سندھ ادبی میلہ
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ احساس کہیں جڑ پکڑگیا تھا کہ سندھی بھائیوں کی تقریب میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔
گزشتہ دس بارہ برس میں KLF یعنی کراچی ادب میلہ اور کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنسوں میں بارہا شرکت کا موقع ملا ہے اور بلاشبہ یہ دونوں ادبی تقاریب ایسی ہیں جن کی بدولت ادبی میلے اب ایک ملک گیر روایت کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔
اس برس KLF بوجوہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے لیکن اتفاق سے دونوں تقریباًت ایسے دونوں میں طے ہوئیں جب میں ملک سے باہر تھا، اب مزید اتفاق یہ ہوا کہ جب مجھے تیسرے سندھ ادبی میلے کے لیے مدعو کیا گیا تو میں انھی دنوں میں برادر منیر ہانس کے دبئی میں ہونے والے ایک مشاعرے میں کمٹ کر چکا تھا۔
اس میلے کے نوجوان منتظمین نصیر گوپانگ، زوہیب اور نادیہ میری معذرت پر بہت دلگرفتہ ہوئے اور قریب تھا کہ کراچی میں تیسری غیر حاضری لگ جاتی، دبئی والوں نے ریختہ فائونڈیشن کی دبئی میں مجوزہ عالمی کانفرنس کی وجہ سے (جو آگے چل کر عملی طور پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے پلوامہ حملے کی وجہ بالآخر ملتوی ہو گئی) درخواست کی کہ کیوں نہ اسے کچھ دن آگے کر لیا جائے تاکہ خوامخواہ کے ٹکرائو کی کیفیت پیدا نہ ہو، میں نے فوراً ان کی تائید کر دی۔
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ احساس کہیں جڑ پکڑگیا تھا کہ سندھی بھائیوں کی تقریب میں ضرور شامل ہونا چاہیے کہ اس کا تعلق ادب اور زبان کے ساتھ ساتھ قومی ہم آہنگی اور بھائی چارے سے بھی ہے۔ مجھے 20 فروری کو مظفرآباد، آزاد کشمیر میں ریڈ فائونڈیشن کے ایک فنڈ ریزر مشاعرے میں شرکت کے بعد اسلام آباد سے دبئی کی فلائٹ لینا تھی۔ سندھ ادبی میلے کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں اب اسلام آباد سے کراچی آ جائوں اور کم از کم دو دن کے لیے ان کے پروگرام میں شامل ہو جائوں کہ مشاعرے کا یہ التوا ان کی ہی دعائوں کا نتیجہ ہے۔
چند گھنٹوں کے اندر مری کے گرد و نواح میں پندرہ بیس میل تک چاروں طرف پھیلی ہوئی برف کی موٹی تہہ اور شدید سردی کے بعد کراچی کی معقول گرمی تک کا یہ سفر اپنی جگہ پر ایک عجیب و غریب تجربہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسلام آباد کے نئے ہوائی اڈے تک پہنچنے میں ٹریفک اور فاصلے کی وجہ سے اس قدر وقت لگ گیا کہ پی آئی اے والے میرے پہنچنے سے تقریباً دس منٹ پہلے فلائٹ کلوز کر چکے تھے۔
اب ان کا حسن اخلاق تھا یا ادب سے محبت کہ انھوں نے مل جل کر کسی نہ کسی طرح جہاز کی روانگی سے دو منٹ قبل مجھے اس میں سوار کرا ہی دیا۔ اب جب کہ میں اس کے افتتاحی اجلاس کے خاتمے کے بعد ہوٹل بیچ لگژری کے کمراہ نمبر 319 میں یہ کالم لکھنے کی غرض سے محفل موسیقی سے کھسک کر آیا ہوں تو اس کمرے کی کھڑکی سیدھی اس جلسہ گاہ میں کھلتی ہے جہاں یہ محفل منعقد ہو رہی ہے اور گانے والوں کی آواز اس زور و شور سے آ رہی ہے کہ جیسے وہ بالکل سامنے بیٹھے ہوں۔
اس سندھ ادب میلے کی جس چیز نے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے متاثر کیا وہ اس کے منتظمین کا ذوق و شوق اور اپروچ تھی کہ اس کا مقصد نہ تو انگریزی اور اردو یا کسی اور زبان کو نیچا دکھانا تھا اور نہ ہی ان سے لڑائی جھگڑا کرنا یا کسی سیاسی مقصد کا حصول تھا۔ پروگرام انگریزی میں شایع کیا گیا تھا۔ میں نے مشورہ دیا کہ آیندہ اسے زبانی کیجیے اور یہی معلومات سندھی اور اردو میں بھی دیا کریں تاکہ زبانوں کے اس ملاپ اور میل جول کا تاثر واضح ہو سکے جو اصل میں آپ کا مطمعٔ نظر ہے۔
