’’پندرہ منٹ‘‘
مجھے پہلی دفعہ مزا آیا ہے کہ ہمارے کسی سویلین وزیر اعظم نے بھارت کو کرارا جواب دیا ہے۔
سوچنے سمجھنے کا وقت گزر گیا اگر ستر برسوں میں بھی ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھ سکے تو اب یہ وقت گزر چکا ہے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کو سمجھنے کی حدوں سے بہت دور جا چکے ہیں بھارت جس کو یہ زعم ہے کہ وہ پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے اور پاکستان اس کے مقابلے میں کم آبادی اور کم رقبے والا چھوٹا ملک ہے لیکن ہندو بھارت کو یہ بات کیسے معلوم ہو کہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الااللہ پر رکھی گئی ہے اور یہ دنیا کا واحد ملک جو اسلام اور کسی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ اس ملک کی اساس ہے ۔
برصغیر کے مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ اگر ہندوستان میں ہندوئوں کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے تو اس کے لیے ہندوستان کی تقسیم ضروری ہے اور اس تقسیم سے ایک علیحدہ مسلمان ملک کا وجود ہو جس میں مسلمان اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں کیونکہ متحدہ ہندوستان میں یہ بات ناممکن تھی ہندو اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے بتوں کی پوجا کرتے جب کہ مسلمان ان بتوں کو ختم کر کے ایک خدا پر ایمان لائے تھے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے ساتھ بتوں اور حلال جانوروں کی پوجا ہوتے بھی دیکھیں اور اپنے لیے حلال جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی بھی ہو۔ اس طرح کی کئی اور وجوہات تھیں جن کے نتیجے میں مملکت پاکستان وجود میں آئی۔
پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی کوشش کی ہے اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے کبھی اپنے ہمسائیوں کے ساتھ کوئی ایسی شرارت نہیں کی جس سے ان ہمسائیوں کے مفادات کو نقصان پہنچے لیکن بھارت وہ واحد ہمسائیہ ہے جس کے ساتھ قیام پاکستان سے لے آج تک تعلقات میں بہتری نہیں آ سکی۔ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف تنازعات پر جنگیں بھی لڑی گئیں اور انھی لڑائیوں کے نتیجہ میں ہمارا ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کے لیے بھارت کی سازشیں جاری ہیں۔
بھارتی حکومت ہو یا سیاستدان دونوں پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتے ہیں اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ عالمی برادری میں پاکستان کو تنہاء کرنے کی بھارتی کوششیں ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں ۔ بھارت میں دہشتگردی کا جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کا سیدھا الزام پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ پاکستان آج کل بھی کچھ ایسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ پلوامہ میں ہونے والے دہشتگردی کے حملے میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا ذمے دار براہ راست پاکستان کو ٹھہرا دیا گیا ہے اور عالمی سطح پر واویلا مچا دیا گیا۔
عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس معاملے میں پہل کر دی لیکن بھارتی سرکار کا رویہ وہی رہا جو ایک دشمن ملک کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی رویے کی ایک شکل ہم آج کل دیکھ رہے ہیں بھارت الزام پر الزام لگا رہا ہے اور حسب عادت خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ ان بھارتی دھمکیوں کا جواب سب سے پہلے ہمارے منتخب وزیر اعظم نے دیا ان کا کہنا ہے کہ وہ پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش کرتے ہیں اور پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت دیے جائیں تو وہ خود ایکشن لیں گے۔
تیزی سے بدلتی دنیا میں دنیا بھر کے ممالک کے ایک دوسرے سے وابستہ مفادات میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ پاکستان اس خطے کا ایک اہم ترین ملک ہے اور جب سے چین اور پاکستان کے درمیان راہداری منصوبے پر کام شروع ہوا ہے تب سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اس منصوبے میں رخنے ڈالنے کے لیے نت نئی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے جس میں ابھی تک اسے ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔
اب شائد وہ وقت گزر چکا ہے جب ملک ایک دوسرے کو ڈرا کر اپنا کام چلا لیتے تھے، بھارتی دھمکیوں کا حکومت پاکستان کی جانب سے بھر پور اور واضح جواب دیا گیا ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کی جانب کسی قسم کی جارحیت پر سوچیں گے نہیں بلکہ اس کا بھر پور جواب دیں گے، ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان کام ہوتا ہے لیکن اس کو ختم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ نئی دنیا میں بھارت کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی اور شواہد کے بغیر الزامات سے گریز کرنا ہوگا۔
مجھے پہلی دفعہ مزا آیا ہے کہ ہمارے کسی سویلین وزیر اعظم نے بھارت کو کرارا جواب دیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے جواب میں کوئی پھول نہیں بھیجے گا بلکہ اپنے تمام وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بھر پور جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے دوٹوک اعلان کے بعد اگلے ہی روز ہمارے فوجی ترجمان نے بھی بھارت کو فوجی زبان میں پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج خون کے آخری قطرے تک ملک کی حفاظت کرے گی۔ انھوں نے حکومتی پالیسی کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی کسی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس کا فوری جواب دیا جائے گا۔
مجھے یاد ہے بلکہ میں نے رپورٹ بھی کیا تھا کچھ عرصہ قبل بھی پاکستان کو بھارت کی جانب گیڈر بھبھکیوں کا سامنا تھا اور قوم پریشان تھی میں نے اسی پریشانی میں اسلام آباد کے لیے رخت سفر باندھا اور سیدھا محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور انھیں اپنی اور قوم کی پریشانی سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سامنے پڑے پیڈ کو اپنے سامنے سرکایا اور اس پر ایک لائن میں چند الفاظ لکھ کر میرے حوالے کر دیے۔
میں نے بے تابی سے ان لفظوں کو پہلے پڑھا اور پھر چوم لیا۔ وہ لفظ تھے'' ہم پندرہ منٹ میں بھارت کو ملیا میٹ کر دیں گے اور اس کے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہیں ہو گا''۔ ان کا واضح اشارہ ایٹم بم کی طرف تھا جس کا اس وقت تک باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ وہ پندرہ منٹ اب کم ہو پانچ منٹ میں تبدیل ہو چکے ہوں گے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور پاکستان اس میں بھارت سے کہیں آگے ہے۔ (اس بارے میں مزید معروضات اگلے کالم میں)