ہوشیار خبردار
راجستھانی جیل ہی میں قید ایک پاکستانی قیدی کو ہندو قیدیوں نے قتل کر دیا ہے۔
9دن گزر گئے ہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی میڈیا کا (بے جا) غصہ تھم نہیں رہا ۔ طیش میں انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش بھی مسترد کر دی ہے۔ بھارت میں مسلمان ، کشمیریات اور ہر وہ شے جس کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے نکلتا ہے، بھارتی ہندوؤں اور متعصب ہندو مذہبی جماعتوں کے ہدف پر ہیں۔ 13فروری کو پہلے ایران(سیستان) اور پھر ایک دن بعد 14فروری کو مقبوضہ کشمیر (پلوامہ) میں یکے بعد دیگرے دو خود کش حملے ہُوئے ۔
حملوں کا اسٹائل اور اسلوب ایک جیسا تھا۔ دونوں حملوں میں ہلاکت خیز بارُود سے بھری کاریں اپنے متعینہ اہداف سے ٹکرا گئیں ۔درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ سیستان میں شہید ہونے والے پاسدارانِ انقلاب کی تعداد 27 تھی اور پلوامہ کا جانی نقصان 44تھا۔بھارت اور ایران نے پاکستان کے خلاف الزاماتی اُنگلی اُٹھائی ہے ۔ افسوس ،یہ اُنگلی فوراً ہی اُس وقت اُٹھا لی گئی جب ابھی حادثات کو چند گھنٹے بھی نہیں ہُوئے تھے اور تحقیقات کا دُور دُور تک نشان تک نہیں تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایران اور بھارت کی طرف سے عالمی سفارتی قوانین اوراخلاقیات کے منافی قدم اُٹھائے گئے ہیں ۔انھیں اپنے شہریوں کی جانوں کے اتلاف کا یقینا بہت دکھ درد ہوگا لیکن یوں بے محابہ پاکستان کے خلاف الزامات کی بارش ہمارے دونوں ہمسایہ ممالک کو کسی طور زیب نہیں دیتی۔ بھارت کا تو کہنا ہی کیا !!پلوامہ سانحہ کے بعد پورے بھارت میں کشمیری طلبا و طالبات اور کشمیری تاجروں کے خلاف قیامت برپا کر دی گئی ہے۔خود بھارتی میڈیا اعتراف کررہا ہے کہ حملہ آور ہندو غنڈوں سے بچنے کے لیے کشمیری مساجد میں پناہ لے رہے ہیں ۔ پابجولاں کشمیری حریت پسند قیادت اس نئے ظلم پر تڑپ اُٹھی ہے ، لیکن غالب بنیئے کے سامنے بے بس ہے۔
کئی کشمیری رہنماؤں پر مامور سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے ۔ بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم ڈھانے کے لیے مزید کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بھارت سرکار اور بھارتیوںکا غصہ ممتاز شخصیت، نوجوت سنگھ سدھو، کے خلاف بھی نکلا ہے ۔ سدھو جی کا ''جرم'' یہ ہے کہ انھوں نے پلوامہ واقعہ کے حوالے سے پاکستان کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ اُن کا اصولی موقف تھا: ''مَیں پلوامہ کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈال سکتا۔'' چنانچہ فوری طور پر انھیں معروف بھارتی ''کپل شرما شو'' سے علیحدہ کر دیا گیا ہے ۔ اُن کی جگہ بھارتی اداکارہ، ارچنا پورن سنگھ،آ گئی ہیں۔ سدھو جی مگر ابھی تک اپنے موقف پر قائم ہیں ۔نئی دہلی میں ہندوؤں نے اُن پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
اِس پر بھی شدت پسند بھارتیوں کا طیش کم نہیں ہُوا ہے ۔اُ ن کا غصہ مشہور بھارتی مسلمان ٹینس کھلاڑی ، ثانیہ مرزا، پر بھی نکلا ہے ۔ ثانیہ مرزا چونکہ پاکستان کی محترم بہو اور ہمارے نامور کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ ہیں، اس لیے بھی بھارتی انھیں اپنے ٹارگٹ پر رکھے ہُوئے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی صوبہ( تلنگانہ) نے ثانیہ مرزا کو اپنی ریاست کا ''خیر سگالی سفیر'' قرار دیا تھا ۔ اب اِس ریاست کے ایک متشدد رکن اسمبلی ( بی جے پی کے راگا سنگھ) کی قیادت میں تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ، چندر شیکھر راؤ، سے پُر زور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ثانیہ مرزا کو دیا گیا یہ ریاستی ٹائٹل فوری واپس لیا جائے ۔''
بھارتیوں کے غصے میں مزید اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ پلوامہ واقعہ کے تین دن بعد مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین نے پھر پانچ بھارتی فوجیوں کو ٹھکانے لگا دیا ۔ ان میں ایک میجر بھی ہے ۔ اس کا غصہ بھی بھارتیوں نے پاکستان پرنکالا ہے اوروہ یوں کہ موہالی (مشرقی پنجاب) کے کرکٹ اسٹیڈیم میں لگی پاکستان کے مشہور کرکٹروں کی تاریخی تصویریں کچھ پھاڑ دی گئی ہیں اور کچھ نذر آتش ۔ ان نایاب تصویروں کی تعداد تعداد 15 تھی ۔ تصویریںعمران خان، جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کی تھیں ۔
