بھارتی جنون اور سعودی ولی عہد کی آمد
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد نے پاکستانیوں کو بہت سی خوشیوں سے ہمکنار کیا۔
ان دنوں حالات تیزی سے تبدیل ہوئے اچھی اور بری خبریں ایک ساتھ گردش کرتی رہیں، شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد اور پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات ۔ دراصل بھارتی سرکار کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ بنا سوچے سمجھے وہ الزام لگانے میں عار نہیں سمجھتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک جواب دیا ہے کہ'' بھارتی حملہ ہونے کی صورت میں سوچیں گے نہیں بلکہ بھرپور جواب دیں گے'' لیکن بھارت کا رویہ کل کی طرح آج بھی جارحانہ ہے۔ اس نے اس قدر عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راجستھان سے پاکستانیوں کو نکل جانے کا حکم صادر کردیا ہے یہی نہیں بلکہ پاکستانیوں سے تعلقات رکھنے اور تجارت اور ملازمت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے ہوٹل یا اسپتال میں بغرض علاج کرانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
بھارتی حکومت پر جنون طاری ہوگیا ہے، سی پیک کی کامیابی ہی اسے کھٹک رہی تھی اور اب پاکستان میں عمران خان جیسا محب وطن اور محب اسلام شخص وزیر اعظم بن گیا ہے، جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہے، اسے اپنا نہیں بلکہ ملک کا مفاد عزیز ہے۔ اسے انسانیت سے پیار اور اللہ کا خوف ہے، لیکن اگر شرافت کو شرپسند شاید بزدلی سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔
ماضی میں بھی بھارت ببانگ دہل الزام تراشی میں پیش پیش رہا ہے، 13 دسمبر 2001 کا واقعہ بھی ہند و پاک کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، اس دن اچانک دہشت گردوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا تھا، اس حملے کو ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ بھارت نے عقل سے پیدل ہونے کا ثبوت پیش کردیا اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا، کہ یہ حملہ پاکستان نے کیا ہے۔
اس بات سے سب واقف تھے کہ یہ الزام سراسر غلط ہے لیکن بھارت اس حملے کی آڑ لے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا تھا، اس نے ایسا ہی کیا، پاکستان کی سرحد پر دس لاکھ سے زیادہ تعداد میں اپنی افواج کو جمع کردیا، اس میں بحری اور بری دونوں ہی فوجیں شامل تھیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ اپنی فضائی اور زمینی سروس کو بھی معطل کردیا، سمجھوتہ ایکسپریس کے چلنے پر بھی پابندی لگا دی گئی پاکستان کو بھی اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے پڑے اور صورتحال خطرناک ترین ہوگئی۔
جنگ کے بادل منڈلانے لگے اور یوں لگتا تھا کہ اب ہوئی جنگ، اب ہوئی لیکن امریکا کے دباؤ پر 19 جنوری 2002 کو حالات بدل گئے اور جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس سے قبل بھی پاک بھارت کشیدگی عروج پر رہی یہ 2001 کا آخری مہینہ یعنی دسمبر تھا، پورا برصغیر کشیدگی کی لپیٹ میں آگیا، بھارت اپنے فوجی دستوں کو اس پوزیشن میں لے آیا کہ کسی بھی وقت وہ حملہ آور ہوسکتا ہے، اس کے ساتھ اس نے بحیرہ عرب میں اپنے جہاز پہنچا دیے ۔ کچھ رپورٹیں بھی سامنے آئیں کہ پاکستان نے بھی افغانستان سے ملحق سرحد پر اسلحہ اور فوجی دستوں کو بھارت سے ملنے والی سرحدوں پر متعین کردیا ہے اور دونوں ممالک اعلان بھی کرچکے تھے کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہیں ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے آخرکیوں بھارتی حکومت نظریں چراتی ہے کہ وہ انگریزوں کے غلام تھے اور انگریزوں کے سو سالہ حکومت سے قبل مغلیہ سلطنت کی حکومت تھی مغلیہ سلاطین نے بے حد شان سے حکومت کی، ان کی حکومتوں میں سب کو مساوی حقوق ادا کیے جاتے تھے، تہذیب، تعمیر، ثقافت، علم و دانش، شعر و حکمت غرض ہر موقعے پرکسی کو نظرانداز نہیں کیا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس بھارت کی خارجہ پالیسیوں نے امن وسلامتی کو ہمیشہ سے نقصان پہنچایا ہے۔ وہ کشمیریوں پر گزشتہ ستر سالوں سے ظلم کرتے ہوئے نہیں تھکتا ہے، نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرنا ان کی املاک کو جلانا، گھروں میں گھس کر خواتین کی بے عزتی کرنا اس کا روز کا معمول بن چکا ہے، وزیر اعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں ہیں ان کی کاوشیں اور خلوص نیت رنگ لائے گی اور انشا اللہ کشمیر کا مسئلہ بھی ضرور حل ہوگا ۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد نے پاکستانیوں کو بہت سی خوشیوں سے ہمکنار کیا، پاکستان جو قرضوں میں دبا ہوا غریب ملک تھا، لیکن اب حالات بدلے ہیں، 20 ارب ڈالر کے 7 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں ۔ سعودی ولی عہد نے کہا کہ عمران خان کی قیادت ملک کو درست سمت لے جا رہی ہے، دو ہزار سے پاکستانیوں کو رہا کرنے کا حکم عمران خان کی درخواست پر دیا، یہ عمل ان گھرانوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لایا ہے ، جن کے پیارے کئی سالوں سے سعودی عرب کی جیلوں میں قید تھے، معمولی غلطیاں اور جرائم تھے اسی وجہ سے آزادی کا پروانہ مل گیا، وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانیوں کی اس تکلیف کا احساس شدت سے تھا، اس کے ساتھ حج کی فیس میں کمی اور حاجیوں کے لیے امیگریشن کی اجازت پاکستان میں ہی دی جائے سعودی عرب میں کام کرنے والوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنے کی بات کی تو شہزادہ محمد بن سلمان نے جواباً کہا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرنے والوں کے لیے تمام سہولتیں فراہم کریں گے۔ انھوں نے عشائیے کے موقع پر اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان برادر ملک اور دوست ملک ہیں جو مشکل وقت میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں اور مجھے سعودی عرب میں اپنا سفیر سمجھیں۔
اس خاص موقعے پر اس اہم بات پر بھی روشنی ڈالنی ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اسلام کے پانچویں رکن حج کی ادائیگی کے لیے آسانیاں پیدا کرے تاکہ ہر مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہے چونکہ حج کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے تو یہ اضافی فیس غریب اور متوسط طبقے کے لیے مشکلات کا باعث بن گئی ہے، بے شک حج صاحب استطاعت پر ہی فرض ہے اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کردی ہیں لیکن ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طواف کعبہ اور در رسولؐ پر حاضری دے، اس مقصد کے لیے وہ جدوجہد اور مسلسل محنت کرکے رقم جمع کرتے ہیں، اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت دستک دے دیتی ہے، لیکن حج کی ادائیگی کے امور ادھورے رہ جاتے ہیں ایسی صورت حال کے پیش نظر حج کی فیس اور تمام اخراجات دو تین لاکھ سے زیادہ نہ ہوں اور یہ خصوصی رعایت ان لوگوں کے لیے مختص کی جائے جو مفلوک الحال ہیں، محدود تنخواہیں ہیں حکومت کے لیے یہ بات بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے مفت ٹکٹ فراہم کیے جائیں اس مقصد کے لیے قرعہ اندازی بھی کی جاسکتی ہے۔
الحمد للہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے گہرے اور سچے ہیں کہ اقوام عالم میں ایسی مثال ملنی مشکل ہے، جن ملکوں نے آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا، ان میں سعودی عرب اور ایران قابل ذکر ہیں ۔ پاکستان کا دورہ کرنے والوں میں شہنشاہ ایران محمد رضا پہلوی تھے، جو سب سے پہلے تشریف لائے تھے۔ سعودی عرب سے سربراہانہ تعلقات کا سہرا پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کے سر بندھتا ہے۔
اسکندر مرزا کے دور حکومت میں مزید اضافہ ہوا جنرل ایوب خان کے دور میں بھی نظریاتی تقاضوں کی اہمیت کے پیش نظر رابطے قائم ہوئے۔ 1965 میں شاہ فیصل کی پاکستان میں آمد ہوئی تو دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ آنا جانا شروع ہوگیا جو الحمدللہ آج تک جاری ہے۔ پیار کا رشتہ، اسلام کا رشتہ انشا اللہ تاقیامت تک یوں ہی استوار رہے گا۔