پاکستان میں قومی زبانوں کا مسئلہ
شکر ہے کہ یہ حقیقت اب تقریباً سب باشعور لوگ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔
21فروری کوہر سال دنیا بھر میں مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے' یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں رہنے والی قومیتوں کا لباس' ثقافتیں' رسم و رواج' موسیقی اور زبانیں بہت خوبصورت ہیں لیکن ان کو کبھی توجہ نہیں دی گئی' ان کو ہمیشہ نظریہ پاکستان کے خلاف سمجھا گیا' حالانکہ کسی ملک کا اصل نظریہ وہ ہوتا ہے'جس کو وہاںکے باشندے تسلیم کرتے ہوں۔اے این پی کی حکومت کے دوران ایک دن شہید بشیر بلورنے بحث کے دوران صوبائی اسمبلی میں کہا کہ ''اردو پاکستان کی قومی زبان نہیں ہے، یہ رابطے کی زبان ہو سکتی ہے''۔
ادھر مذہبی پارٹیاں اردو کے بجائے عربی کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک اس کے بنیادی مسائل کو بھی حل نہیں کیا جا سکا'آئین اور نظام حکومت کی بات اگر نہ بھی کریں تو یہ سوال تو لازمی کرنا ہوگا کہ پاکستان کی ریاست کی ساخت کیا ہے؟کیا یہ یک قومی ریاست ہے یا کثیر القومی ریاست؟۔'
شکر ہے کہ یہ حقیقت اب تقریباً سب باشعور لوگ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے'جماعت اسلامی بھی اب قومیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ 1948 میں حکومت پاکستان نے اعلان کیاکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی'اس اعلان کے خلاف مشرقی پاکستان میں تحریک شروع ہوئی 'بنگالیوں کا کہنا تھا کہ ملک کی 55 فی صد آبادی کی زبان بنگالی ہے'دوسری بڑی زبان پنجابی' اس کے بعد سندھی' پشتو'بلوچی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں'اصولاً تو ملک کی سب سے بڑی زبان کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے'اگرپاکستان کے حکمران اس پر تیار نہ ہوں تو کم از کم مشرقی پاکستان کی قومی زبان بنگالی'اسی طرح پنچابی 'سندھی' پشتو اور بلوچی قومی زبانیں قرا ر دی جائیں' چونکہ یہ قومیتیں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتیں اور آپس میں رابطہ مشکل ہوتا ہے اس لیے اردو کو رابطے کی زبان کا درجہ دیا جائے' بین الاقوامی رابطے کی زبان انگریزی ہی ٹھیک ہے۔
اس تحریک نے شدت پکڑی اور 21فروری 1952 کو بنگالی زبان کی تحریک کے حق میںڈھاکہ میں طلباء' مزدوروں' دانشوروں اور عوام کا بہت بڑا جلوس نکلا'اس جلوس پر بغیر کسی اشتعال کے سیکیورٹی فورسز نے گولیاں برسائیں اور تقریباً ایک درجن طلباء اور نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے' اس تحریک کی یادمیں ہر سال 21فروری کو تقریبات منائی جاتی ہیںاور اس طرح یہ دن بنگالی قوم پرستی کا مظہر بن گیا' اس تحریک کے بطن سے بنگالی قومی تحریک ابھری جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999 میں اقوام متحدہ نے اس دن کو مادری زبانوں کا دن قرار دیا' یہ دن ہر سال مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے'بنگالی زبان کی تحریک نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے حکمران طبقے ابتداء ہی سے عوامی مطالبات کو ٹھکرا کر اپنی مضبوط مرکز کی پالیسی کو چھوٹی قومیتوں پر نافذ کرنے کی حکمت عملی پرعمل پیرا ہیں۔
پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کا آئین وفاقی ہے'یہاں پر پانچ بڑی قومیتیں آباد ہیں'قوم کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ ''قوم انسانوں کے ایک ایسے پائیدار مضبوط گروہ کا نام ہے'جس کے ارتقاء و عروج میں تاریخ نے ہاتھ بٹایا ہواور جس کے اندر اشتراک زبان' اشتراک ارض اور اشتراک معاش پایا جاتا ہواور ساتھ ہی اس کی نفسیاتی ساخت بھی ایک جیسی ہو'وہ نفسیاتی ساخت جس کا اظہار تہذیبی اتحاد و اشتراک کی صورت میں ہوتا ہو'' اس تعریف کے مطابق پنجابی' سندھی' پشتو، ہندکو 'بلوچی اور سرائیکی پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتیں ہیں۔
