نواز شریف کی ضمانت منسوخی کے بعد کا منظر نامہ
کہیں نہ کہیں سیاسی منظر نامہ ایسا بن رہا ہے کہ آگے بلاول اور شہباز کو مل کر اپوزیشن کو چلانا ہوگا۔
نواز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ ایک طرح سے یہ فیصلہ تمام اندازوں کے برعکس آیا ہے۔عمومی اندازہ تو یہی تھا کہ درخواست ضمانت منظور ہوجائے گی اور نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے جائیں گے تا ہم عدالت نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کر کے تمام اندازوں اور سیاسی تجزیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
میاں نواز شریف کی ضمانت کا امکان اب ختم ہو گیا ہے۔یہ درست ہے کہ نواز شریف کے پاس ابھی سپریم کورٹ میں جانے کاآپشن ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ سے بھی ضمانت ہو سکے۔ اگر ضمانت ملنی ہوتی تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی مل جاتی، اب انھیں جیل میں رہنا ہوگا۔ وہ اسپتال میں تو رہ سکتے ہیں لیکن ان کا باہر آنا ممکن نہیں رہا۔ نواز شریف کی ضمانت منسوخی سے ڈیل کی ان تمام خبروں کی بھی موت واقع ہو گئی ہے جو زبان زد عام تھیں۔
ضمانت کی منسوخی سے عمران خان اور نواز شریف دونوں کو فائدہ ہوا ہے۔ اگر اس موقعے پر ضمانت ہوجاتی تو نواز شریف اور عمران خان دونوں کو سیاسی طور نقصان ہوتا۔ عمران خان کے ڈیل ہو گی اور نہ ڈھیل ہو گی کے موقف کی مکمل نفی ہو جاتی۔ عمران خان سیاسی طور پر ایک بند گلی میں پہنچ جاتے۔ اگر وہ یہ کہتے کہ اس ڈیل ڈھیل میں شریک نہیں تو بھی وہ کمزور ہو تے اور اگر یہ کہتے کہ یہ سب ان کی مرضی سے ہوا ہے تب بھی ان کا نقصان ہوتا۔لوگ کہتے کہ ایک طرف تو کہہ رہے تھے کہ نہ ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہو گی اور دوسری طرف نواز شریف باہر نکل گئے ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ سب ہماری مرضی کے بغیر ہوا ہے تو بھی ایک کمزور حکومت کا تاثر مضبوط ہوتا۔
یہ درست ہے کہ اس وقت نواز شریف کی خواہش یہی تھی کہ ان کی ضمانت منظور ہو جائے۔ لیکن اس ضمانت کا انھیں سیاسی طور پر کافی نقصان تھا۔ اگر ان کی ضمانت منظور ہو جاتی تو اس کا انھیں سیاسی فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا۔ ڈیل کا تاثر آنا تھا۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا جنازہ نکل جانا تھا۔ مجھے کیوں نکالا کی نفی ہوجانی تھی۔ علاج کے لیے بیرون ملک جانا بھی نقصان دہ تھا۔ لوگ کہتے کہ ملک میں علاج کرانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ووٹ بینک کو بھی نقصان ہوتا۔ اس لیے ضمانت کی منسوخی پر زیادہ ماتم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو سیاسی طور پر رحمت ہی سمجھا جائے۔ اگر ضمانت ہو جاتی تو یہ نواز شریف کے لیے سیاسی طور پر زہر قاتل سے کم نہیں تھی۔ ووٹ بینک ٹوٹ جاتااور ڈیل کی قیاس آرائیاں بھی مضبوط ہو جاتیں۔ سب کہتے ڈیل کر کے ضمانت ملی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب نواز شریف خاموشی توڑ دیں گے؟ کیا یہ خاموشی صرف جیل سے باہر آنے کے لیے تھی اور اب جب جیل سے باہر آنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں تو اب خاموش رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ کیا اب نواز شریف کو دوبارہ متحرک سیاست شروع کر دینی چاہیے۔ مریم نواز کو بھی اپنا بند ٹوئٹر اکائونٹ کھول دینا چاہیے اور عوامی و سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دینی چاہیے اور کیا یہ خاموشی کسی ڈیل کی امید پر نہیں تھی بلکہ سیاسی سوچ میں تبدیلی کی وجہ سے تھی۔
اب یہ بات طے ہو گی کہ کیا نواز شریف رہائی کی امید پر خاموش تھے یا خاموشی ایک سیاسی سوچ کا مظہر تھی۔ کیا نواز شریف کی سیاسی سوچ تبدیل ہو گئی ہے یا وہ مصلحت پسندی کی وجہ سے خاموش تھے۔ مریم نواز کو بھی اب اپنے سیاسی مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔کیا انھیں اپنی خاموشی کو برقرار رکھنا ہے یا وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ایک عمومی خیال یہ تھا کہ نواز شریف کو جیل سے اسپتال منتقل کر کے ان کی ضمانت کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے۔ لیکن یہ اندازے اور تجزیے بھی غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ اب فیصلے کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جیل سے اسپتال منتقل ہونے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اگر ضمانت کی سماعت اور فیصلے کے وقت وہ جیل میں ہوتے تو طبی بنیادوں پر ضمانت کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ لیکن اسپتال میں موجودگی نے ضمانت میں مدد کے بجائے نقصان ہی دیا ہے۔ اگر طبی بنیادوں پر ضمانت مانگ رہے ہیں اور جیل میں زیر علاج ہیں تو ضمانت کیوں دی جائے۔ علاج تو ہو رہا ہے۔کوئی عدالت یہ قرار دے دسکتی ہے کہ ملزم کا پاکستان کے اسپتال میں علاج ممکن نہیں۔ اس لیے ملزم کو بیرون ملک علاج کے لیے بھیج دیا جائے۔
اسپتال میں داخل ہونے کے بعد طبی بنیادوں پر علاج پر ضمانت کا کیس ختم ہو گیا تھا۔ اسی لیے پہلے نواز شریف سروسز اسپتال سے ضد کر کے جیل گئے۔ لیکن حکومت نے انھیں دوبارہ جناح اسپتال منتقل کر دیا اور میڈیکل بورڈ بنا دیا۔ اس طرح حکومت ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ضمانت کی منسوخی کے لیے راہ ہموار کر رہی تھی اور حکومت اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی ہے۔ اب حکومت ضمانت کی منسوخی کے بعد نواز شریف کو آسانی سے علاج کے بعد جیل میں دوبارہ منتقل بھی کر سکتی ہے۔
نواز شریف کی ضمانت کی منسوخی کے ملکی سیاست میں بھی بہت اثرات ہوںگے۔ نواز شریف کی زرداری سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی بھی ناکام ہو گئی ہے۔ جیسے پہلے زرداری کی نواز شریف سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی نے زرداری کو کچھ نہیں دیا تھا۔ اب نواز شریف کو بھی کچھ نہیں ملا ہے۔ پہلے زرداری کا خیال تھا فاصلہ انھیں بچا دے گا اور اب نواز شریف کا خیال تھا کہ وہ باہر آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف اور زرداری اپنے اپنے لیے ڈیل کی تلاش ختم کر کے اکٹھے مل کر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔کیا ضمانت کی منسوخی سے متحدہ اپوزیشن کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔کیا زرداری ابھی اپنی ضمانت کے لیے کوشش جاری نہیں رکھیں گے اور ایک مبہم فاصلہ قائم نہیں رکھیں گے۔ کیا مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف تحریک کا جو بگل بجانے کی کوشش کر رہے ہیں، نواز شریف اور زرداری اس میں شامل ہو جائیں گے۔ کیا زرداری جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی کمان اب شہباز شریف کو دینے کے لیے تیار ہیں؟کیا شہباز شریف کو اب مسلم لیگ (ن ) کا با اختیار صدر بنانے کا وقت آگیا ہے۔اگر نواز شریف اور مریم نواز نے خاموش ہی رہنا ہے، اگر انھوں نے اپنا سیاسی بیانیہ تبدیل کرنا ہے تو کمان شہباز شریف کو دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ شہباز شریف ہی اس مشکل وقت میں مسلم لیگ (ن)کی کشتی کو سنبھال سکتے ہیں۔ بحرانی کیفیت میں شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست ہی واحد آپشن ہے۔ اس و قت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی اکثریت شہباز شریف کی سیاست سے متفق ہے۔ کوئی بھی سر دیوار سے مارنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن نواز شریف اور مریم نواز کی وجہ سے سب پریشان ہیں۔
کہیں نہ کہیں سیاسی منظر نامہ ایسا بن رہا ہے کہ آگے بلاول اور شہباز کو مل کر اپوزیشن کو چلانا ہوگا۔ زرداری بھی نواز شریف کی طرح مائنس ہو جائیں گے اور انھیں بھی کمان بلاول کو دینا ہوگی لیکن کب اور کیسے ایک سوال ہے۔ اس سب میں مریم نواز کہاں کھڑی ہوں گی۔ لیکن نواز شریف کی ضمانت کی منسوخی نے نواز شریف کے لیے ڈیل اور ڈھیل کے دروازے فی الحال بند کر دیے ہیں۔ اس لیے وہ بند گلی میں آگئے ہیں۔