افتتاحی اجلاس میں مشہور ماہر تاریخ ڈاکٹر مبارک علی کے کلیدی خطبے کے علاوہ کچھ مہمانوں کے خطاب، شیماکرمانی کے رقص، پتلی تماشے اور محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس کا کل دورانیہ تقریباً چھ گھنٹے تھا، حیرت اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے دور میں جب کہ اچھی سے اچھی محفل بھی زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے تک اپنی دلچسپی قائم رکھ پاتی ہے اس ادبی جلسے کے سامعین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اگرچہ اسٹیج سے زیادہ تر گفتگو سندھی میں کی گئی جو جلسے کے موضوع کی مناسبت سے بالکل صحیح بات تھی لیکن بیشتر مقررین نے اس میں اردو کا تڑکا بھی لگائے رکھا۔
ڈاکٹر مبارک علی کی بصارت اب تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن ان کا ذہن اور زبان آج بھی اسی طرح تازہ اور مؤثر ہیں۔ پریس کے بے شمار نمایندوں اور کیمروں کی موجودگی میں ان سے فیتہ کٹوایا گیا۔ آخر میں اپنے کلیدی خطبے کے دوران انھوں نے سندھی زبان، تہذیب اور کلچر کو تاریخی حوالوں سے اس خوبصورتی سے سمیٹا اور بیان کیا کہ پندرہ بیس منٹ میں جیسے کئی کتابیں گھول کر پلا دیں۔
پروگرام کا آغاز پتلی تماشے سے ہوا سندھ کی معروف موسیقی کی دھنوں پر پتلیوں کے رقص کو بہت دلچسپ اور ماہرانہ انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے بعد شیما کرمانی کا رقص تھا جس کا پہلا حصہ سولو تھا جب کہ دوسرے میں چند نوجوان رقاص لڑکوں اور لڑکیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ یہ دوسرا حصہ مرحومہ فہمیدہ ریاض کی ایک نظم کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ نظم کی شاعری، موسیقی کی دھن، گائیکی کا کمال اور سب سے بڑھ کر شیماکرمانی کے باکمال اور لاجواب رقص نے ایک سماں سا باندھ دیا۔
کئی بار پہلے بھی ان کے کمال فن سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے لیکن ان کی یہ پرفارمنس اپنی مثال آپ کہی جا سکتی ہے۔ مقررین میں نور الہدیٰ شاہ سابق وائس چانسلر مظہر صدیقی، برادرم احمد شاہ صوبائی وزیر ثقافت عمران سومرو اور کچھ اور احباب سمیت بیرون کراچی سے آئے ہوئے دو مہمانوں یعنی میں نے اور محترمہ نسیم سید نے بھی مختصر خطاب کیا۔ تمام مہمانوں کو سندھی اجرک اور پھولوں کے روایتی تحفے پیش کیے گئے۔
پروگرام کے مطابق آیندہ دو دنوں میں بہت سے سیشن رکھے گئے ہیں جن میں تاریخ، تہذیب، ادب اور ثقافت کے حوالے سے مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا جن میں سے کم از کم تین سیشن ایسے ہیں جنھیں اس تیسرے سندھ ادب میلے کا اختصاص کہا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل کسی بھی ادبی میلے میں کراچی شہر کی قدیم تہذیب، سندھ کے اقلیتی طبقات اور خواجہ سرائوں کے انسانی حقوق کو کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ اجاگر نہیں کیا گیا۔
ان نوجوان منتظمین کے ذوق و شوق اور سامعین کی دلچسپی کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ ادب میلہ بلاشبہ وطن عزیز میں برداشت، بھائی چارے اور باہمی محبت اور اعتماد کو فروغ دینے کے عمل میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور آیندہ کے لیے نئے اور روشن راستے کھولنے کا وہ زندہ استعارہ ثابت ہوگا جس کی اس وقت ہم سب کو شدید ضرورت ہے۔