پریشر اور اکو پریشر
ایک وہ بھی وقت تھا جب لوگ’’کھیل‘‘ کو انتہائی ناپسندیدہ بلکہ ’’لہوولعب‘‘ قرار دے کر بچتے تھے۔
محترم وزیراعظم جو ساتھ میں کپتان بھی ہیں انھوں نے کہا ہے کہ انھیں ''پریشر'' میں کھیلنا خوب آتا ہے۔ بات اگرصرف کرکٹ تک ہوتی تو وہ صیغہ ماضی کا استعمال کرکے ''ہے'' کی جگہ''تھا'' استعمال کرتے لیکن ''ہے'' کا استعمال ظاہر کرتاہے کہ وہ اب بھی کھیل میں ہیں یا سیاست کو بھی کرکٹ سمجھے ہوئے ہیں جو ''لارڈز'' کے گراونڈ میں سیاست کی پچ پر کھیلاجا رہا ہے۔
ویسے یہ ایسا غلط بھی نہیں کہ پڑوسی ملک میں تو کرکٹ کو باقاعدہ دھرم کا درجہ مل چکا ہے اور کیوں نہ ملے کہ آقاؤں کا کھیل ہے اور ''الناس علیٰ دین ملوکھم''۔لیکن ہمارے ہاں دین ودھرم کا معاملہ بہت حساس ہے اس لیے اسے کم ازکم سیاست یا کاروبار بنانا تو نہیں بنتا ہے مگر بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے ایک نجات دہندہ نے مذہب،جمہوریت اور معیشت کی درجہ بندی کی تھی کہ اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست اور سوشل ازم ہماری معیشت ہے، اس طرح اگر آج یہ کہاجائے کہ اسلام ہمارا دین،کرکٹ ہماری سیاست اور معیشت بھی کرکٹ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اور چونکہ کرکٹ کی فتوحات ابھی جاری ہیں۔
خواتین بھی میدان میں آچکی ہیں نابینا کرکٹ بھی لانچ ہوچکی ہے اور ڈیف وڈمپ کے لیے تو کرکٹ سے زیادہ موزوں اور کھیل ہے ہی نہیں کہ بال اور بیٹ سے لے کر امپائر کی انگلیوں تک سارا سلسلہ ہی سننے سے زیادہ دیکھنے دکھانے کا ہے۔گلیوں کوچوں میں بھی رائج ہوچکاہے بلکہ ہم نے ایسے بوڑھے بوڑھیوں کے بارے میں بھی سناہے جو گھر کے اندر ہی کھیل کا سارا انتظام کرلیتے ہیں، خود بڈھا بڈھی اپنے اپنے بستروں میں لیٹ یا بیٹھ کر بالنگ بیٹنگ کرتے ہیں اور پوتے پوتیوں سے فیلڈرز کاکام لیتے ہیں۔
ہمارے محلے میں ایک گھرانا ہے جس کے سارے بچے ذہنی طور پر ڈس ایبل ہیں ایک دن ہم کسی کام سے سحری کے وقت گئے تو دیکھا کہ بچے اپنی اپنی چارپائی میں بیٹھ کر بالنگ بیٹنگ کررہے ہیں اور ماں باپ فیلڈرز کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ایسے میں اگر سیاست بھی کرکٹ ہوجائے تو بڑی سہولت بھی ہوجائے گی اور انتخابات پر بے پناہ خرچ بھی بچ جائیں گے، دوڑ دھوپ بھی کم ہوجائیں اور عوام بھی دروازے کھٹکھٹائے جانے سے بچ کر آرام کی نیند سوپائیں گے۔
کرنا صرف یہ ہوگا کہ پارٹیاں اپنی اپنی ٹیمیں بنائیں گی جس طرح بھارت میں ہوتاہے۔باقاعدہ ٹورنامنٹ ہوں گے اور جیت ہار کی بنیاد پر وزارتوں کے کپ ملیں گے۔بلکہ احسن طریقہ تو یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں پارٹیاں اور ٹیمیں ویسے بھی کپتانوں جو زیادہ تر خاندانوں کے ہوتے ہیں کے تابع محمل ہواکرتی ہیں اس لیے ایک بڑا سا کنٹری کپ رکھاجائے اور جو ٹیم وہ کپ جیت لے اس کا کپتان جانے اور کسی کو کچھ دینا۔ہوتا تقریباً اب بھی یہی ہے لیکن اس پر سیاست اور جمہوریت کی بالکل تہمت لگائی جاتی ہے امپائر بھی ہوتے ہیں تھرڈ امپائر بھی اور مین آف دی میچ یا سیریز بھی ہوتے ہیں۔
