موسیقار باکمال بلند اقبال
موسیقار بلند اقبال کے انتقال کی المناک خبر سے ذہن کو بڑا زوردار جھٹکا لگا اور دماغ تھوڑی دیر کے لیے سُن ہوکر رہ گیا۔..
لاہور:
موسیقار بلند اقبال کے انتقال کی المناک خبر سے ذہن کو بڑا زوردار جھٹکا لگا اور دماغ تھوڑی دیر کے لیے سُن ہوکر رہ گیا۔ ابھی چند ماہ قبل ہی ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹیشن پر اُن سے جب ہماری ملاقات ہوئی تھی تو وہ نہایت ہشاش بشاش اور بالکل صحت مند نظر آرہے تھے اور کہیں سے بھی 83 برس کے سن رسیدہ نظر نہیں آرہے تھے۔ اس ملاقات میں ریڈیو پاکستان سے متعلق بہت سے دلچسپ باتیں ہوئیں اور بہت سی یادیں بھی تازہ ہوئیں، اس وقت ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ہم سے اچانک اس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں گے اور لیاقت آباد کے اسی قبرستان میں ابدی نیند سوجائیں گے جہاں ریڈیو پاکستان کے ایک اور بڑے عہدیدار اور منفرد لب و لہجے کے شاعر عزیز حامد مدنی مدفون ہیں۔
ریڈیو پاکستان وطن عزیز کا وہ نام وَر ادارہ ہے جس نے بڑی بڑی قد آور شخصیات پیدا کی ہیں اور بڑے بڑے فنکاروں کو متعارف کرایا اور پروان چڑھایا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اس ادارے کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا، قیام پاکستان کے تاریخی اعلان کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔ مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، ریشماں، احمد رشدی اور پٹھانے خان جیسے نابغۂ روزگار فنکار ریڈیو پاکستان ہی کی دریافت اور پیداوار ہیں۔ موسیقار بلند اقبال کا شمار بھی ان ہی عظیم فنکاروں میں ہوتا ہے ، وہ مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کے چھوٹے صاحبزادے اور امرائو بندو خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی موسیقی کی دنیا کے آفتاب وماہتاب تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پاکستان کا نام دنیائے موسیقی میں روشن کیا۔ ان کے گھر انے کے بارے میں بلا تکلف و تردد بڑی آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ ہمارے عزیز دوست امیر احمد خان (مرحوم) کا تعلق بھی دلی کے اسی نام ور گھرانے سے تھا کیونکہ وہ استاد بندو خان کے داماد اور امرائو بندو خان اور بلند اقبال کے بھانجے تھے۔
موسیقی بلند اقبال کو اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی جو سارنگی کے مانے ہوئے استاد تھے، یہ ایک فطری امر تھا کیونکہ باپ پرپوت پتا پرگھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا والی کہاوت اپنے اندر معنی کا ایک سمندر رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے بڑے بھائی استاد امرائو خان سے بھی کسب فیض حاصل کیا جس نے ان کے فن کو چار چاند لگادیے، اتفاق سے ان دونوں بھائیوں سے ہمارے ذاتی مراسم تھے اور امرائو خان نے تو ہمارے بسنت کے گیتوں کے لیے استاد چاندا مروہوی کے اشتراک سے بڑی خوبصورت دھنیں بھی تیار کی تھیں۔ استاد چاند ا مروہی کا ذکر آگیا تو ایک تیر سا قلب میں پیوست ہوگیا۔
بلند اقبال سراپا اسم باسمیٰ تھے۔ انتہائی شریف النفس، مرنجاں مرنج اور بے حد بامروت اور وضع دار، عاجزی و انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ان سے ملنے والے کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے عظیم فنکار کے روبرو ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بڑے فنکار اپنی شہرت کو ہضم نہیں کرپاتے اور وہ مغرور اور گھمنڈی ہوجاتے ہیں۔ مگر بلند اقبال کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا، وہ وہی پھل دار درخت کے سمان تھے جو پھل لگنے کے ساتھ ساتھ جھکتا چلا جاتا ہے۔ عام زندگی میں ایسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں، عجزوانکساری کی سی خوبی گلوکار محمد رفیع مرحوم میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی، تبھی تو رب العالمین نے انھیں نے بے مثل عالمگیر شہرت و عظمت سے نوازا تھا۔
