سوال ضرور پوچھیے
پاکستان کے عوام تعلیم ، صحت کی سہولتوں کے لیے کیوں ترستے پھرتے رہتے ہیں۔
کیمرون کی کہاوت ہے ''وہ جو سوال پوچھتا ہے، اسے جواب ضرور ملتا ہے '' دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے ۔ ایک یہودی کو جرمنوں نے اس کے خاندان سمیت گرفتار کر لیا، اسے با قیوں کی طرح ٹرین میں ٹھونس کر بیگارکیمپ لے جایا گیا اس بد نصیب شخص نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی بچوں کو مرتے دیکھا۔
انھیں زہریلی گیس کے ذریعے سے ہلا ک کیاگیا تھا وہ دوسرے قیدیوں کی طرح دن رات کام کرتا ہوا موت کی جانب بڑھ رہا تھا، اسے جب نیند آتی اسے خواب میں اپنے خاندان کی موت کا منظر دکھائی دیتا ، وہ ہڑ بڑا کر بیدار ہوجاتا اور چیخنے لگتا ، اس خواب نے اسے اتنا پریشان کردیا تھا کہ وہ نیند سے ڈرنے لگا تھا، آخر میں اس نے ایک فیصلہ کرلیا وہاں سے بھا گنے کا۔اس کے ذہن میں سما گیا تھا کہ اس خواب سے بچنے کی اب ایک صورت ہے کہ اس جہنم سے بھاگ لیا جائے ، مگرکیسے وہ یہ سوال اپنے آپ سے کرتا اور اپنے ساتھیوں سے بھی ۔
اسے ایک ہی جواب ملتا '' ناممکن '' خدا سے دعا کرو اور صبرکرو ۔ لیکن وہ ان تمام تر مایوس کن باتوں کے اس سوال کے جواب میں رہا، کیسے ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پوچھتے ہیں تو جواب ضرور ملے گا، ایک روز ایسا ہوا کہ یہ شخص لاشوں کے ٹرک کے قریب مشقت میں جتا ہوا تھا ، گلی سٹری لاشوں سے ناقابل برداشت تعفن اٹھ رہا تھا اس نے بڑے غم اور تکلیف سے ان بد نصیب لوگوں کی لاشوں کو دیکھا جنہیں آج ہی گیس کے ذریعے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
اچانک اس کے ذہن میں ایک سوال ابھر آیا کیا میں ان میں چھپ کر یہاں سے فرار ہوسکتا ہوں ۔ اب فوراً ہی اسے جواب مل گیاکہ ہاں ایسا ممکن ہے بس ہمت کی ضرورت ہے وہ فیصلہ کرچکا تھا جوں ہی دن ختم ہوا وہ اپنے ساتھی قیدیوں اور پہرے داروں کی نظروں سے بچ کر اس ٹرک میں داخل ہوگیا یہ لاشیں بالکل برہنہ تھیں ، ان کے جسم سے ہر چیز اتار لی گئی تھی، اس نے بھی اپنے آپ کوکپڑوں سے آزاد کر لیا اور تعفن کے ڈھیر میں گھس گیا۔
آدھی رات کو اس ڈھیر میں اور لاشیں پھینکی گئیں ۔ آخر کار ٹرک روانہ ہوا ٹرک کو کیمپ سے کافی فاصلے پر ایک بہت بڑے گڑھے کے پاس روک دیاگیا تھا، تھوڑی دیر بعد ڈرائیور اور اس کے ساتھی چلے گئے ان لاشوں کو صبح بل ڈوزر سے اس گڑھے میں پھینکا جانا تھا۔
اس نے تھوڑی دیر انتظارکیا ہر طرف ہوکا عالم تھا، اب وہ اس ڈھیر سے نکلا اور بھاگ کھڑا ہوا ، اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا ، ایسا کیوں ہوا تھا ،اس میں اور ان لوگوں میں کیا فرق تھا جو اس کیمپ میں پڑے رہ گئے، اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اس نے الگ سوال پوچھا تھا اور باربار پوچھا تھا اس کا ذہن برابر اس کے جواب کی ٹوہ میں تھا اور آخرکار اسے جواب مل گیا تھا ، جب وہ لاشوں کے ٹرک کے پاس کھڑا تھا ، سوچ سوالات اور ان کے جوابات کے علاوہ کچھ نہیں ، ظاہر ہے کہ پہلے کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ہم اس کے جواب کا انتظارکرتے ہیں۔ بہت پرانی کہاوت ہے وہ جو کبھی نہیں پو چھتا کبھی نہیں پاتا۔
نطشے نے کہا ہے جس کے پاس ایک مضبوط ''کیوں ہے '' وہ ہر قسم کے ''کیسے '' سے نمٹ سکتا ہے ۔ تھامسن ایڈیسن ایک ایسا شخص تھا جس کو اس دنیا میں کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں سب سے زیادہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اپنی غلطیوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ علم ہوا اور اپنی بے شمار غلطیوں کے متعلق ہونے کے باعث اس نے کسی بھی دوسرے شخص کی نسبت زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیں ۔ اس نے 1093 ایجادات کیں جب اسے اپنے تجربات کی طرف سے اسے نہیں پر مشتمل جواب ملا تو اس نے فورا ً پوچھا کیوں ۔ اور جب اسے کیوں کے متعلق علم ہوگیا تو وہ اپنے تجربات میں کامیاب ہوگیا۔
شاید کسی شخص نے بھی اس قدر محنت نہیں کی ہوگی اور کسی بھی شخص کے راستے میں اس قدر مشکلات اور رکاوٹیں نہیں آئی ہوں گی جتنا کچھ پولینڈ کی رہنے والی اس غریب اور بے چاری لڑکی کے ساتھ آئیں جوبعد میں انسانیت کے لیے نہایت ہی عظیم ترین محسن اور مربی ثابت ہوئی اسے تعلیم حاصل کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ بالائی منزل پر ایک ایسے کمرے میں رہنے کے لیے رضا مند اور آمادہ تھی جس میں نہ کوئی کھڑکی تھی نہ گیس نہ بجلی اور نہ ہی گرمائش کا کوئی انتظام تھا، تمام موسم سرما وہ صرف کوئلوں کے دو تھیلے ہی خرید سکتی تھی اسے اس قدر کم خوراک میسر تھی کہ بعض اوقات وہ بھوک کے باعث بے ہوش ہو جایا کرتی تھی بالآخر وہ دنیا کی سب سے عظیم ترین خاتون سائنس دان بن گئی۔
اس نے کامیابی حاصل کرلی ، اس نے دو دفعہ نوبل انعام جیتا ، ایک دفعہ طبعیات میں اور دوسری دفعہ کیمیا میں ۔ کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اور اس کے شوہر نے ایک نیا عنصر ریڈیم دریافت کیا اور پھر سائنس ، طب اور تمام کائنا ت میں ایک انقلاب بر پا کردیا ۔ اس کا نا م مادام کیو ری تھا ۔ ہر ناکامی کے بعد اس کا ایک ہی سوال ہوتا تھا کیوں ۔ اور پھر اسی کیوں نے اسے عظیم کامیابی سے ہم کنارکردیا ، نیوٹن ، قائداعظم ، سقراط ، ارسطو ، افلاطون ،کو پرنیکس ، فرینکلن ، لوئی پاسچر اور دیگر نے اپنے آپ سے سوال کیے اور ان کو جواب مل گئے ۔
یورپ ، امریکا ، برطانیہ کے عوام نے اپنے آپ سے سوال کیے اور ان کو خوشحالی، ترقی،کامیابی کی صورت میں جواب مل گئے جب کہ ہم اس قدر وحشت زدہ قوم بن گئے ہیں کہ ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سوال کے نام سے بھی کانپنے لگتے ہیں ۔ ہر ظلم ، ناانصافی ، زیادتی کے آگے اندھے، گونگے اور بہرے بن چکے ہیں ۔آخر ہم کیوں نہیں سو چتے اور کیوں اپنے آپ سے سوال نہیں کرتے کہ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں کیوں ہے ؟
پاکستان کے عوام اتنے غریب ، مفلس ، لاچار ، بے اختیار ، بے بس اور مظلوم کیوں ہیں ۔ پاکستان میں اتنی کرپشن ، لوٹ مار ، بے ایمانی، دھوکہ دہی، ملاوٹ ، فراڈ کیوں ہے؟ پاکستان میں غنڈوں ، بدمعاشوں ، لیٹروں کی بدمعاشی کیوں ہے؟ پاکستان میں بنیاد پر ستوں ، رجعت پرستوں ، قدامت پرستوں کی بادشاہت کیوں قائم ہے؟ ترقی پسندی ، سیکو لر ازم ، روشن خیالی کفرکے زمرے میں کیوں آتی ہے ۔پاکستا ن میں دہشت گردی ، بدامنی کیوں ہے، انتہا پسندی کا راج کیوں قائم ہے ، پاکستان کے عوام بجلی، گیس، پانی کی سہولتوں سے کیوں محروم ہیں ۔
پاکستان کے عوام تعلیم ، صحت کی سہولتوں کے لیے کیوں ترستے پھرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی کام رشوت ،کمیشن کے بغیرکیوں نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان کیوں بے روزگار مارے مارے پھر رہے ہیں پاکستان کے لوگ آخرکیوں خود کشیاں کر رہے ہیں ، آخر ہم ہر ظلم ، ناانصافی ، زیادتی کے آگے کیوں اندھے، گو نگے، بہرے بنے ہوئے ہیں ہم کیوں اتنے بزدل ہوگئے ہیں ، اگر انسان غورکرے تو دنیا کی ہر چیز سے عمل و ہمت کا نعرہ سنائی دیتا ہے زنگ زدہ ہو کرگل جانے سے یہ بدرجہا بہتر ہے کہ انسان جدوجہد کرتے کرتے فنا ہوجائے کامیابی ہر شخص کی منتظر ہے جیت جدو جہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔
کامیابی کی تمام داستانیں عظیم ناکامی کی کہانیاں ہوتی ہیں ، واحد فرق یہ ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ ناکام ہونے کے بعد وہ ایک بار پھرکوشش کرتے ہیں ۔قسمت اتفاقی معاملہ نہیں ہے یہ انتخاب کا معاملہ ہے اس کا نتظا ر نہیں کیاجاتا اسے تو حاصل کیا جاتا ہے ہارنا جرم نہیں ہے لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے ۔آئیں ! ہم سب مل کر اپنے نصیب بدلنے کی کوشش کریں ۔