پلوامہ اور ریڈکلف
تاریخ خود اپنا تعاقب کر رہی ہے۔ جس بونگے انداز میں انگریز سامراج یہاں سے گیا ، یہ اس کا ثمر ہے۔
آج پلوامہ کی صورت میں جو شکل بنی، اس کی جڑیں اس بٹوارے میں ہیں جس کو تاریخ نویس 'تقسیم ہند'' کے نام سے رقم کرتے ہیں اور اس سے پہلے ایک صدی کی غلامی ہے، غلامی توگئی مگر نیم غلامی نہ گئی، برصغیرکے ڈیڑھ ارب لوگ خود اپنے بیانیے سے ڈسے گئے ہیں،کوئی بندے ماترم کے الاپ پر اپنی راگنی سناتا ہے تو کوئی دلی پر وہی مغلوں کی شہنشاہی چاہتا ہے۔
بلی ماراں کی وہ گلی ہو یا محلہ قاسم جان ہو یا پھر یہ سطریں ہوں، بہادر شاہ ظفرکی '' کتنا بد نصیب ہے ظفردفن کے لیے ، دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں'' اردو زبان کی جنم بھومی جہاں اب اردو نہیں رہتی ، جس طرح سندھو ماتری سنسکرت کی جنم بھومی ہے مگر ہم نے اس کی وراثت سے دستبرداری لے لی ۔
ہم نے زبانوں پر مذہب کے رنگ اوڑھ دیے، یہ تھی تقسیم ہند ۔ یہ غلامی چیز ہی ایسی ہے جس طرح خمار جاتے جاتے نیم خمار بن جاتے ہیں اسی طرح غلامی تو جاتی ہے مگر نیم غلامی نہیں ۔ دونوں طرف سے آگ ہے برابر لگی ہوئی۔ دونوں اب ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ وہ معاشی طور پر ہم سے کوسوں آگے ہیں اور ہم دن بہ دن بد حالی میں گھرتے جارہے ہیں۔
دراصل ہمارے پاس سرد جنگ دبے پائوں چلی آئی ۔ قائد فورأ خدا کو پیارے ہوگئے، ہمیں کشمیر انگریزوں نے ایسا ورثے میں ڈالا کہ پون صدی گزرگئی کشمیری اس نہتی آگ میں تو جل رہے ہیں ، جل تو پھر پورا برصغیر رہا ہے۔ یہ کیسا بٹوارہ تھا ۔ برطانیہ کی حکومت نے کہا کہ ہم ہندوستان سے جون 1948 کو جائیں گے مگر یہاں اچانک مائونٹ بیٹن نے یہ اعلان کردیا کہ پندرہ اگست 1947 تک اقتدار منتقل ہوجائے گا ۔ پنکج مشرا نیویارک ٹائم کے اپنے مضمون میں پورا منظر بیان کرتے ہیں کہ جس طرح برطانیہ یہاں سے گیا تھا جیسے یہ برصغیر بھیڑ بکریوں کا اصطبل ہو۔
جب یہاں سو سال ٹھہرے ہو توجاتے ہوئے جو تم نے ہندوئوں کو مسلمانوں سے لڑایا اور مسلمانوں کو ہندوئوں سے ، یہ ٹھیک ہے کہ اس کے بہت سے تاریخی پہلو وحقائق بھی تھے، مگر یہ راگ انگریزکو بھی اچھا لگا ۔ 1857 کی سول نا فرمانی کی قیادت مسلمانوں کی تھی ۔انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا ۔جب جاکے سرسید نے یہ سمجھایا کہ تعلیم انگریزوں کی لو تب تک مسلمانان ہند روٹھے بیٹھے تھے۔ ہندو راجا جی حضوری میں تھے، ہندوئوں کی بھرپور مڈل کلاس ابھر آئی اور اس طرح مسلمان پیچھے رہ گئے۔ جاتے جاتے ذرا تقسیم ہند ترتیب سے کرتے جاتے۔ وہ انگریز سامراج نہ کر پایا۔
خود مائونٹ بینٹن نے بعد میں اعتراف کیا کہ اس کی دی ہوئی جانے کی تاریخ انتہائی مضحکہ خیز حد تک جلد بازی پر منحصر تھی اور جو برطانیہ کا وزیر اعظم چرچل تھا، وہ اس حد تک جنونی کیپٹیلسٹ سوچ میں بیمار تھا کہ جب 1943میں ہندوستان میں قحط آیا تو یہ کہہ کے مدد سے انکارکیا کہ ہندوستانی خرگوشوں کی طرح اتنے بچے کیوں پیدا کرتے ہیں۔
پھر جولائی 1947صرف چار ہفتے کے ملے ہوئے مختصر وقت لیے برطانوی وکیل سائرل ریڈکلف آئے سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے ایک ایسے ملک جہاں اس سے پہلے وہ کبھی نہیں آئے تھے نہ ان لوگوں کے رہن سہن و تاریخ سے واقف تھے ۔ وہ بٹوارہ کرنے جا رہا ہے۔ ریڈکلف نے جو پلان دیا اس سے دس لاکھ لوگ مارے گئے،کروڑ کے لگ بھگ لوگ بے گھر ہوئے ، ہجرت کی۔ مہاجرین کے اتنے کیمپس لگے کہ بنی نوح انسان کی تاریخ میں اسی کی مثال نہیں۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوئی ۔یہاں یہ ہورہا تھا اور ریڈکلف برطانیہ میں سب سے بڑا اعزاز لے رہے تھے۔