طبلہ، سارنگی ستار ، شہنائی اور بانسری برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کی روح اور آبرو ہیں۔ ان تمام سازوں میں وہ جادو بھرا ہوا ہے جو سننے والے کو مسحور و مبہوت کردیتا ہے جس کی جیتی جاگتی مثال ہم نے پنڈت روی شنکر اور استاد رئیس خان صاحب کی صورت میں دیکھی ہیں۔ بالکل اسی طرح سارنگی نواز میں استاد بندو خان اور ان کے قابل فخر صاحبزادگان امرائو بندو خان اور بلند اقبال نے اپنے کمال فن کا لوہا منوایا ہے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سارنگی آج کے دور میں دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ مغربی موسیقی کے شور میں اس کی سریلی آواز گم ہوتی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر ہمیں محمد رفیع کے گائے ہوئے ایک فلمی گانے کے بول یاد آرہے ہیں
ٹین کنستر پیٹ پیٹ کر گلا پھاڑ مرجانا ہے
یار مرے مت برا مان یہ گانا ہے نہ بجانا ہے
آج سے بیس پچیس برس پہلے ہم نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ موسیقی پر اتنا برا وقت بھی آئے جب اچھل کود کر گانے والے بے سرے لوگ گلوکار کہلائیں گے اور سریلے گائیک رفتہ رفتہ گمنامی کے ساگر میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ بعض اصحاب موسیقی تو ان حالات سے اتنے دل برداشتہ ہوگئے کہ انھوں نے گوشۂ گمنامی میں جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی، بر قول میر
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوںہاتھوں سے تھامیے دستار
برساتی مینڈکوں کی ٹراہٹ میں بھلا سریلے گلوکاروں کی آوازیں کیسے سنائی دے سکتی ہیں۔ ایسے نامساعد حالات میں سچے فنکار اگر موسیقی سے غائب نہ ہوں گے تو پھر اور کیا کریں گے؟ ذرا دیکھیے تو سہی کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش والا ہر فنکار اپنی میوزک البم لے کر مارکیٹ میں آرہا ہے اور اپنے کھوٹے سکوں کو کھرا ظاہر کرکے چلارہا ہے۔ میدان سیاست کی طرح موسیقی کے میدان میں بھی آج ہر طرف بونوں اور اتائیوں کا راج ہے جن میں سے کوئی کرتے فروخت کررہا ہے تو کوئی لان بیچ رہا ہے۔ ان حالات میں بلند اقبال اگر رختِ سفر باندھ کر سفر آخرت پر روانہ نہ ہوتے تو بھلا کیا کرتے۔
استاد بلند اقبال کا شمار برصغیر کے بہترین سارنگی نوازوں میں ہوتا ہے، انھیں اپنے فن پر غیر معمولی عبور حاصل تھا جس کا مظاہرہ انھوں نے ریڈیو پاکستان کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کے دوران بے شمار مرتبہ کیا۔ ان کی رحلت کے ساتھ سارنگی خاموش اور ساکت ہوکر رہ گئی ہے۔ ریڈیو پاکستان کے علاوہ فلم کے میدان میں بھی انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ لعل محمد اقبال کی جوڑی سے بھلا کون واقف نہیں ہے، اس جوڑی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بے شمار لازوال دھنیں عطا کی ہیں جن کی آواز کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں کو بھلاکون فراموش کرسکتا ہے جس کے دوران دھماکا، بارہ بجے، جاگ اٹھا انسان، میرے لعل، دوسری ماں اور نصیب اپنا اپنا جیسی شاہکار فلموں کو موسیقی کی اس جگل جوڑی نے اپنی سدا بہار دھنوں سے سنوارا اور سجایا۔ پاکستانی موسیقاروں کی یہ جوڑی ایسی تھی کہ جس کا موازنہ باآسانی بھارت میں شنکر جے کشن اور لکشمی کانت پیارے لعل جیسی جوڑیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
ایک بہترین کمپوزر کے علاوہ بلند اقبال موسیقی کے بہترین استاد تھے۔ موسیقی کی تعلیم دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ یہ کام بڑا دقت طلب ہوتا ہے یہ کوئی شربت نہیں ہے کہ جسے گھول کر پلا دیا جائے۔ چنانچہ بلند اقبال اپنے شاگردوں کے انتخاب میں بھی بڑے سخت گیر اور محتاط تھے۔ ان کے شاگردوں میں بڑے بڑے اونچے گھرانوں کے پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں جو اپنے استاد کو عمر بھر یاد کرتے رہیں گے۔ ایسے ہی شاگردوں کو موسیقی کی تعلیم و تربیت دینا بلند اقبال کا مشغلہ بھی تھا اور ذریعہ معاش بھی کیونکہ مہنگائی کے اس ہوش رُبا دور میں صرف ریڈیو پاکستان کی پنشن پر گزراوقات ممکن نہ تھی۔ بلند اقبال کے انتقال سے موسیقی کی دنیا اُداس اور ویران ہوگئی ہے۔