مماثلت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب سے کرکٹ میں میچ فکسنگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے ساتھ ہی سیاست میں میچ فکس کیے جاتے ہیں اور کھیلا بعد میں جاتاہے۔اور ہمارے ملک کی مٹی بھی چونکہ ہر فصل اور کھیل کے لیے بہت زرخیز ہے اس لیے یقیناً سیاست کا یہ ترقی دادہ پیوند یا بیج بھی خوب پلے گا پھولے گا۔اور جب کپتان نے بھی کہہ دیاہے کہ انھیں پریشر میں کھیلنا خوب آتاہے تو حالات بڑے حوصلہ افزاء یعنی کرکٹ کا کھیل اب سیاست میں کھیلا جائے گا بلکہ کھیلا جارہاہے اور یہ بات تو ہم پاکستانیوں کے بارے میں بہت پہلے سے رجسٹرڈ ہوچکی ہے کہ یہ کھیل کو جنگ کی طرح لڑتے ہیں اور جنگ کو کھیل کی طرح کھیلتے ہیں۔
البتہ اس بات کی ضرورت شدید ہے کہ میچ فکسنگ سے بہرحال بچاجائے کیونکہ کرکٹ میں میچ فکسنگ سے صرف مال کا نقصان ہوتاہے لیکن سیاست میں ''جان'' کا نقصان بھی شامل ہوتا ہے۔جیسا کہ ایک فلمی دانشور نے کہاہے کہ کھیل میں ہار ہو توشان جاتی ہے لیکن جنگ میں شکست ہو تو جان جاتی ہے۔ ''ایمان'' جانے کا سلسلہ بھی ہے لیکن سیاست میں اس کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتاہے اور یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ استعمال نہ ہوسکے۔
تم شہر میں ہوتے ہو توکیاغم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے ''ایمان'' کوئی اور
زمانہ بھی کیسے کیسے رنگ بدلتاہے ایک وہ بھی وقت تھا جب لوگ''کھیل'' کو انتہائی ناپسندیدہ بلکہ ''لہوولعب'' قرار دے کر بچتے تھے، اپنے بال بچوں کو بھی حتی الوسع لہوولعب سے دور رکھتے تھے کہ ان کے خیال میں کھیل کود ہی تمام برائیوں کی جڑ اور خرابیوں کا سرچشمہ ہوتے تھے۔
کھیلوگے کودوگے ہوگے خراب
لکھوگے پڑھوگے تو ہوگے نواب
بزرگ تھے، اگلے وقتوں کے نادان انجان اور ناسمجھ دان لوگ تھے۔ان کو کیاپتہ تھا کہ الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور بچوں کو لکھنے پڑھنے کی گمراہی میں ڈال رہے ہیں کہ اصل خزانے تو کھیلنے کودنے بلکہ لہوولعب میں تھے ، ہاں لہوولعب کا نام تھوڑا سا بدل کر شوبز رکھ دیاگیا۔جس کا ایک ڈیپارٹمنٹ کھیل اور دوسرا ڈیپارٹمنٹ سیاست بھی ہے۔کہ یہ دونوں ''شو'' بھی ہیں اور بزنس بھی۔گویا
پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب
کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب
ثبوت چاہیے تو ذرا ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور سچن ٹنڈولکر یا شاہ رخ خان کا موازنہ کر دیکھو۔آمدم برسرمطلب یعنی پریشر میں کھیلنا۔تو کپتان صاحب کو ہم مشورہ دیں گے کہ اپنے جملے کی گرائمر درست کرکے ''ہے'' کی جگہ''تھا'' استعمال کریں کیونکہ جسے وہ پریشر سمجھ رہے ہیں وہ''پریشر'' نہیں بلکہ ''اکوپریشر'' ہے اور یہ اوپر کی یاباہر کی طرف سے نہیں بلکہ ''نیچے''سے یا ''اندر'' کی طرف سے پڑتاہے اور کچھ اتنے غیرمحسوس انداز میں پڑتاہے کہ جب آدمی کو پتہ چلتاہے تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اکوپریشر دراصل اپنے ہی جسم کے خاص خاص پوائنٹس پر دباؤ ڈالنے کا نام ہے، کسی کو معلوم کرنا ہو تو اس طرز علاج کے بارے میں جانکاری حاصل کرسکتاہے۔