اور آج یہ پلوامہ میں ہوا ، مودی نے اس پر خوب کھیلا ، اس بار مودی کا جیتنا اتنا آسان نہیں، وہ مجسم نفرت ہے۔ اس نے ہندوستان کو یرغمال بنا رکھا ہے اور جنہوں نے بھی پلوامہ میں یہ حرکت کی وہ کشمیریوں کی تحریک سے وفادار تھے نہ ہمارے تھے۔ انھوں نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے دراصل مودی کا کام کیا۔ ایسا ہوتا ہے کل جو ہمارے طالبان تھے ،وہ پھر ہمارے خلاف بھی کھڑے ہوگئے۔
تاریخ خود اپنا تعاقب کر رہی ہے۔ جس بونگے انداز میں انگریز سامراج یہاں سے گیا ، یہ اس کا ثمر ہے۔ یہ کوئی گھر کی دیوار نہیں تھی دو بھائیوں کے بیچ پراپرٹی پر تکرار نہیں تھا۔ یہ ہندوستان تھا ۔ یہاں صرف مذہب نہیں تھا۔ کئی قومیں کئی زبانیں بھی تھی ۔ ریڈکلف نے اسے درزی کیْ قینچی کی طرح کپڑا سمجھ کر کاٹ دیا اورآج تاریخ اپنے پاداش میں خود اپنا تعاقب کر رہی ہے۔ برصغیر میں افسوس کوئی سیاسی رفوگر نہیں رہا۔
دنیا میں سب سے پسماندہ برصغیر ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار نہیں کرتے۔ ایک ہی تاریخ کے وارث ہیں ۔ یہ وہی ہمالیہ ہے جہاں سے سب دریا بنتے ہیں، ہماری دشمنی غیر فطری ہے۔ یہ پاکستان کے لوگوں کو سمجھ آگئی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا ، ضیاء الحق کا زمانہ تھا جب ہماری سیاست میں ہندوستان دشمنی بھری ہوئی تھی مگر اب نہیں ۔اس کے برعکس ان کے یہاں ان کی سیاست کا کاروبار ہی سرحدوں پر تنائو سے ایندھن لیتا ہے۔
یہ ہم تھے جنہوں نے کرتار پور کے حوالے سے پہل کی یہ بات مودی سرکار کو اس لیے اچھی نہیں لگی کہ وہ سمجھ بیٹھے کہ ہم ان کے سکھوں کو ان سے الگ کر رہے ہیں ۔ ان کی انتہا پرستی کے لیے ہماری نرم پرستی نقصان دہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں سے بھی شعلہ انگیز ، نفرت سے پر بیان بازی ہو ۔ ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ یہاں بھی چند انتہا پرست یہ چاہتے ہوں گے کہ ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اس لیے کہ وہ یہاں کی سیاست کو یرغمال کر سکیں۔
آج پلوامہ کے حوالے سے جو بھی ہوا برا ہوا مگر کشمیریوں کی تحریک وہاں کی indigenous تحریک ہے۔ اس کو مودی سرکار کے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے والی پالیسی نے اور شورش زدہ کردیا ہے، مگر مجھے سائرل ریڈکلف بہت یاد آئے۔ چار ہفتوں میں اس نے ہندوستان کے صدیوں پرانی تاریخ ، جغرافیائی اور ثقافت کو تقسیم کردیا اور آج پھر ہم اس نازک موڑ پرکھڑے ہیں، ہم بار بار اسی موڑ پرکھڑے ہوں گے ، جہاں ہمیں سائرل ریڈ کلف چھوڑگئے تھے ۔
بہت سمجھایا ولبھ بھائی پاٹیل نے نہرو کو، کلدیپ نیئر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''کہ مت کہو مائونٹ بینٹن کو کہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنائے مگر نہروکہتے تھے کہ میرے اجداد الہ آباد میں یہاں سے آئے تھے اور یہ تھے ہمارے مائونٹ بینٹن اپر مڈل کلاس برطانوی باشندہ جو افسر شاہی سے ابھرا تھا۔ اسے سب یہ بٹوارہ جیسے انتظامی کام سمجھ آئے مگر اسے یہ سمجھ نہ آیا کہ یہ انسانوں کی تاریخ کا معاملہ ہے۔
اگر مان بھی لیں کہ ، مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے، صرف ایک ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ سنبھالی نہیں جاتی اور یہاں سے پھر اڑتے ہیں پر کچھ اس دعویٰ کے ساتھ کہ ہندوستان سیکیولر ریاست ہے۔ کل ہندوستان کے وزیر اعظم آئی کے گجرال نے ہمارے وزیراعظم نواز شریف کو جو شعر سنایا تھا، آج وہ شعر میرا دل کہتا ہے، اور مودی سرکارکو بھی سنایا جائے کہ
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن