سعودی ولی عہد کا دورۂ پاکستان 

ولی عہد نے بڑی گرم جوشی سے کہا: آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔


اکرام سہگل February 23, 2019

سعودی عرب کے ولی عہد محترم محمد بن سلمان ایک ایسے وقت میں دوروزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے جب خطہ شدید کشیدگی کا سامنا کررہا تھا۔ پاکستان کو اس وقت داخلی و خارجی مشکلات کا سامنا ہے، معیشت مسائل کا شکار ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے گزشتہ ماہ دو دو ارب ڈالر ملنے کے باوجود پاکستان کا مالیاتی خسارہ برقرار ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر 8.2 ارب ڈالر ہیں، جو محض دو ماہ کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے کافی ہے، یہ ہیں وہ مشکلات جنھیں بیان کرنے کے لیے زرمبادلہ کی طرح لفظ بھی کم پڑجاتے ہیں۔ تاہم محترم گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے یہ بیان دیا تھا کہ مالیاتی استحکام آچکا اور معاشی بحران ٹل گیا ہے، ان کی بات پر اعتبار کے سوا چارہ نہیں تھا۔ لیکن ہم اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ تین سالہ اقتصادی پروگرام کے معاہدے پر بات کررہے ہیں، وزیر اعظم عمران خان جسے آخری آپشن قرار دیتے رہے ہیں۔

جون 2017میں محض31برس کی عمر میں محمد بن سلمان کی ولی عہد کے منصب پر تقرری نے دنیا کو حیران کر دیا۔ ان کی متحرک شخصیت اور امور ریاست کو اپنے خاص انداز میں چلانے کی ان کی صلاحیت نے اس حیرانی کو دو چند کیا۔ انھوں نے سعودی عرب کے روایتی نظام قانون میں اصلاحات کے عزم کا اظہار کیا۔

منصب سنبھالنے کے بعد ملکی مستقبل اور عوام کی طرز زندگی میں بہتری سے متعلق ان کے اقدامات جلد ہی شہ سرخیوں میں آنے لگے۔ ان کی زیر قیادت سعودی عرب تیل پر انحصار کرنے والی معیشت سے آگے بڑھ کر ایک متنوع معاشی پروگرام کی جانب بڑھا۔ سعودی وژن 2030 دراصل سلطنت کا تیل پر انحصار کم کرنے اور خدمات کے شعبوں؛ تعلیم ، انفرااسٹرکچر، صحت، سیاحت، وغیرہ جیسی معاشی و سرمایہ کارانہ سرگرمیوں کے فروغ اور تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات میں بھی اضافے کا ایک جامع روڈ میپ ہے۔

مفاہمت کی یادداشتوں(ایم او یوز) کو عام طور پر غیر یقینی تصور کیا جاتا ہے، اس کے باوجود پاکستان کے ساتھ 20ارب ڈالر کے ہونے والے حالیہ معاہدے دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے آئے ہیں۔پاکستان سعودی عرب کے معاشی اور اسٹرٹیجک شراکت داروں میں شامل ہے۔ قلیل المیعاد ، وسط مدتی اور طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی اہم معاہدے طے پائے ہیں۔

گوادر میں آرامکو کی دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے آئل ریفائنری کا قیام ، اے سی ڈبلیو اے پاؤر کی ری نیوایبل انرجی کے شعبے میں4ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، پیٹروکیمیکل، خوراک اور زراعت کے شعبوں میں ہر ایک میں ایک ارب ڈالر اور معدنیات کے شعبے میں 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اسی طرح آیندہ پانچ برسوں میں سعودی عرب کی جانب سے 21ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سمیت کئی دیگر منصوبوں پر بات ہوئی۔

پاکستان اس وقت اپنی تیل کی ضروریات کا 70فیصد درآمد کرتا ہے۔ حالیہ دورے میں ہونے والے سبھی معاہدے اہم ہیں تاہم آئل ریفائنری کا قیام اہم ترین پیش رفت ہے۔صفائی شدہ تیل کی قیمتیں خام مال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہیں، ریفائنری کے قیام کے بعد پاکستان بڑی مقدار میں خام تیل درآمد کرنے کے قابل ہوجائے گا جس سے قومی سرمایے کی غیر معمولی بچت ممکن ہوگی۔

متبادل توانائی کے پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری اس شعبے میں پاکستان کے لیے مختلف اور متنوع امکانات کے در وا کرے گی اور اس کے نتیجے میں فوسل فیول پر ہمارا انحصار بھی کم ہوگا، جس کے ماحولیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق برادر ملک کی جانب سے ہماری دفاعی پیداوار میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا گیا ہے، یہ جنگی طیاروں اور ٹینکوں وغیرہ کی پیداوار کے لیے مہمیز ثابت ہوگی اور نہ صرف پیداوار کا معیار بلند ہوگا بلکہ اداروں کا معاشی حجم بھی بڑھے گا۔

وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر نہ صرف معزز مہمان نے سعودی عرب کی جیلوں سے 2100پاکستانیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے بلکہ باقی ماندہ قیدیوں سے متعلق بھی ہمدردانہ جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی۔ جب عمران خان نے سعودی عرب میں بیس لاکھ سے زائد پاکستانی مزدوروں کی مشکلات کا تذکرہ کیا تو نہ صرف ولی عہد نے اس پر دردمندی کا اظہار کیا بلکہ جواباً یہ کہہ کر ''ہم پاکستان کو ناں نہیں کہہ سکتے'' پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ بدن بولی یا باڈی لینگویج بہت کچھ کہہ جاتی ہے، ولی عہد نے بڑی گرم جوشی سے کہا: ''آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔ آج ہم نے جو کچھ کیا ہے یہ محض شروعات ہیں اور ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ مختلف منصوبوں میں شراکت مزید بڑھے گی۔''

دل سے نکلنے والا یہ چند سطری بیان دونوں ممالک کے باہمی مضبوط سفارتی اور برادرانہ تعلقات کا ثبوت ہیں۔ یہ اقدامات خطے کی تاریخ میں نئے باب کے آغاز کی ابتدا ہے۔ اپنے نااہل مشیروں کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ میں عمران خان کی مقبولیت کم ہورہی تھی، اس دورے کے بعد اچانک وہ دوبارہ اپنا مقام مستحکم کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

اس دورے کی کام یابی کا سہرا پاکستان میں سعودی سفیر جناب نواف بن سعید المالکی کے سر جاتا ہے۔ ولی عہد کے وفد میں زعما کی بڑی تعداد اور سلامتی سے متعلق اہم امور کی ایجنڈے میں شمولیت سے متعلق اس باوقار شخصیت نے جی جان سے محنت کی۔ ایک قابل اور با بصیرت سفارت کار کے طور پر انھوں نے دونوں ممالک کے مابین دلی رشتوں کو مضبوط کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ منفرد اور بہت خاص ہے۔ ولی عہد کے دورے نے ان تاریخی تعلقات کو نئی بلندیاں عطا کی ہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