قوم چونکہ ایک طویل عرصے میں بنتی ہیں' اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے ارد گرد ایرانی'افغانی' ہندوستانی اور چینی'قومی خصوصیات کی حامل ہیں ' کیونکہ یہ ہزاروں برس سے موجود ہیں' پاکستان ابھی تک قوم نہیں بنا بلکہ اس عمل سے گزر رہا ہے' سینٹرل ایشیائی تہذیب کی حامل قومیتوں ''پختون اور بلوچ'' اور گنگا جمنی تہذیب کی حامل قومیتوں ''پنجابی اور سندھی'' کو ملا کر ایک نیا ملک 68 سال قبل وجود میں آیا تھا'ابھی تو یہ قومیتیں ایک قوم بننے کا سفر شروع کرچکی ہیں۔
شاید تاریخ کے کسی مرحلے پر یہ ملک ایک قوم بن جائے'کرد ہزاروں سال کے بعد بھی ایرانی' عراقی اور ترک قوموں کا حصہ نہ بن سکے'اس لیے اس حقیقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ پاکستان یک قومی ریاست نہیں ہے بلکہ ایک کثیر القومی ریاست ہے۔پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کی ثقافت' رسم و رواج اور زبانوں کا تحفظ اور ان کو ترقی دینا حکومت وقت کی ذمے داری ہے' قومی زبانوں کے اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ہر قومیت کے بچے کو ابتدائی تعلیم اگر اس کی مادری زبان میں دی جائے تو مستقبل میں وہ ایک اچھا طالبعلم ثابت ہوسکتا ہے'ان بڑی زبانوں کے علاوہ ملک میں بہت سی چھوٹی چھوٹی زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں'ان زبانوں کو تحفظ دینا اور ان کی سرپرستی کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے ابھی تک اس مائنڈ سٹ میں مبتلاء ہیں کہ ''پاکستان ایک قومی ریاست ہے'مسلمان ایک قوم ہیں'' اگر کوئی اپنی قومی زبان کی بات کرتا ہے تو غدار ہے اور لائق گردن زنی ہے'بلکہ یہاں تو عربی کو قومی زبان بنانے کی باتیں بھی ہوتی ہیں 'اس طرح حکمران طبقے آج تک چھوٹی قومیتوں کے حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972 میں بھی اور اب بھی پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود پشتو زبان اور تاریخ کی کوئی خدمت نہیں کی گئی' خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں پشتو نام کی کوئی زبا ن نہیں پڑھائی جاتی 'انگلش میڈیم اسکولوں کے طلباء کو تو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ پشتو روئے زمین پر بسنے والے چھ کروڑ افراد پر مشتمل ایک عظیم قوم کی عظیم زبان ہے۔پختونوں میں ارب پتی سرمایہ دار موجود ہیں لیکن تین پنجابی بھائیوں نے پاکستان کا پہلا پشتو ٹی وی چینل شروع کیا' اکثر پختون رہنمائوں کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں'پشتو چونکہ مارکیٹ اور دفتری زبان نہ بن سکی 'اس لیے اس کی طرف توجہ بھی کم ہے'یہ ایک قومی فریضہ ہے کہ پشتو کو بھی ایک برتر قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔
اگر اردو کی ترویج کے لیے ''مقتدرہ قومی زبان''کا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے تو نام نہاد پختون قوم پرستوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا پشتو زبان کے لیے اسی طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوسکتا تھا؟ بلکہ تمام قومی زبانوں کی ترقی کے لیے ادارے بنانا چائیے۔
اس ساری بحث سے کسی طرح بھی اردو کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں' اردو کے بغیر تو شاید پاکستان کا سارا کاروبار بند ہوجائے گا' اردو رابطے کی زبان کی حیثیت سے بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن اس کے باوجود قوموں کی مادری زبانوں کا نعم البدل نہیںہوسکتی'اس لیے لازمی ہے کہ تمام قوموں کی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جائے اور اردو کو رابطے کی زبان'جب کہ انگریزی تو ویسے ہی موجود اور طاقتور ہے' آقائوں کی زبان کو کسی آئینی تحفظ کی ضرورت نہیں۔ کہتے ہیں کہ ''جادو وہ جوسر چڑھ کر بولے'' اور انگریزی کا جادو تو سب مانتے ہیں۔