بیہودگی اور بدتمیزی کی یہ حرکت بھارتی پنجاب کی سرکاری کرکٹ ایسوسی ایشن اتھارٹی کے سربراہ(اجے تیاگی) کی قیادت میں ہُوئی ہے۔ اِسی طرح کی قابلِ مذمت حرکت پچھلے دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کی گئی ۔ سر سید احمد خان ؒ کی بِنا کردہ اس یونیورسٹی میں قائد اعظم ؒ کی ایک تاریخی اور قدیم تصویر آویزاں تھی ۔ علی گڑھ میں بی جے پی کے سیاستدانوں نے متفقہ مطالبہ کیا کہ ''بھارت ماتا'' کو تقسیم کرنے والے کی یہ فوٹو یہاں نہیں رہنے دیں گے ۔ لگتا یہ ہے کہ پلوامہ واقعہ کے بعد انڈین اسٹیبلشمنٹ بھارت میں مسلم کش فسادات کرانے پر تُل چکی ہے ۔ اگر کوئی عقل اور تحمل کی بات کرتا بھی ہے تو اُسے نقار خانے میں طوطی کی آواز سمجھا جا رہا ہے ۔
مثال کے طور پر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل، سید عطا حسنین، نے بھارتی روزنامہ ''دی ہندو'' میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔ اس میں بھارتیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی ایک موہوم مسلمان کی خونی حرکت کا ذمے دار تمام بھارتی مسلمانوں کو نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد مضمون نگار کو بھارتیوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ایسے مشتعل ماحول میں جب بھارتی وزیر اعظم صاحب (پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے) یہ کہیں کہ '' بات چیت کا سمے گزر گیا، اب ایکشن کا سمے ہے'' تو پھر بھلا سید عطا حسنین ایسے مسلمان دانشور کی بات پر کون کان دھرے گا۔؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شہ اور اشارے پر بھارتی وزیر خزانہ، ارون جیٹلی، پاکستان کو دیا گیا'' موسٹ فیورڈ نیشن'' ( ایم ایف این)کا اسٹیٹس ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں (بھارت نے22سال قبل یہ اسٹیٹس پاکستان کو دیا تھا) ایم ایف این کے خاتمے کے بعد بھارت پہنچنے والے پاکستانی سامان پر بھاری اور ناقابلِ برداشت ٹیکس لگا دیا گیا ہے ۔ یہ دراصل پاکستانی ٹریڈرز کی کمر توڑنے کا منصوبہ ہے۔ مثال کے طور پر:بھارت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب پاکستان سے جو بھی سامانِ تجارت بھارت پہنچے گا، اُس پر 200فیصد کسٹم ڈیوٹی لگائی جائے گی ۔
پچھلے مالی سال میں پاکستان سے 488ملین ڈالرکا سامانِ تجارت بھارت گیا تھا( اور بھارت سے ایک ارب92 کروڑ ڈالر کا سامان پاکستان آیا تھا) پاکستانی سامانِ تجارت میں پاکستانی پھل اور پاکستانی سیمنٹ زیادہ تعداد میں تھا ۔ ایم ایف این اسٹیٹس کے مطابق، اس سامانِ تجارت پر (پھلوں پر) 30 فیصد اور سیمنٹ پر 7.5فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کی جاتی تھی۔ اب یکدم کسٹم ڈیوٹی دوسو فیصد ہوگی ہے تو ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان سے کون سامانِ تجارت بھارت بھجوائے گا؟
واہگہ اور چکوٹھی پر تجارت معطل ہو چکی ہے۔ پلوامہ واقعہ میں ہلاک ہونے والے44 بھارتی فوجیوں کا تعلق بھارت کے 16صوبوں سے نکلا ہے ۔ مرنے والوں میں صرف ایک سپاہی مسلمان( نصیر احمد) تھا، باقی سب ہندو اور سکھ تھے ۔ سبھی غریب خاندانوں کے جوان۔ مودی نے بھارت کے سولہ صوبوں کے غصے کا رُخ بڑی چابکدستی اور مکاری سے پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کا مشیرِ سلامتی، اجیت ڈوول، بھی پاکستان کے خلاف شیطانی کھیل کھیل رہا ہے۔ بیکانیر (راجستھان) کے ایک جج نے فیصلہ سنایا ہے کہ بھارتی ہوٹل کسی پاکستانی سیاح کو مت ٹھہرائیں۔
راجستھانی جیل ہی میں قید ایک پاکستانی قیدی کو ہندو قیدیوں نے قتل کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم کے الزامات کا معقول ، متوازن اور باکفائت جواب دیا ہے تو بھارت بھنّا اُٹھا ہے۔ اِس ماحول میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل ، انتونیو گُتیری،نے بھی پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش کی ہے لیکن بھارتی ضد اور اکڑ ابھی باقی ہے۔ اُمید ہے ہمارے متعلقہ ادارے ہمہ دَم چوکس اور چوکنّا ہوں گے۔