریعے لوگ اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کی معروضیت ایک اہم سوال رہا ہے مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سوشل میڈیا بھی عوام کے اظہارکا مؤثر ذریعہ ہے۔ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے مختلف ماڈل ہیں۔
برطانیہ ہمیشہ سے آزاد ئ صحافت کا چیمپئن رہا ہے۔ برطانیہ میں اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کو ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی کا مکمل حق حاصل ہے جس طرح روایتی میڈیا کو مکمل آزادی ہے، اسی طرح برطانیہ میں سوشل میڈیا پر بھی مواد کو آزادانہ طور پر اپ لوڈ کرنے کی آزادی ہے۔ ریاستی ادارے روایتی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کی نگرانی کا فریضہ انجام نہیں دیتے مگر برطانیہ میں ہتک عزت کے قوانین انتہائی سخت ہیں۔ عوام کو جاننے کا حق ہے۔
ذرائع ابلاغ کو اطلاعات فراہم کرنے کی آزادی ہے مگر فرد کی خلوت کا احترام ضروری ہے۔ اسی طرح اسکنڈے نیوین ممالک کے علاوہ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ میں آزادئ صحافت کا اطلاق روایتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ہوتا ہے۔ امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد شہری آزادیوں پر قدغن لگائی گئی ہے۔
امریکا کے سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے حوالے سے امریکی شہریوں اور ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی نگرانی کرتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادئ صحافت کے ماہرین نائن الیون کے بعد امریکا کے سلامتی کے اداروں کے کردار پرگہری تنقید کرتے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے ادارے دہشت گردی کی آڑ میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو غصب کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو امریکا کے جمہوری معاشرے کے لیے خطرناک علامت ہے۔
ایشیا میں جاپان ٹیکنالوجی میں خاصا آگے ہے مگر جاپان میں دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد انسانی حقوق کی بالادستی کا شعور خاصا بلند ہے۔ چین دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے۔ چین میں خواندگی کا تناسب صد فی صد ہے مگر چین میں کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے۔ چین نے ای میل اور فیس بک کا اپنا ایڈیشن بنایا ہے جس کو حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ ایشیا کا ایک اور مسلمان ملک ایران ہے۔ وہاں بھی ذرائع ابلاغ پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہی صورتحال سوشل میڈیا کی ہے۔ ملائیشیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے وہاں پارلیمانی نظام بادشاہت کے ساتھ موجود ہے۔
ملائیشیا میں جمہوریت کا ارتقاء بہت دیر سے ہوا ہے، وہاں مختلف نسلوں کے افراد آباد ہیں، یوں بنیادی انسانی حقوق کا سوال اہم ہے۔ پھر سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں جہاں بادشاہت کی جڑیں گہری ہیں ، جمہوریت اور آزادئ صحافت کا معاملہ ہنوز دور ہے۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت ہے۔ بھارت کے آئین میں انسانی حقوق کا باب انتہائی اہم ہے۔ مذہبی اور دیگر سماجی تضادات کے باوجود جمہوریت کی جڑیں گہری ہیں۔ پارلیمنٹ سے زیادہ بھارت کا سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ اگرچہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں جن کی ساری دنیا میں مذمت کی جاتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کا ماضی یکساں ہے۔ دنیا بھر میں نوآبادیات کے مختلف ماڈلز ہیں مگر برطانیہ کی نوآبادی ہندوستان کا ماڈل دنیا کے دیگر نوآبادیات سے مختلف ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں جدید تعلیم کے ساتھ انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا۔ ریل چلائی، بجلی کے ذریعے جدید صنعتی دورکا آغاز ہوا۔ انگریزوں نے عوام کی محدود شرکت کے ساتھ بلدیاتی نظام نافذ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازمین نے اخبارات شایع کرنے شروع کیے۔ مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔
ہندوستان کے اخبارات نے آزادئ صحافت کا پیغام عام آدمی تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند کی حکومت نے اخبارات پر پابندیوں کے لیے قوانین نافذ کیے اور مختلف طریقوں سے اخبارات کی آزادی کو کچلنے کی کوشش کی۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے سب سے پہلے آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد کی، یوں اس ملک کی تاریخ کے ساتھ ہی آزادئ صحافت منسلک ہوگئی۔
تحریک انصاف کی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے، ملک میں عجیب نوعیت کی افراتفری ہے۔ وفاقی وزراء مختلف معاملات کو اٹھا کر پارلیمنٹ کی بالادستی کو داؤ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض وزراء کے بیانات سے بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی بنیاد پارلیمنٹ کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کو اتنا حساس معاملہ بنادیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ دو ماہ سے کوئی قانون سازی نہیں کر پائی ہے۔
ایک طرف پارلیمنٹ کی حاکمیت پر سوال اٹھ رہے ہیں تو دوسری طرف انسانی حقوق کی بالادستی بھی چیلنج ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی سے حکومت کا بیانیہ کمزور ہوگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں سے صورتحال خاصی خراب ہے۔ ذرائع ابلاغ مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اب سوشل میڈیا پر پابندیوں سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والی محقق آنسہ فلک نازکا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے سیٹیزن جرنل ازم کو متعارف کرایا ہے، اس پر پابندیوں سے عوام کی آزادی رائے کا حق غصب ہو گا۔ ان سوالات میں ایک سوال زیادہ اہم ہے کہ ملک کے مستقبل کا ماڈل برطانیہ اور یورپ کی طرح جدید جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق کی بالادستی پر مشتمل ہوگا یا کہ چین، ایران اور سعودی عرب کی طرح کا ہوگا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں نرم ہوئیں، آزادئ صحافت پر قدغن لگانے والے قوانین منسوخ ہوئے اور بین الاقوامی معیار سے قریب تر قوانین نافذ ہوئے، یوں ذرائع ابلاغ ریاستی اداروں کے تسلط سے آزاد ہوئے مگر موجودہ حکومت کے پانچ ماہ کے دوران صورتحال سے محسوس ہورہا ہے کہ سرد جنگ کے دور کا ماحول واپس لایا جارہا ہے مگر یہ بات اہم ہے کہ پاکستان جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ جمہوری نظام ہی اس ملک کی بقاء ہے۔جمہوریت کی بنیاد ذرائع ابلاغ کی مکمل آزادی پر ہی مضمر ہے۔