ہم اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی حملے کے بعد دنیا کا ردعمل پاکستان کے حق میں نہیں تھا۔


مزمل سہروردی February 28, 2019
[email protected]

پاکستان اور بھارت اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ اس بات سے انکار حقیقت سے انکار کے مترادف ہے۔ میرے دوست جو ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیںہے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر کیا کیا جائے، جواب تو دینا ہی پڑے گا۔ جواب دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

جب بھارتی جہازوںنے پاکستان میں دراندازی کی تو پورا ملک سوگوار تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ غم تھا غصہ تھا۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ بھارتی طیارے گرائے کیوں نہیں گئے۔ کئی دوستوں سے بھی بات ہوئی ان کے بھی یہی جذبات تھے کہ جب بھارتی طیارے ہماری حدود میں آگئے تو بچ کے واپس نہیں جانے چاہیے تھے۔ ان کو گرانا چاہیے تھا۔ کوئی بھی کسی قسم کا عذر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

قوم کے جذبات واضح تھے۔ یہ دلیل بھی کسی کو قبول نہیں تھی کہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ وہ صرف درخت گرا کر چلے گئے ہیں۔ ہمارے درخت بھی ہمارے لیے مقدم ہیں۔ دشمن کو ہمارے درخت گرانے کی بھی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ سب کے ذہنوںمیں ایک ہی سوال تھا کہ وہ ہماری فضائوں میں آکیسے گئے۔ ایک ہی آواز تھی کہ جواب سخت ہونا چاہیے اور فوری ہونا چاہیے۔ قوم اینٹ کا جواب پتھر سے چاہتی ہے۔

ایسے میں اگلے ہی دن بھارت کے دو جہاز گرا کر پاک فوج اور پاک فضائیہ نے قوم کے گرتے مورال کو اٹھا لیا ہے۔ غم خوار اور غصہ سے بھرپور آنکھوں میں واپس چمک آگئی ہے۔ ایک حوصلہ واپس آیا ہے کہ نہیں ہم بدلہ لے سکتے ہیں۔ ہم ایک بہادر قوم ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کے زندہ پکڑے جانے پر جیت کا احساس دوگنا ہوگیا ہے۔ بھارتی جہاز کے ملبے نے حوصلہ دیا ہے۔ غم زدہ آنکھوں میں چمک آئی ہے۔ ٹوٹے حوصلوں کو زندگی ملی ہے۔ ایک احساس واپس آیا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہوں ۔ میں جنگ کی بات کر رہا ہوں۔ میری عقل جواب دے گئی ہے۔ میں ہوش کے بجائے جوش سے بات کر رہا ہوں۔ لیکن کیا کروں، میں پاکستانی ہوں اور یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ دشمن ہمارے ملک میں آکر کارروائی کرے اور زندہ واپس چلا جائے۔ ہم اگر خاموش رہتے تو بھارت ہم سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لے گا۔ اس لیے کرارا جواب ضروری تھا اور وہ جواب دے دیا گیا ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاک فوج نے مناسب جواب دیا ہے اور یہی ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے بھارت اور دنیا کو بتادیا ہے کہ ہم جنگ کے لیے بھی تیار ہیں۔ یہ میرے ذاتی جذبات ہیں،اس سے اختلاف کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ پاکستان نے بھارت کے پائلٹ زندہ گرفتار کیے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے جنگی قیدی رکھنے کے عادی ہیں۔اس لیے یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے پاس کلبھوشن ہے۔ ہم نے کلبھوشن کو بھی رکھا ہوا ہے۔ اب ان پائلٹس کو بھی رکھ لیں گے۔

بھارت نے پاکستان کو جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ اب راہ فرار ممکن نہیں تھی ۔ مودی کا پاگل پن پورے خطے کو جنگ کے نہج پر لے آیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان نے جنگ کو آواز نہیں دی ہے۔ جنگ پاکستان کا آپشن نہیں تھا اور نہ ہے ۔ لیکن دشمن کو بتانا ضروری تھا کہ ہم جواب دینا جانتے ہیں اور اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔اس وقت قوم متحد ہے۔ سیاسی قیادت متحد ہے۔ قوم یک زبان ہے۔ کوئی بھی کسی بھی قسم کی نرمی دکھانے کے حق میں نہیں ہے۔ جواب دینا ہی واحد آپشن تھا اور واحد آپشن ہے۔

پاکستان ائیر فورس کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہی واحد آپشن تھا۔ اس کے سوا کوئی حل نہ تھا اور نہ ہی ہے۔ قوم اس سے کم پر ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اگر ہم آج بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر نرمی دکھاتے تو یہ امریکی ڈرون والامعاملہ بن جاتا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے معاملے میں قبائلی علاقوں میں امریکا کو ڈرون مارنے کی اجازت دی لیکن امریکا نے اس کو ناجائز استعمال کرنا شروع کر دیا۔ امریکی ڈرون پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن گئے۔

بھارت بھی امریکا کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کو اپنا حق منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس سے پہلے ایک جعلی سرجیکل اسٹرائیک کا ڈراما کیا گیا۔ اور اب اس کے جواب میں ایک اور اسٹرائیک کی گئی تاکہ اسٹرائیک کو قابل قبول بنایا جا سکے۔ لیکن بھارت یہ بھول رہا تھا کہ بھارت امریکا نہیں ہے اور جب ہم نے امریکا کو پاکستان میں ڈرون حملوں سے روکنا چاہا تو ہم نے روک لیا،ایسے میں بھارت کیا چیز ہے۔ جب ہم امریکا کو روک سکتے تھے تو بھارت کو روکنے کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی حملے کے بعد دنیا کا ردعمل پاکستان کے حق میں نہیں تھا۔ دنیا کے بااثر ممالک نے خطے میں امن کے قیام کے لیے تحمل کی تو بات کی ہے لیکن بھارت کی واضح مذمت نہیں کی گئی۔ دنیا بھی یہی چاہتی تھی کہ ہم بھارت کی جارحیت کو کڑوی گولی سمجھ کر نگل لیں اور خاموش ہو جائیں۔ دنیا کہہ رہی تھی کہ امن کے لیے خاموش ہو جائیں۔ لیکن خاموشی سے امن نہیں آنا تھا بلکہ دنیا کے سامنے ہماری کمزوری عیاں ہوجانی تھی۔

دنیا کمزور سے جینے کا حق چھین لیتی ہے۔ یہ دنیا کسی کمزور کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی۔اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کسی کمزور ملک کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ جب تک ہم اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، دنیا ہماری سالمیت کا احترام نہیں کرے گی۔ اقوم عالم میں ہماری عزت ختم ہو جائے گی۔ اس لیے جواب ہی واحد آپشن تھا۔ دنیا کی ماننے میں نقصان ہی نقصان تھا۔ آج جواب دینے کے بعد دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے دنیا کی ضرورت نہیں۔ آج ہم کسی ساتویں بحری بیڑے کے انتظار میں نہیں ہیں۔ آج پاک سرزمین کے دفاع کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور دفاع ہی ہماری سالمیت کا ضامن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں