کوئل سے کہو نا کُوکے
جیسے ہی درختوں کی خالی شاخیں پتوں سے بھر جاتی ہیں اور نئے موسم کی خوشبو احساس پر دستک دینے لگتی ہے...
جیسے ہی درختوں کی خالی شاخیں پتوں سے بھر جاتی ہیں اور نئے موسم کی خوشبو احساس پر دستک دینے لگتی ہے بالکل اسی لمحے کوئل کی کوک بہار کی نوید کا گیت گنگنانے لگتی ہے۔ جہاں پر بہت سارے درخت ہوتے ہیں وہا ں پرندوں کی پناہ گاہیں ہوتی ہیں، پرندوں کی چہچہاہٹ زندگی کی علامت ہے، زندگی جو آج بہت بدل چکی ہے، مسائل کے بوجھ تلے سسکتی ہے کہ رینگتی ہے، پر چلتی چلی جاتی ہے۔ آج زندگی سانس لیتی ہے مگر خود کو محسوس نہیں کر سکتی، شام و سحر کی گردشوں سے بے نیاز محض وقت کے پل صراط کو پار کر رہی ہے۔ لیکن جب گھر کے سامنے لگے ہوئے نیم کے گھنے درخت پر کوئل بیٹھ کر بے انداز کوکتی ہے تو لمحوں کی تھکن فضائوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
اس کی کوک زندگی کی خوبصورتی کا نغمہ سناتی ہے۔ امید کا استعارہ بن جاتی ہے۔
بوجھل لمحوں کو تر و تازہ کر دیتی ہے۔
پھر مجھے وہ لڑکی یاد آ جاتی ہے جس کی آواز کوئل جیسی تھی۔ وہ کالج کا ہر مقابلہ جیت کر آتی۔ اس کی نعت خوانی ایک سماں سا باندھ دیتی۔ شروع میں وہ نعت پڑھا کرتی مگر اساتذہ نے اس کے والدین کو قائل کر لیا کہ وہ کالج کی طرف سے گلوکاری کے مقابلوں میں حصہ لیا کرے گی، لہٰذا وہ ہر مقابلے میں اول انعام کا تحفہ لانے لگی۔ زینب نام تھا اس کا، اس کا تعلق ایک عام سے گھر سے تھا جو اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے تھک جاتے ہیں مگر اپنے دکھ مسکراہٹوں کی دلکشی میں چھپانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پرندے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں وہ روتے بھی ہیں تو لگتا ہے گا رہے ہوں، لیکن انسانوں کے دکھ پرندوں کے دکھوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں، دیمک جیسے جو اندر ہی اندر تمام تر شادابی کو بھربھرے پن میں تبدیل کر دیتی ہے اور وجود کی شکستہ عمارت کسی وقت بھی زمین بوس ہو جاتی ہے۔ کالج میں ایک بہت بڑے جشن کی تیاریاں زور و شور پر تھیں، جس میں مقابلہ موسیقی بھی شامل تھا۔ گانوں کی خوب ریہرسل ہوتی رہی، زینب کی آواز پر اسے تیاری کروانے والی اساتذہ فدا ہونے لگتیں، اس کے سُروں کی اٹھان روم میں وجد کی کیفیت پیدا کر دیتے اور احساس ایک بے چین لے پر بے اختیار رقص کرنے لگتا۔ زینب کی آواز، ادائیگی و تلفظ کمال کے تھے۔ اس مرتبہ پورے سندھ کے کالج اس مقابلے میں حصہ لے رہے تھے۔
وہ ریہرسل کا آخری دن تھا۔ زینب پر امید تھی مگر اس کا چہرہ کملایا ہوا تھا۔ قدرے خاموش تھی۔ بلا شبہ اس کی آواز کوئل جیسی تھی، کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس کے وجود میں کتنے طوفان مچل رہے ہیں اور مقابلے کے دن جب اس کی باری آئی تو سب بہت پر امید تھے۔ تالیوں کی گونج میں اس نے گھڑولی گانا شروع کی۔ وہ بہت خوبصورت انداز سے گا رہی تھی۔ حضرت سچل سرمست کے کلام کی تاثیر میں اس کی آواز کے سوز نے ایک شدت پیدا کر دی۔
اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا سر، لے اور تال بکھرنے لگے۔ سر کی تان ٹوٹنے لگی۔ سازندے خاموش ہو گئے۔
ہر طرف ایک سناٹا چھا گیا۔ اساتذہ کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ جنہوں نے زینب کو تیاری کروائی تھی زینب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اساتذہ اسے برابر والے کمرے میں لے گئیں۔ اس سے سبب پوچھنے لگیں۔ کہ آخر اسے کیا ہوا۔ کچھ ڈانٹنے لگیں۔ وہ اور شدت سے رونے لگی۔ ہچکیوں میں اتنا کہہ پائی میں نے چار دن سے کھانا نہیں کھایا کیسے گاتی!
اساتذہ اسے ہکا بکا دیکھتی رہ گئیں۔
انھیں معلوم تھا کہ زینب کے والد بیمار تھے۔ زینب کے آٹھ بہن بھائی تھے۔ اس کے والد تمام بچوں کو تعلیم دلوا رہے تھے۔ وہ بڑھئی کا کام کرتے تھے، کبھی روزگار لگتا کبھی بچے بھوکے رہ جاتے۔ لیکن زینب نے کبھی کسی کو اپنی پریشانی نہ بتائی اور نہ ہی کسی سے کچھ مانگا۔ اس کی خود داری اور دکھ کی راز داری قابل تعریف تھے۔ کوئی زمانہ تھا کہ لوگ تین وقت کا کھانا کھا سکتے تھے۔ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ پھر حالات بدلے اور گھروں میں دو وقت کا کھانا بننے لگا۔ پھر یہ سلسلہ ایک وقت پر آ لٹکا۔ پھر گزشتہ چند سال میں اس خوشحالی کو بد عنوانیوں کے عفریت نے نگل لیا۔ آٹھ یا دس افراد پر مشتمل ان گھروں میں ایک وقت کا کھانا تو در کنار دنوں کے فاقوں کی نوبت آ گئی۔ سیاسی ضیافتوں کے دسترخوانوں پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوتے ہیں اور اس ملک کے اکثر بچے ناشتہ کیے بغیر اسکول، کالج و یونیورسٹیز کا رخ کرتے ہیں۔
اور حقداروں کا حق غصب کرنے والوں کے بچے غیر ملکی ریسٹورنٹس میں پر تعیش سالگرہ مناتے ہیں۔ کتنی ہی مہنگائی کیوں نہ ہو مگر بازاروں کی رونق کم نہیں ہوتی۔ لوگ خریداری پر بے دریغ پیسہ خرچ کر ڈالتے ہیں اور ان کے ہی شہر میں زینب چار دن سے بھوکی ہے۔ لیکن انھیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے اپنے بچوں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جس دن زینب کے سُر ٹُوٹ کے بکھرے تھے اسی دن کوئل نے گھنے درختوں میں چھپ کر وہ شور مچایا تھا کہ حیرت سی ہونے لگی کہ اسے زینب کے دکھ کی آخر کیسے خبر ہو گئی۔ کوئل کی آواز کے ساتھ بلبل کا چہکنا بھی شامل ہو گیا۔ فاختہ بھی ان کے ساتھ سُر ملانے لگ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پرندے بہت حساس ہوتے ہیں، انسانی آہوں کو فضائوں سے اپنے اندر انڈیلتے ہیں، پھر بے قرار ہو کر چہچہانے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی کے شاعر جان کیٹس نے اپنی ایک نظم بلبل کے گیت پر لکھ ڈالی۔ جس میں اس کے دکھوں سے بوجھل احساسات بلبل کے گیت کو سن کر سرور کی کیفیت میں ڈھل جاتے ہیں۔ جسے وہ لافانی پرندے کا نام دیتا ہے۔ جس کی آواز نسل در نسل خوشی اور تحرک انسانوں میں بانٹتی ہے۔ جو شاعر کو تصورات کی انوکھی دنیا میں لے جاتا ہے۔ جہاں بھوک، بیماری اور موت اس کی آواز کی سحر میں کھو جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پرندوں کی آوازیں انسان کے دکھوں سے سرد ہوئے احساسات کو جگانے کی کوشش کرتی ہیں۔
کوئل آج بھی کوک رہی ہے، سبز پتوں کی اوٹ میں اور مجھے زینب کی زندگی کا المیہ یاد آ جاتاہے۔ ایک سو اسی ملین آبادی پر مشتمل یہ ملک جس کے وسائل کم ہیں مگر آبادی کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ شہروں کی وسعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ سڑکیں تنگ پڑ گئی ہیں۔ ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جیسا ہجوم دکھائی دیتا ہے جو اپنے دکھ کے بھنور میں ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے۔ آج بہبود آبادی کا شعبہ بے اثر، لا تعلق نظر آتا ہے۔ اس ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی خطرے کا الارم بجا رہی ہے اور سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے رہبر قوم کو سبز باغ دکھاتے رہیں گے۔ زینب کے آنسو بہتے رہیں گے۔
اور یہ کوئل بھی ویسے ہی کوکتی رہے گی
اور ایک عجیب سی خلش دل میں محسوس ہوتی رہے گی